کچا چٹھا ’’کورونا‘‘
کورونا وائرس کی وبا سے دنیا فروری کے وسط میں اس وقت واقف ہوئی جب یہ پہلی مرتبہ عالمی خبروں کی زینت بنا۔
جیسے کورونا وائرس آہستہ آہستہ عالمگیر وبا بنتا جا رہا ہے اسی طرح کورونا وائرس کے بطن سے عالمی اور ملکی سیاست پر پڑنے والے اثرات کی پرتیں بھی عام فرد پر عیاں ہوتی جا رہی ہیں جب کہ ''کورونا وبا'' کی کچھ پرتوں پر سیاسی مبلغین اب تک سوچ و بچار میں مصروف ہیں جب کہ دوسری جانب اس وبا نے دنیا کے سائنسدانوں کو ایک ایسی حیرت کا شکار کر دیا ہے جس سے سائنسی علم کی تحقیق کے دانش کدے میں ایک اضطراب اور نیم شرمندگی کے عنصر نمایاں دکھائی دیتے ہیں کہ اب دنیا ان سائنسدانوں کی تحقیق یا اس وبا کے بارے میں ان کی جانکاری پرسوال کررہی ہے اور اب تک یہ سائنسی محقق عام فرد کو تسلی بخش جواب نہیں دے پائے ہیں۔
بالکل اسی طرح دنیا بھر کے معیشت دان بھی اس عالمی کورونا وبا کے معاشی اثرات اور اس کے منفی تانوں بانوں کی کڑیاں ملا کر عالمی معاشی کساد بازاری یا عالمی سرمایہ کاری کے سازشی میل تال تلاش کرنے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ کورونا وائرس کی سرمایہ دارانہ خرمستی نے جہاں عوام کی معاشی و سیاسی مشکلات میں اضافہ کیا ہے وہیں انسانوں کے عقیدے کی شکست و ریخت بھی ایک چیلنج کے طور پر عام انسانی ذہن کا ایک مضبوط سوال بنتی جا رہی ہے۔
عام فرد سے لے کر سیاستدان،معاشی ماہر، سائنسدان اور مذہبی اسکالر سب ہی اپنی اپنی جگہ مضطرب ہیں ۔کسی کو کچھ سجائی نہیں دے رہا جب کہ کورونا وائرس ہے کہ پوری دنیا کے سو سے زائد ممالک میں بغیر پیشگی اجازت کے دندناتا ہوا داخل ہو رہا ہے اور فرد کی جان کو ہڑپ کرنے میں خاموش سفاکی سے اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور ترقی یافتہ حکومتیں بھی کورونا وائرس کے سامنے بے بس سی نظر آتی ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا سے دنیا فروری کے وسط میں اس وقت واقف ہوئی جب یہ پہلی مرتبہ عالمی خبروں کی زینت بنا،سب جانتے ہیں کہ عالمی معیشت پر راج کرنیوالے سوشلسٹ چین میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے اور معاشی طور سے مستحکم شہر ووہان میں ''کورونا وائرس'' کے انکشاف پر امریکی صدر ٹرمپ کا یہ بیان کہ چین سے دنیا اپنا رشتہ جوڑنے میں احتیاط کرے کیونکہ چین ایک مہلک وبا میں گرفتار ملک ہو گیا ہے،جس کے اثرات دنیا کی دیگر معیشتوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
کورونا وائرس کے حملے کے بعد چین نے ووہان کو لاک ڈائون کرکے اسے وہیں تک محدود رکھا اور اس طرح کورونا وائرس کی یہ جان لیوا وبا چین کے دیگر شہروں تک نہ پہنچ پائی جب کہ امریکا سمیت دیگر یورپی ممالک چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کا اندازہ 90ہزار تک لگائے بیٹھے تھے جو چینی اقدامات سے غلط ثابت ہوئے، اس وبا کے خلاف چینی حکومت نے بروقت اقدامات سے ووہان شہر میں ہی ''کورونا وائرس'' کو دبوچ لیا اور اسے چین کے دیگر حصوں میں جانے سے روکے رکھا،جس میں چین کی سوشلسٹ حکومت کے بروقت اقدامات سے یہ وبا چین کے دو ہزار سے زائد افراد کو ہی نگل پائی جب کہ دیگر افراد تک پہنچتے پہنچتے بے جان اور بے بس بنادی گئی۔
آج کی دنیا میں چین اس مشکل گھڑی سے خود کو بچانے میں کسی حد تک کامیاب رہا اور اب چینی معیشت اور سماجی زندگی میں دوبارہ ربط شروع کیا جا چکاہے،کورونا وائرس کے خلاف چین کے بروقت اقدامات نے دنیا کو جہاں ورطہ حیرت میں ڈالا وہیں چین دنیا کے سامنے ایک تجربہ کار اور ماہر لڑاکا کے طور پر سامنے آیا کہ جس کے تجربات سے دنیا اس موذی وبا سے نمٹنے میں مدد لے رہی ہے اوردوسری جانب چین نے دنیا کو اپنی ماہرانہ خدمات کی پیشکش بھی کردی ہے جب کہ چین نے وزارت خارجہ کے تحت امریکی پروپیگنڈے پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے چینی معیشت کو نقصان پہنچانے والی ایک سازش قرار دیا ہے،جب کہ دوسری جانب روس اور چین نے یہ خبر بھی اہل نظر و عوام کے لیے عام کردی ہے کہ ''کورونا وائرس'' سرمایہ دارانہ سفاکیوں کی ایک ایسی ''بیالوجیکل جنگ'' ہے جس میں امریکا برطانیہ اور یورپین ممالک کے ساتھ دنیا میں انسانی ہمدردی کے امیر ترین ٹھیکیدار ''بل گیٹس''نے مل کر چین اور دنیا کی آگے بڑھتی ہوئی معیشت کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کو سازشی انداز میں بیالوجیکل حملے سے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے ، سرمایہ دارانہ سفاکیوں کے پیش نظر مذکورہ دلیل اور خبر کی تصدیق آنے والا وقت ضرور کرے گا، مگر روس اور چین کی اس امریکی سازش کے انکشاف سے مکمل اختلاف کرنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔
قرین قیاس ہے کہ اسی لیے سندھ میں کورونا وائرس کے خطرے کا احساس دلا کر لاک ڈائون کرتے وقت تمام سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ بٹھا کر کورونا بیرونی امداد کے فوائد کی یقین دہانی کرائی گئی اور سب سے دلچسپ بات پی ٹی آئی سندھ کی لاک ڈائون پر آمادگی تھی جب کہ تحریک انصاف کی حکومت کو وفاقی سطح پر لاک ڈائون کے خلاف دکھایا گیا،اس پوری صورتحال میں ملکی اشرافیہ اور پی پی کا عالمی امداد سے بہرہ مند ہونا نظر آتا ہے۔
کورونا وائرس کے جان لیوا مضر اثرات کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے مضر اثرات سے عام فرد کی زندگی بچانے کے اقدامات پر بظاہر وفاق اور خاص طور پر سندھ کی صوبائی حکومت میں تضادات دکھانے کی کوشش دراصل عوام کی آنکھ میں جمہوریت پسند دھول جھونکنے کے مترادف ہے جب کہ وفاق، صوبہ اور ملکی اشرافیہ کورونا وائرس کے ضمن میں بیرونی امداد لینے پر متفق ہیں مگر طے شدہ حکمت عملی کے تحت سندھ میں پی پی نے اور وفاق نے خود کو اپنے اپنے سیاسی بیانیے پر برقرار رکھا تاکہ وہ اپنے ووٹر کو مطمئن بھی رکھیں،اس مقصد کے تحت زیرک حکمت عملی سے سندھ حکومت کی کارکردگی کا پروپیگنڈہ میڈیا کے تعاون سے مثبت کروایا گیا جب کہ دوسری جانب بیرونی امداد کے ملکی اشرافیہ کے حصے خاطر آئینی ایمرجنسی اور طبی سہولیات میں سہولت کار کی حیثیت سے صوبے کے فنڈز کی ترسیل کو آسان اور عوامی قبولیت کا ضامن بنایا گیا۔
دوسری جانب اٹھارویں ترمیم کی مشکلات کے پیش نظر صوبائی حق کو استعمال کرتے ہوئے لاک ڈائون عوام میں قابل قبول بنا کر سندھ صوبے میں خود مختاری کے لولی پوپ کو پی پی کی آیندہ سیاست کو جاری رکھنے کے لیے زندہ کیا گیا ہے جب کہ وفاقی سطح پر تمام تر اختیارات کی حامل اشرافیہ نے وفاق کے کم ہوتے فنڈز کے بیانیے کو بیچنے کے لیے حکمرانوں کو متحرک رکھاجنہوں نے اپنی دونوں تقریر میں ملکی لاک ڈائون کو فنڈز کی عدم فراہمی پر مسترد کر دیا جس نے ایک طرف پی ٹی آئی کی سیاست کو کمزور کیا تو دوسری جانب صوبوں کی امداد ہاتھ سے نہ جانے کو بھی ذہن میں رکھا،ملکی اشرافیہ نے اس مقصد کی خاطر بدعنوان قرار دی جانیوالی پی پی کو بہترین کارکردگی کا سرٹیفکیٹ دلوادیا،جسے عوام نے اپنی سیاسی سادگی کے تحت قبول بھی کر لیااور عوام میں عمران خان کی کارکردگی کو دوبارہ نیچا دکھا کر وفاق کی ذمے داری خوبصورتی سے عمران خان یا وفاق کے سر سے اتار پھینکی۔