طبقاتی نظام میں خواتین کا استحصال

پاکستان میں جاگیرداری کااگرمکمل خاتمہ کردیا جائے تو ان بچیوں کو روزانہ اغوا، ریپ اور قتل کاسلسلہ بڑی حد تک رک سکتا ہے۔


Zuber Rehman March 24, 2020
[email protected]

زنان خانے میں قید خواتین اور سائن بورڈ پر لٹکی ہوئی خواتین کا استحصال ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ایک جانب وہ لاکھوں کروڑوں خواتین جنھوں نے اپنی زندگی میں سورج طلوع اور غروب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور دوسری طرف وہ خواتین جو فائیو اسٹار ہوٹل، اسپتال اور بیوٹی پارلر سے نیچے آنے کو تیار نہیں۔

ایک جانب وہ سرمایہ دار اور جاگیردار خواتین جو اپنے مزدوروں اور کسانوں خواہ عورت ہو یا مرد کا خون پسینہ نچوڑ کر کروڑپتی سے ارب پتی بنتی جا رہی ہیں۔ ہرچندکہ ایسی خواتین کی تعداد کم ہے مگر جتنی بھی ہے ان کا کردار مرد سرمایہ داروں سے کم نہیں۔

دوسری جانب وہ مزدور خواتین جو ہوزری، گارمنٹس، ٹیکسٹائل، چوڑی سازی، صابن بنانے کی فیکٹریوں اور دوا ساز کمپنیوں میں دس ہزار تا پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ اور بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے والی ہیں جنھیں مرد مزدوروں کی نسبت کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔

ایک جانب کاروں میں پھرنے والی خواتین ہیں تو دوسری جانب بسوں میں لٹکتی ہوئی ڈیوٹی پر جانے والی خواتین۔ یہ خواتین کام سے واپس آ کر گھر میں بھی باورچی خانے میں کام پر لگ جاتی ہیں اور دوسری جانب وہ خواتین جن کے محلوں میں دس دس ملازمین چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں، جن میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ یہ طبقاتی نظام ہے جو جنس، نسل، فرقہ یا زبان کو نہیں دیکھتا ہے۔ اس کا ہدف ہی منافع میں اضافہ کرنا ہے۔

کراچی کو لے لیں، گھروں میں کام کرنے والی لاکھوں خواتین صبح سے شام تک جھاڑو پوچھا اور برتن دھونے میں لگی رہتی ہیں۔ ان کی کل کمائی پانچ ہزار روپے تا آ ٹھ ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ آج سے سات ہزار سال قبل موئن جو داڑو میں ایسی انتظامیہ تھی جو اخلاقی اور سماجی ضروریات کے مدنظر کارہائے زندگی کو رواں دواں رکھے ہوئے تھی۔

آثار قدیمہ کے ماہر جان مارشل کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا سماج تھا جو اسلحہ اور مذہب سے بالا تھا۔ انیس سو بیس میں کھدائی کے دوران کوئی اسلحہ ملا، مقبرے ملے، عبادت گاہیں ملیں اور نہ شاہی محل۔ جب کہ اسی دور میں دنیا بھر میں بادشاہتوں، پجاریوں اور فوج کا راج تھا۔ چونکہ موئن جو داڑو میں طبقات تھے اور نہ اس کی کوئی نشانی ملی، اس لیے مرد اور عورت کی تفریق تھی اور نہ استحصال کی کوئی وجہ۔ طبقاتی نظام میں صاحب جائیداد طبقات، خدمت گار طبقات کا استحصال کرتا ہے تو ساتھ ساتھ مرد بھی عورتوں کا استحصال کرتے ہیں۔

مالی اور جسمانی بلوان کمزوروں کو چونکہ لوٹتے ہیں اس لیے مرد بھی خواتین کو ایک جنس کی حیثیت سے ہر طرح کا استحصال کرتے ہیں۔ جب موئن جو داڑو میں ریاست تھی اور نہ طبقات تو پھر مرد کا عورت پر استحصال بھی نہیں ہوتا تھا۔ مل کر پیداوار کرتے تھے اور مل کر بانٹ لیتے تھے ڈھائی ہزار سال تک موئن جو داڑو میں برابری پر چلنے والے نظام میں کھدائی کے دوران طبقاتی اور جنسی استحصال کی کوئی نشانی نہیں ملی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طبقاتی نظام میں ہی خواتین کے استحصال کا سامان مہیا کرتی ہے۔

آج بھی جتنی بچیاں اور عورتیں اغوا، ریپ اور قتل ہوتی ہیں ان میں پچانوے فیصد محنت کش یا پھر متوسط طبقے کے نچلے درجے کی لڑکیاں اور خواتین ہی ہوتی ہیں۔ آپ نے شاید ہی سنا ہوگا کہ کوئی سرمایہ دار، جاگیردار، چوہدری، وڈیرہ یا سردار کی بیٹی بہن اغوا، ریپ یا قتل کی گئی ہو۔ اگر کہیں اور کبھی کی بھی گئی ہو تو وہ بھی مستثنیٰ واقعہ ہے۔ تھرپارکر میں دلت لوگوں کی بیٹیاں اغوا ہوتی ہیں ۔ مگر کسی وڈیرے کی بیٹی اغوا ہوتی ہے اور نہ مسلمان ہوتی ہے۔ ساری بجلیاں محنت کش لڑکیوں پر ہی گرتی ہیں۔

ایبٹ آباد کا علاقہ گلیات میں پاکستان کی سب سے بڑی دو پانی کی ٹنکیاں کیوب اور راؤنڈ شکل کی ہیں جن میں چشمے سے لاکھوں گیلن پانی جمع ہوتا ہے اور اسے مری کے حکمران طبقات کو فراہم کیا جاتا ہے جب کہ اسی ٹنکی کے گرد رہنے والی خواتین سروں پہ لادے میلوں دور سے پانی لاتی ہیں اور راستے میں انھیں چیتے کبھی کبھی کھا بھی جاتے ہیں۔ یہ ہے طبقاتی تفریق۔ کراچی کے گوٹھوں اور محنت کش بستیوں میں کوئی میٹرنٹی اسپتال نہیں ہیں۔

دور سے آنے والی خواتین لیبر روم میں جگہ نہ ملنے سے برآمدے یا باتھ روم میں ہی بچوں کو جنم دیتی ہیں جب کہ کلفٹن اور ڈیفنس میں رہنے والی خواتین آغا خان اسپتال کا رخ کرتی ہیں۔ بنیاد پرستوں اور اعتدال پسندوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ ایک سماج کو جوں کا توں رکھتے ہوئے مذہبی بنیاد پرستی کا سہارا لیتے ہیں تو اعتدال پسند آزادی اور مردوں کا غلبہ والے معاشرے کا سہارا لے کر سرمایہ داری کی حیات کو طول دیتے ہیں۔ دونوں دھڑے طبقات کو ختم نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی سامراجی تسلط سے آزادی۔

ایک اور فکری دھڑا ہے جو فیمنسٹ یا عورتوں کا غلبہ والا دھڑا کہلاتا ہے۔ انسان سب برابر ہے۔ مدر سری ہو یا پدر سری دونوں نظام استحصالی نظام ہیں۔ قدیم کمیونسٹ نظام یا امداد باہمی یا پنچائیتی نظام ہی انسان کی برابری کا نظام ہے، تفریق ریاست کے وجود میں آنے سے ہوئی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان میں صرف جہیز کے نام پر دو ہزار خواتین کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ تعداد ہندوستان، ایران اور بنگلہ دیش سے بھی زیادہ ہے۔

خواتین کے معیار زندگی کے حوالے سے دنیا کے ایک سو سڑسٹھ ممالک کی فہرست میں پاکستان ایک سو چونسٹھ ویں نمبر پہ آ تا ہے۔ لیبر لائزیشن کی ایک اور مثال لاہور میں دارالامان کاشانہ میں رکھی جانے والی بے سہارا بچیوں کو پنجاب کے حکمرانوں کو عیاشی کے سامان کے طور پر پہنچانے کے خلاف آواز اٹھانے والی ''افشاں'' کو پہلے دھمکیاں دی گئیں، پھر غائب کیا اور پھر اسے قتل کروا دیا گیا۔

حکمران طبقے کی درندگیوں کے کارنامے کے حوالے سے حال ہی میں ایک اور بڑا واقعہ سامنے آیا جس میں نوجوان لڑکیوں کے والدین کو شادی کا جھانسہ دے کر پاکستان سے چین میں جسم فروشی کے لیے فروخت کیا جا رہا تھا۔ نجی چینل کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکمرانوں نے چینی حکمرانوں سے دوستی خراب ہونے کے خدشے کے سبب پاکستان میں اس کی ہونے والی تحقیقات کو رکوا دیا گیا۔ خواتین پر ہونے والی ناانصافی کے خلاف انھیں خود لڑنی ہوگی۔

عظیم کمیونسٹ رہنما روز الگزمبرگ نے کہا تھا کہ '' جو حرکت نہیں کرتے وہ اپنے ہی پیروں کی بیڑیوں کو محسوس نہیں کر سکتے۔'' خواتین کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے طبقاتی بنیادوں پہ مرد محنت کشوں کے ساتھ مل کر شانہ بشانہ لڑنا ہوگا۔ پاکستان میں جاگیرداری کا اگر مکمل خاتمہ کر دیا جائے تو ان بچیوں کو روزانہ اغوا، ریپ اور قتل کا سلسلہ بڑی حد تک رک سکتا ہے۔ ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی، موئن جو داڑو جیسا کمیون نظام میں ہی مضمر ہے جہاں ریاست، طبقات، حکومت، فوج، ملکیت اور جائیداد سے بالاتر سماج قائم تھا۔ سب مل کر پیداوار کرتے تھے اور مل کر بانٹ لیتے تھے۔ آج بھی یہی کرنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں