قرارداد پاکستان منظور نہ ہوتی تو

73 برس میں بار بار ثابت ہوا کہ دوقومی نظریہ اور اس کی بنیاد پر قیام پاکستان کا فیصلہ درست تھا


73 برس میں بار بار ثابت ہوا کہ دوقومی نظریہ اور اس کی بنیاد پر قیام پاکستان کا فیصلہ درست تھا فوٹو: فائل

RIO DE JANEIRO: بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی بالخصوص اس کے نریندرمودی جب ریاست گجرات اور پھر پورے ملک کے حکمران بنے ، بار بار ثابت ہواکہ 1930ء میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں جو خواب دیکھا تھا اور23 مارچ1940ء کو قائداعظم محمد علی جناح نے جو 'قرارداد پاکستان' کی صورت میں منصوبہ عمل پیش کیا، وہ بالکل درست تھاکہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔

یہ منصوبہ عمل اس لئے پیش کیا گیاتھا، قائداعظم محمد علی جناح سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔

قائداعظم نے 14اگست 1924ء کو بمبئی میں 'ڈیلی ہیرالڈ لندن' کو ایک انٹرویو میں فرمایا تھا:

''نہیں!مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اسے کبھی بھی پاٹا جا سکتا ہو۔آپ ان لوگوں کو ایک ساتھ اکٹھا کر سکتے ہیں جو ایک چھت کے نیچے کھانا کھانے کے لیے تیار نہیں؟کیا آپ کر سکتے ہیں؟یا مجھے یہ بات اس طرح کہنے دیں کہ ہندو گائے کی عبادت کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان اس کو کھانا چاہتے ہیں۔ پھر مصالحت کہاں ہو سکتی ہے؟''

19جنوری1940ء کو اپنے ایک مضمون Western Democracy un-suited for India میں قائد اعظم محمد علی جناح نے لکھا:

''برطانوی قوم کو ضرور محسوس کرنا چاہیے کہ ہندو مت اور اسلام دو علیحدہ اور امتیازی تہذیبیں ہیں۔مزید براں کہ ایک دوسرے سے اپنی ابتدائی روایات، طریق زندگی میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں جیسا کہ یورپی اقوام۔یہ در حقیقت دو علیحدہ اقوام ہیں۔''

پھر 23 مارچ1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لاہور سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

'' ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو مت کی حقیقی فطرت سمجھنے سے قاصر کیوں ہیں۔ یہ محض الفاظ کی خصوصیت کے اعتبار سے مذاہب نہیں بلکہ در حقیقت مختلف اور امتیازی سماجی نظم و ضبط ہیں۔اور یہ ایک خواب ہی ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک یکساں قومیت کو ترقی دے سکتے ہیں۔اور ایک ہندوستانی قوم کا غلط تصور حدود سے تجاوز کر گیا ہے اور ہماری زیادہ تر مشکلات کا سبب ہے اور یہ انڈیا کو تباہی کی طرف لے جائے گا اگر ہم اپنے نظریات پر بر وقت نظر ثانی کرنے میں ناکام رہے۔ ہندواور مسلمان دو علیحدہ مذہبی فلسفوں، معاشرتی روایات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ نہ ہی باہم شادیاں کرتے ہیں اور نہ ہی ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔اور در حقیقت یہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جس کی بنیادی طور پر اساس مختلف تصورات پر ہے۔زندگی پر اور زندگی کے بارے میں ان کے پہلو مختلف ہیں۔یہ قطعی طور پر واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تا ریخ کے مختلف سر چشموں سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ان کی اپنی علیحدہ رزمیہ روایات ہیں،ان کے محبوب و مقبول اور سلسلہ واقعات الگ الگ ہیں۔زیادہ تر ایسا ہی ہے کہ ایک کا محبوب دوسرے کا دشمن ہے اور اس طرح ان کی فتوحات اور شکستیں متراکب ہیں۔ یقینی طورایسی دو اقوام کو ایک ریاست کے تحت ملا دینا ایک کو عددی اقلیت اور دوسری کو اکثریت کے طور پر، بڑھتے ہوئے اضطراب اور اس معاشرتی ڈھانچے کی مکمل تباہی کی طرف لے جائے گاجو ایسی ریاست کی حکومت کے لیے بنایا گیا ہو۔''

ایسا ہرگز نہیں تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح ہندوقوم سے نفرت کرتے تھے، وہ تو ایک عرصہ تک ہندومسلم اتحاد کے علمبردار رہے لیکن واقعات، تجربات، مشاہدات کے سبب وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان اور ہندو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، ان کے درمیان ایسے اختلافات ہیں کہ وہ چاہتے ہوئے بھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔17جنوری1946ء کو لاہور میں خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے واضح طور پر فرمایاتھا: '' اگر ہم قیام پاکستان کی جدوجہد میں کامیاب نہیں ہوتے تو ہند سے اسلام اور مسلمانوں کا نام حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے گا''۔

1947ء کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، اس نے دوقومی نظریہ اور بانی پاکستان کی باتوں کو حرف بہ حرف سچ ثابت کیا۔ وہ اس سے پہلے ہندوؤں کی قیادت کرنے والے جتھوں کی سوچ اور عمل کو بخوبی دیکھ چکے تھے، بالخصوص سن 1937-39ء میں کانگریس کے چھ صوبوں میں اقتدار کے دوران جب مسلمانوں پر نوکریوں اور آگے بڑھنے کے تمام تر دروازے بند کردئیے گئے تھے، مسلمان بچوں کو بندے ماترم جیسے کافرانہ اور مشرکانہ ترانہ پڑھنے اور گاندھی کے بت کی پوجا کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اس دور میں مسلمانوں کی زندگی کیسی تھی؟ یہ جاننے کے لئے پیرپور رپورٹ کا مطالعہ ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دوران میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا گیا تھا۔

دو قومی نظریہ اور اس کی بنیاد پر قیام پاکستان کے فیصلے کو غلط کہنے والے بتائیں کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ان تین برسوں میں مسلم ثقافت کے نقوش مٹانے کے منصوبے تیار ہوئے تھے؟ کیا یہ درست نہیں کہ انتہاپسند تنظیموں نے اپنے آپ کو مسلح کرنا اور عسکری تربیت لینا شروع کردی تھی؟ کیا مسلمانوں پر بدترین سیاسی ظلم و جبر کے شرمناک ریکارڈ قائم نہیں کئے گئے تھے؟ کانگریسی حکومتوں نے ریاستی طاقت کے ذریعے ہندومت کو پورے معاشرے پر مسلط کرنے کی شعوری کوشش کی۔ یہ سب کچھ دیکھ لینے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر اکابرین کے پاس 'قرارداد پاکستان' پیش کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

سن1947ء سے پہلے اور بعد میں کانگریس اور انتہاپسند ہندو ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے۔ان کے درمیان اختلاف محض حکمت عملی کا تھا ورنہ گاندھی، نہرو اور سردار پٹیل متحد ہوکر مسلمانوں کو محکوم ومجبور قوم بنانے کی راہ پر گامزن تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعدازاں انتہاپسند ہندوؤں نے گاندھی کو مجبور کرنے کی کوشش کی کہ وہ مصلحت سے کام نہ لیں اور ہندومت کے تسلط کے لئے برسرعام کام کریں، جب انھوں نے ایسا نہ کیا تو انھیں قتل کردیا گیا۔

آنے والے برسوں میں بھارت میں کانگریسی حکومتوں کے ادوار میں بھی وہی کچھ ہوا ، جو نریندرمودی کی حکمرانی میں ریاست گجرات میں ہوا اور اب پورے بھارت میں ہورہا ہے۔ 1948ء میں ریاست حیدرآباد دکن میں محض تین دنوں میں دو لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ ستمبر، اکتوبر1969ء میں ریاست گجرات میں کم ازکم 2000 مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔48ہزار لوگوں کو ان کی جائیدادوں سے محروم کردیاگیا۔ اگست تا نومبر1980ء میں مرادآباد میں مسلمانوں پر قیامت ڈھائی جاتی رہی۔ ڈھائی ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔فروری1983ء میں نیلی، آسام میں دس ہزار مسلمانوں کو شہید کردیاگیا۔1985-86ء میں ریاست گجرات کے مسلمانوں کو ایک بار پھر انتہاپسند ہندوؤں کے ظلم کا نشانہ بننا پڑا، سینکڑوں مسلمان شہید کردئیے گئے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 275مسلمان شہید ہوئے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اصل اعدادوشمار کیا ہوں گے۔

1987ء میں ہاشم پورہ، میرٹھ میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ کون بھول سکتا ہے! پہلے42 مسلمان نوجوانوں کو اغواکیا گیا، انھیں ایک ویرانے میں لے جاکر گولیوں سے بھون دیا گیا، اس کے بعد ان کے ورثا اور دیگر مسلمانوں پر قیامت ڈھائی گئی، کم ازکم ساڑھے تین سو افراد کو شہید کیا گیا۔1989ء میں بھاگل پور،بہار میں ایک ہزار مسلمانوں کو شہید کیاگیا، 50000 مسلمانوں کو اپنے گھربار چھوڑنا پڑے۔بابری مسجد کی شہادت بذات خود ایک بڑا ظلم تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے، صرف بمبئی میں ایک ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔

1993میں پنجال، منی پور میں ایک سو مسلمانوں کو شہید کردیاگیا۔2002ء میں ریاست گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، تین دنوں میں کم ازکم 2000مسلمانوں کو شہید کیاگیا۔2006ء میں مالیگاؤں میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو ایک بم دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا، ساتھ ہی اس کا الزام مسلمانوں پر عائد کردیا گیا۔ اس دہشت گردی میں 40 مسلمان شہید ہوئے تھے۔ اسی طرح انتہا پسند ہندوؤں نے 2013ء میںمظفرنگر اور 2014ء میں آسام میں داستان خونچکاں لکھی۔ چند ماہ قبل نریندر مودی سرکار نے شہریت کا ایک مسلمان دشمن قانون نافذ کرکے مسلمانوں کو حق شہریت سے محروم کردیا، اس پر جب مسلمانوں نے احتجاج کیا توانھیں چن چن کر قتل کیا گیا۔

مذکورہ بالا تمام واقعات میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی مزید تفصیل بیان کرنا مضمون کی طوالت کے خوف سے ممکن نہیں ورنہ ہر قتل عام کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے کئی کتابیں درکار ہوں گی۔ ان واقعات میں صرف مسلمانوں کو شہید ہی نہیں کیا گیا بلکہ ان کی جائیدادوں کو بھی جلایاگیا اور پھر انھیں دوبارہ آباد نہ ہونے دیاگیا۔ پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز بھیہندو انتہا پسندوںکے شانہ بشانہ رہیں۔ جب مظلوم مسلمان عدالتوں میں پہنچے لیکن انھیں دھکے ہی کھانا پڑے، حتیٰ کہ قاتل اور لٹیرے ہندو جیت گئے اور مظلوم ومقہور مسلمان ہار گئے۔ آپ مذکورہ بالا تمام واقعات کے بعد ان کے مقدمات کا جائزہ لیں، آپ کو ہرمقدمہ میں قاتل کامیاب اور بری ہی نظر آئیں گے۔

ہمارے ہاں ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ مسلمان تقسیم نہ ہوتے تو بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک نہ ہوتا جو 1947ء کے بعد ہوا اور اب تک ہورہا ہے۔ اس نقطہ نظر کے حاملین کو 1937ء سے 1939ء کی کانگریسی حکمرانی میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو دیکھنا چاہئیے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی میں بھارتی مسلمانوں کے ساتھ جب، جہاں، جو کچھ ہوا، اسے بھارتی قوم کے ایک بڑے حصے کی حمایت حاصل رہی۔

بحیثیت مجموعی بھارت میں برداشت کا فقدان ہے۔ اس کے مقابل پاکستان میں ہندوؤں کے ساتھ کبھی غلط سلوک نہیں ہوا۔ کسی ایک ہندو کو ہندو ہونے کے ناتے قتل نہیں کیا گیا جبکہ بھارت میں گزشتہ تہتر برسوں کے دوران میں لاکھوں مسلمانوں کو مسلمان ہونے کے سبب قتل کیا گیا۔ افسوسناک امر ہے کہ بھارت نے ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' کا روپ دھارا، لیکن یہ ملک مسلمانوں کے لئے'' دنیا کی سب سے بڑی قتل گاہ'' ثابت ہوا۔

ہاں! اگر برصغیر کی قیادت کسی مسلمان کے ہاتھ میں ہوتی تو ہندومسلم اقوام ایک ساتھ رہ سکتی تھیں جیسا کہ انگریزوں کی آمد سے قبل ایک ہزار سال تک ہوتا چلا آیا تھا۔ یہ بات کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں کہی جارہی ہے۔دنیا کے تمام مسلم اکثریتی معاشروں کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ وہاں اقلیتیں محفوظ و مامون رہیں، صرف بھارت ایسا ملک ہے جہاں اقلیتیں دنیا بھر میں سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہیں اور ہر قسم کا نقصان اٹھارہی ہیں۔انھیں برسرعام ملک سے نکل جانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ بھارت میں کانگریسی ہوں یا بھاجپا والے، وہ بہرصورت مسلمانوں کو ملک سے نکالنا چاہتے ہیں۔ اسی طرزعمل نے مسلمانوں کو الگ ہونے کی طرف دھکیلا تھا۔ خود بھارت میں کئی قائدین برملا کہہ چکے ہیں کہ تقسیم کے ذمہ دار مسلمان نہیں ہندو تھے۔

دوبرس قبل تبت کے روحانی پیشوا، بدھ مت کے رہنما دلائی لامہ نے بھارت کے شہر 'گوا' میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا :'' اگر نہرو کی جگہ محمد علی جناح کو وزیراعظم بنادیا جاتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا، پاکستان اور بھارت آج ایک ملک ہوتے۔'' سبب یہ ہے کہ مسلمان قلبی اور ذہنی وسعت رکھنے والی قوم ہیں، ان میں برداشت کی خوبی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔

نریندر مودی کی قیادت میں بھارت نے ان مسلمانوں کو شرمندہ کیا جو دوقومی نظریہ کے مخالف تھے اور تقسیم برصغیر کے مخالف تھے۔ کشمیریوں کا وہ طبقہ جو پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے بجائے بھارت کے ساتھ زندگی گزارنا بہتر سمجھتا تھا، اب اپنے فیصلے پر شدید نادم ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر محبوبہ مفتی نے کہا تھا:'' 1947میں دو قومی نظریہ ٹھکرا کے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ الٹا ہمارے گلے پڑ گیا ہے''۔ اور ریاست حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے بھارتی سیاست دان اسد الدین اویسی نے کہا کہ (بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو بدترین سلوک روا رکھا گیا)یہ تو بانی پاکستان محمد علی جناح کی پیش کردہ دو قومی نظریئے کو زندہ کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی بڑی تعداد اب سوچ رہی ہے کہ کاش! وہ تقسیم کے وقت پاکستان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرلیتے۔

چند برس قبل معروف دانشور ڈاکٹرصفدر محمود کی ہندوستان کی لوک سبھا (قومی اسمبلی) کے ایک مسلمان منتخب رکن سے ہوئی ۔ دونوں ایک ہفتے کے لیے امریکہ میں منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں شریک تھے، وہاں دونوں کے درمیان میں دوستی جیسا رشتہ قائم ہوچکا تھا۔ ایک روز لوک سبھا کے رکن نے دل کی بات کہہ دی، انھوں نے بتایا:''میں صبح صبح اپنے بچوں کو اٹھا کر ریڈیو پاکستان سے ''قرآن مجید'' پر نشر ہونے والا پروگرام سناتا ہوں۔ پھر کہنے لگے کہ تقسیمِ ہند کے وقت ہمارے پاس چوائس تھی۔ ایک طرف سیکولر ہندوستان اور دوسری جانب دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والا اسلامی پاکستان۔ سیکولر ہندوستان خود ہمارا انتخاب تھا، اس لیے ہم اپنی موجودہ صورتحال کا الزام کسے دیں؟

بالفرض آج برصغیر میں مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ پاکستان(مغربی و مشرقی)کی صورت میں الگ نہ ہوتا تو ایک طرف52کروڑ مسلمان ہوتے، دوسری طرف ایک ارب تیس کروڑ ہندو۔ پھر برصغیر کے ہر حصے میں مسلمان ہندو انتہا پسندوں کے رحم وکرم پر ہوتے۔ آج حالت یہ ہے کہ بھارت کی کسی بھی ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے تو مسلمان اکثریتی ریاستیں بھی خاموشی سے جبر دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتیں۔ ان حالات میں خود بعض ہندو شخصیات اپنی مملکت کے رویے پر شرمندہ ہیں۔ بھارت سے تعلق رکھنے والی ادیبہ، ناول نگار، دانشور ارون دھتی رائے کا کہنا ہے کہ بھارت کو مہان کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔