تاریخی اجتماع جس میں اسلامیان ہند نے اپنی منزل کا تعین کیا

قائد اعظم نے فرمایا’’آج اقبال زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ ہم نے اُن کی آرزو پوری کر دی‘‘


قائد اعظم نے فرمایا’’آج اقبال زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ ہم نے اُن کی آرزو پوری کر دی‘‘ فوٹو: فائل

آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس 22 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی استقبایہ کمیٹی کے صدر نواب شاہ نواز خان آف ممدوٹ تھے اور میاں بشیر احمد سیکرٹری تھے۔ اجلاس کے تمام انتظامات مسلم لیگ کی ذیلی تنظیم مسلم نیشنل گارڈز نے سرانجام دیئے تھے۔ اجلاس کے مصارف پورے کرنے کے لیے 20 ہزار روپے کا چندہ جمع کیا گیا تھا جبکہ پونے گیارہ ہزار روپے خرچ ہوئے باقی رقم مسلم لیگ کے فنڈ میں جمع کروادی گئی۔ اجلاس کا اسٹیج حاجی الف دین معمار نے تعمیر کیا تھا۔ اسٹیج پر آویزاں بینر پر علامہ اقبال کا یہ شعر لکھا تھا کہ:

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

اجلاس کے دوران قائداعظم نے ڈیوس روڈ پر واقع ''ممدوٹ ولا'' پر قیام کیا۔ اجلاس کا طے شدہ وقت ڈھائی بجے تھا۔ قائداعظم بھی اسی وقت پنڈال میں تشریف لائے تھے۔ اجلاس میں تقریباً ایک لاکھ افراد شریک ہوئے تھے۔ تلاوت کلام پاک سے آغاز کے بعد میاں بشیر احمد معترکہ الآراء نظم ''ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح'' انور غازی آباد نے پڑھ کر سنائی۔ قائداعظم نے اس اجاس میں فی البدیہ اور برجستہ تقریر کی۔ ان کے خطبہ صدارت کا دورانیہ تقریباً دو گھنٹے تھا۔

مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس اس وجہ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں پیش کی جانے والی پہلی قرارداد کو نہ صرف تشکیل پاکستان کی بنیادی اکائی سمجھا جاتا ہے بلکہ تاریخ میں اس قرارداد کو ''قرارداد پاکستان'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پہلے اسے قرارداد لاہور کے نام سے 23 مارچ 1940کو شیر بنگال مولوی عبدالقاسم فضل الحق نے پیش کیا تھا۔ جس کی تائید سب سے پہلے چوہدری خلیق الزماں (یوپی) نے کی تھی اس کا مسودہ قائداعظم اور سرسکندر حیات نے انگریزی زبان میں تحریر کیا تھا۔

22 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ مقاصد کمیٹی کے اجلاس میں یہ قرارداد لاہور نوبزادہ لیاقت علی خان نے پڑھی تھی جبکہ مولانا ظفر علی خاں نے اردو میں ترجمہ پڑھا تھا۔ قرارداد پاکستان کل چار پیراگراف اور چار سو الفاظ پر مشتمل تھی۔ اس میں لفظ پاکستان کا استعمال نہیں ہوا تھا۔ سب سے پہلے اسے قرارداد پاکستان کا نام بیگم محمد علی جوہر نے دیا تھا۔ ہندو اخبارات ملاپ، پرتاب، ٹری بیون امرت بازار پتریکا نے بھی قرارد لاہور کو قرار داد پاکستان قرار دیا تھا۔ قائداعظم نے اصطلاح ''قرارداد پاکستان 25 دسمبر 1940ء کو پہلی بار استعمال کی تھی۔

اسی اجلاس میں دوسری قرارداد مسئلہ فلسطین کے بارے میں سید رضا علی نے پیش کی۔ تیسری قرارداد میں قائداعظم نے 19 مارچ 1940ء کو خاکساروں پر ہونے والی فائرنگ کا ذکر کیا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے چوتھی قرارداد میں لیگ کے آئین میں دو ترامیم کی تجویز دی۔ سید رضا کی قرارداد پر نوابزادہ لیاقت علی خان کو اعزازی سیکرٹری اور راجا صاحب آف محمود آباد کو اعزازی خزانچی کے عہدوں سے نوازا گیا۔ سب سے آخر میں قائداعظم نے شعلہ نوا مقرر نواب بہادر یار جنگ کو تقریر کرنے کو کہا۔ انہوں نے اسلام اور جمہوریت پر اردو میں تقریر کی۔ قائداعظم کی فرمائش پر انہوں نے دوبارہ تقریر کی تھی۔

24 مارچ 1940ء کو قائداعظم کی غیر موجودگی میں کُرسی صدارت نواب آف ممدوٹ نے سنبھالی۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے یوم قرارداد پاکستان پہلی دفعہ 19 اپریل 1940ء بروز جمعتہ المبارک منایا۔ اس اجلاس میں سب سے زیادہ چندہ چھ سو روپے نواب آف کالا باغ نے دیا۔

ذیل میں اس اجلاس سے خطاب کرنے والے اہم مقررین کی تقاریر سے منتخب اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں

مجلس استقبالیہ کے صدر نواب سرشاہ نواز خاں ممدوٹ

''مسلم لیگ کا کارنامہ جس نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ایک ایسے خطرے سے محفوظ کردیا جو ان کے وجود کو ہی ختم کیے دے رہا تھا، ہندی مسلمانوں کی تاریخ میں ایک سنہرا اور روشن باب بن کر باقی رہے گا۔ آل انڈیا مسلم لیگ، آج کل ان خطوط پر کام کررہی ہے جس سے نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی زندگی اور آزادی کا تیقن حاصل ہوگا بلکہ اس ے ساتھ ساتھ دیگر فرقوں کی آزادی کا بھی تحفظ و تیقین حاصل ہوسکے گا۔''

قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری مطلوب الحسن سید کا بیان ہے کہ قرارداد کی منظوری کے بعد قائداعظم نے ان سے فرمایا ''آج اقبال ہمارے درمیان موجود نہیں۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ یکھ کر خوش ہوتے کہ ہم نے ان کی آرزو پوری کردی۔''

چوہدری خلیق الزماں (یوپی)

''میں مولانا ابوالکلام آزاد سے وہاں بالکل اختلاف کرتا ہوں، جہاں انہوں نے یہ کہا کہ کیونکہ مسلمان اپنی مدافعت کے لیے کافی مضبوط ہیں، اس لیے انہیں علیحدگی کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔'' انہوں نے مزید کہا:

''ان مسلمانوں کی ذمے داری بہت بھاری ہے، جنہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کو نقصان پہنچایا اس لیے کہ وہ نہ صرف موجودہ نسل سے غداری کررہے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں سے بھی۔ اگر کانگریس مسلم کانگریسیوں کے مشورے پر عمل پیرا رہی تو ہندوستان میں خانہ جنگی کا ہوجانا لازمی اور یقینی ہے۔''

پنجاب کی نمائندگی کرتے ہوئے مولانا ظفر علی خان نے اپنے خطاب میں کہا ''میں آج یوں محسوس کررہا ہوں، جیسے ایک آزاد ہندوستان میں بول رہا ہوں۔ ایک عرصہ دراز تک میں ہندو مسلم اتحاد کا علم بردار رہا اور کافی عرصہ تک کانگریس میں بھی رہا۔ اس عرصے میں، میں نے یہ دیکھا کہ کانگریس آزادی کے حصول کی مطلق خواہش مند نہیں ہے بلکہ درحقیقت وہ اقلیتوں کودبانا اور انہیں مجبور کرنا چاہتی ہے''۔

صوبہ سرحد کی نمائندگی کرتے ہوئے سردار اورنگزیب خاں نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا ''مجھے اس قرارداد کی تائید کا اعزاز حاصل ہوا ہے، جس کی تحریک شیربنگال نے پیش فرمائی ہے۔ انہوں نے ہندو صوبوں میں رہنے والے مسلمانوں کو اس قرارداد کی حمایت پر مبارکباد دی اور کہا ''صوبہ سرحد ہندوستان کا دروازہ ہے اور ان مسلمانوں کو جو ہندو صوبوں میں رہتے ہیں، میں یہ یقین دلانے کے لیے یہاں موجود ہوں کہ ہم اپنے ہم مذہبوں کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔''

صوبہ سندھ کی نمائندگی کرتے ہوئے سرعبداللہ ہارون نے قرارداد کی تائید کرتے ہوئے کہا ''یہ ایک امر واقعہ ہے کہ مسلمان سندھ کے راستے ہندوستان میں آئے۔ یہ مسئلہ سندھ کے مسلمانوں کے سامنے سب سے پہلے آیا، جو اب مسلم لیگ کے سامنے ہے۔ مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ اسے بغیر کسی روک ٹوک کے منظور کرلیں''۔

صوبہ بہار کی نمائندگی کرتے ہوئے خان بہادر نواب سید محمد اسمٰعیل نے قرارداد کی بھرپور تائید کرتے ہوئے فرمایا ''میں ایک ایسے صوبے کا باشندہ ہوں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور جہاں مسلمانوں کو آزادیٔ تقریر تک حاصل نہیں ہے۔ مگر یہ شان دار اجلاس، اس سر زمین میں ہو رہا ہے جو آزاد سر زمین ہے اس لیے میں بہت خوش ہوں کہ مجھے آزادانہ تقریر کرنے کی مسرت یہاں حاصل ہو رہی ہے اور پھر میں اپنے مسلم اکثریت والے صوبوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے یہ پیشکش بھی کی ہے کہ مسلم اقلیت کے صوبوں میں مسلمانوں کے حقوق پامال کیے گئے تو ہم آپ کی مدد کو حاضر ہیں''۔

بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہوئے قاضی محمد عیسٰی نے کہا ''جب اکثریتی صوبوں کے مسلمان آزادی، خود مختاری حاصل کرلیں گے تو ان صوبوں کے مسملانوں کو جو اقلیت میں ہیں کبھی فراموش نہیں کریں گے اور ان کے اختیار میں جو کچھ بھی ہوگا، اس سے ان کی مدد کریں گے''۔ انہوں نے سامعین کو یاد دلایا کہ ''صوبہ سرحد کے مسلمانوں کی طرح بلوچستان کے مسلمان بھی ہندوستان کے دربان ہیں، اس لیے کہ وہ درہ بولان پر پہرہ دیتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں''۔

صوبہ مدراس کی نمائندگی کرتے ہوئے عبدالحمید خاں نے قرارداد کی تائید کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا ''کل ہند مسلم لیگ، گزشتہ 37 برس سے ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑرہی ہے، اس جدوجہد میں اس نے محض اس اُمید میں ہندوؤں سے تعاون اور اشتراک عمل کیا کہ ہندوستان کی آزادی کے معنی اس ملک کے رہنے والے ہر فرد کی آزادی ہوگی لیکن اس کی یہ توقعات اور اُمیدیں گیارہ صوبوں میں سے سات صوبوں میں ڈھائی سالہ کانگریسی حکومت کے دوران کانگریسی رویے کے پیش نظر غلط ثابت ہوئیں''۔

صوبہ سی پی کی نمائندگی کرتے ہوئے سید عبدالرؤف شاہ نے قرارداد کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے کہا ''مجھے علم ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد ہمیں ہندوؤں کی حکومت کے ماتحت رہنا ہوگا مگر ہم پاکستان کی حمایت اس لیے کر رہے ہیں کہ ہمارے بھائی تو آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہوں گے اور پاکستان میں اسلام کا بول بالا ہوگا، میں اپنے ہم مذہبوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اقلیتی صوبوں میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے پریشان اور متردد نہ ہوں''۔

بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے خطاب میں فرمایا

یہ وہ باتیں ہیں جو مسٹر گاندھی نے 20 مارچ کو کہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

''میری نظر میں ہندو، مسلمان، پارسی، ہریجن سب برابر ہیں۔ میں کوئی غیر ذمہ دارانہ بات نہیں کہہ سکتا اور جب میں مسٹر جناح کے متعلق کہتا ہوں تو مجھے پوری ذمہ داری سے بات کرنا ہوتی ہے کیونکہ وہ میرے بھائی ہیں۔''

لیکن میرا خیال ہے کہ مسٹر گاندھی غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ بھائی گاندھی کے تین ووٹ ہیں اور میرا صرف ایک ووٹ (قہقہہ) ''اگر وہ مجھے اپنی جیب میں رکھیں تو مجھے بڑی خوشی ہوگی'' میں نہیں جانتا کہ مسٹر گاندھی کی اس تازہ ترین پیشکش کے متعلق میں کیا کہوں؟

''ایک زمانہ تھا جب میں یہ کہتا تھا کہ کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں جس کا اعتماد مجھے حاصل نہ ہو، لیکن یہ میری بدنصیبی ہے کہ آج وہ صورت باقی نہیں رہی''

خواتین و حضرات!

کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ مسٹر گاندھی نے مسلمانوں کا اعتماد کیوں گنوا دیا ہے؟ ''اردو اخبارات میں جو کچھ شائع ہوتا ہے میں وہ تمام کا تمام نہیں پڑھتا غالباً ان اخبار ات میں مجھے بہت برا بھلا کہا جاتا ہے، مجھے اس کا دکھ نہیں۔ میرا اب بھی یہ ایمان ہے کہ ہندو مسلم تصفیہ کے بغیر سوراج حاصل نہیں ہوسکتا''

کیا میں آپ سے یہ دریافت کرسکتا ہوں کہ مسلمانوںکے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی دلی خواہش، اگر ایسی کوئی خواہش موجود ہے تو کیا اس کے اظہار کا طریقہ یہی ہے؟ (آوازیں نہیں نہیں) میں مسٹر گاندھی کے سامنے پہلے بھی کئی بار یہ تجویز پیش کرچکا ہوں اور آج اس پلیٹ فارم سے ایک بار پھر اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ آخر مسٹر گاندھی دیانتداری کے ساتھ یہ اعتراف کیوں نہیں کرلیتے کہ کانگریس ہندؤں کی ایک جماعت ہے اور یہ کہ وہ سوائے ہندوؤں کی ٹھوس اکثریت کے اور کسی کی نمائندگی نہیں کرتے؟ مسٹر گاندھی آخر یہ کہنے میں کیوں فخر محسوس نہیں کرتے کہ ''وہ ایک ہندو ہیں اور کانگریس کو ہندوؤں کی حمایت حاصل ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی کہ میں مسلمان ہوں (تالیاں) پھر یہ سارا فریب اور ڈھونگ آخر کیوں رچایا جارہا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔