کیا پنجابی حملہ آوروں کا خیر مقدم کرتے رہے ہیں؟
مصنف: ازھر منیر۔۔۔قیمت:100 روپے۔۔۔صفحات:80
ناشر: پنجابی مرکز ، عزیز منزل،حمزہ ٹاؤن فیروز پور روڈ لاہور، 03004905846
پنجاب امن، خوشحالی اور بڑے دل والوں کی دھرتی ہے، یہاں کے رہنے والوں کے دل اتنے بڑے ہیں کہ انھوں نے دوسرے علاقوں سے آ کر بسنے والوں کو کبھی برا بھلا نہیں کہا بلکہ ہمیشہ یہی سوچا کہ جتنا ان کا اس دھرتی پر حق ہے اتنا ہی دوسرے انسانوں کا ہے، گویا یہاں کے رہنے والے ہرفرد کو پہلے انسانیت کی نظر سے دیکھتے ہیں اس کے بعد جان پہچان کے لئے ذات یا نسل کی بات کی جاتی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ اس کے باوجود دوسرے علاقوں کے رہنے والے پنجابیوں کے بارے میں تعصب سے بھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مصنف نے اس کتاب میں پنجابیوں کے بارے میں پائے جانے والے تعصب کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔
کتاب میں جابجا حوالہ جات دیئے گئے ہیں تا کہ سند رہے اور تحقیق کرنے والوں کو بھی آسانی ہو۔ ازھر منیر صاحب زبان و بیان میں بڑی مہارت رکھتے ہیں، ان کیا عمیق مشاہدہ انھیں پردے اٹھانے کی طاقت عطا کرتا ہے جو ان کی تحریر سے ظاہر ہے، انھوں نے پنجابیوں کا مقدمہ بڑی شان سے لڑا ہے۔ کتاب کو بڑی سادگی سے شائع کیا گیا ہے، حالانکہ ضروری تھا کہ اسے مجلد صورت میں شاندار ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا جاتا، شائد اس کی وجہ قیمت کم رکھنا ہو کیونکہ اس دور میں صرف 100 روپے میں تو کہانیوں کی کتاب بھی نہیں ملتی، کہاں اتنی جامع اور معیاری کتاب ۔اس شاندار کاوش پر مصنف کو مبارکباد دینے کو جی چاہتا ہے۔
قرآن پاک کی روشنی میں
(دنیا و آخرت کی کامیابی کیلئے کیا کریں۔۔۔۔ کیا نہ کریں)
مولف: شوکت علی قاضی۔۔۔قیمت: 400 روپے۔۔۔صفحات:151
ناشر:منظور الکتابت اردو بازار، لاہور
اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی فلاح کا ہمیشہ پورا بندوبست رکھا ہے، گزشتہ ادوار میں اپنے پیغمبروں کے ذریعے اپنا پیغام کبھی صحیفوں کی صورت میں کبھی مقدس کتب کی شکل میں انسانوں تک پہنچا کر انھیں ہدایت دی، پھر خاتم الا نبیاء حضرت محمدﷺ پر قرآن مجید نازل فرما کر قیامت تک کے لئے انسانیت کے لئے ہدایت نامہ عطا فرما دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں جس نے بھی قرآن کی طرف رجوع کیا اس نے فلاح پائی۔ پروفیسر رشید احمد انگوی کہتے ہیں '' پورے قرآن پاک کا گہرا مطالعہ کر کے برادر نے انسانوں کے لیے آسان ترین انداز میں قرآن کی دعوت اور اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اور ناپسندیدہ باتیں سامنے رکھ دیں تاکہ ہر انسان اپنے ضمیر کی روشنی میں اپنے لئے راہیں تلاش کر سکے۔
اصل میں قرآن پاک ہی اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانیت کے لیے نصاب حیات ہے۔ اسی کے ذریعے انسانوں کو ہدایت کی جانب پکارا گیا ہے۔ اس میں کائنات کے حقائق سے آگاہی بخشی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انسانوں کو اللہ کی کتاب پڑھ کر سنائی، اس کی آیات کی تعلیم دی، لوگوں کو جہالت و جاہلیت کی تاریکیوں سے نکال کر انھیں گناہوں سے پاک کیا (ان کا تزکیہ کیا)اور انھیں اپنے ارشادات اور اپنے اسوہ حسنہ کی صورت میں حکمت نبویؐ سے سرفراز فرمایا ۔ لمحہ موجود کی پکار ہے کہ دنیا بھر کے انسان اپنے رب کے فرمان کی جانب متوجہ ہوں۔'' کتاب کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ آیات کا اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے۔
پیرس میں دوسرا جنم
مصنف: محمود بھٹی۔۔۔قیمت: 495 روپے۔۔۔صفحات: 192
ناشر: احمد پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور
محمود بھٹی فیشن ڈیزائننگ کی دنیا کا معروف نام ہے، نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مقبول ہے، انھوں نے بہت نچلی سطح سے کیرئیر کا آغاز کیا، بچپن اور لڑکپن انتہائی نامساعد حالات میں گزرا، مگر ان کے اندر حالات سے لڑنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ تھا، اسی لئے وہ حالات سے نبرد آزما رہے۔ اپنے ملک میں اپنوں ہی کی طرف سے دھتکارے جانے کے بعد انھوں نے دیار غیر میں جا کر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ، یوں اپنوں نے شائد انھیں خود سے دور کرنے کا اچھا موقع دیکھا اور انھیں باہر بھیج دیا، کیونکہ وہ انھیں خود پر بوجھ سمجھتے تھے۔
پیرس پہنچتے ہی انھیں نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا مگر پاکستان میں وہ اس سے بھی سخت مشکلات کا سامنا کر چکے تھے اس لئے ذرا نہ گبھرائے اور اپنی معاشی بہتری کے لئے دن رات محنت کی، پھر انھیں فیشن ڈیزائنگ کی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع ملا، کیونکہ وہ خود بھی فیشن کرنا پسند کرتے تھے اس لئے اس میدان میں کامیابیاں ان کے قدم چومتی چلی گئیں۔ وہاں کے میگزین نے ان پر مضمون شائع کیا، وہ اتنے کامیاب ٹھہرے کہ ایک فلم'' میں اگر جھوٹ بھی بولوں تو صداقت ہوگی '' کا مرکزی خیال ان کی زندگی سے لیا گیا ، کامیابی کے بعد ایک مرتبہ پھر ان کی زندگی بحران سے دوچار ہوئی جب ان کی فیکٹری جل کر خاکستر ہو گئی، انھیں اپنی زندگی کا آغاز ایک مرتبہ پھر صفر سے کرنا پڑا، حالات سے مقابلہ کرنا ان کے خمیر میں ہے اس لئے وہ پھر کامیاب ہوئے اور فیشن ڈیزائنگ کی دنیا میں جگمگا رہے ہیں ۔ یہ کتاب فرانسیسی زبان میں شائع ہوئی جس کا ترجمہ عبدالحفیظ مرزا نے کیا ہے اور بہت خوب ترجمہ کیا ہے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
شہر سخن
شاعر: شبیر ناقد۔۔۔قیمت:500 روپے۔۔۔صفحات:144
ناشر:اردو سخن، اردو بازار، چوک اعظم، لیہ، 03027844094
شاعرانہ تکلم خدا کی عطا ہے، شبیر ناقد نہ صرف تنقید کے فن میں خوب مہارت رکھتے ہیں بلکہ شاعری میں بھی انھیں خصوصی ملکہ حاصل ہے ، وہ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ، چند مہینوں بعد ان کی نئی کتاب منصہء شہود پر آجاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے نظم و نثر ان پر اترتی ہے اور وہ اسے قرطاس پر منتقل کر دیتے ہیں۔ جیسے کہتے ہیں
میں اک آزمائش میں ڈالا گیا ہوں
کہ باغ عدن سے نکالا گیا ہوں
سنبھلنا مرا میرے بس میں کہاں تھا؟
ترا معجزہ ہے سنبھالا گیا ہوں
ان کا مشاہدہ انھیں زمانے کی بدلتی روش پر قلم اٹھانے پر بھی مجبور کر دیتا ہے۔وہ اپنے دل و دماغ پر گزرنے والی کیفیات ایسے ہی بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
تفاخر ادب(تفاخر محمود گوندل)
مؤ لف: پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ۔۔۔قیمت:900 روپے۔۔۔صفحات:464
ناشر: ماورا بکس، 60 مال روڈ لاہور،03004020955
پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ادبی حلقوں میں اونچا مقام رکھتے ہیں، ان کی ادبی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، گویا ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں انھوں نے تفاخر محمود گوندل صاحب کی علمی خدمات پر روشنی ڈالی ہے جن کی علمی خدمات بھی اظہر من الشمس ہیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کہتے ہیں '' مجھے سرمایہ علم و ادب تفاخر محمود گوندل سے ملاقات کا موقع اس وقت میسر آیا جب ان کی سیرت کی معرکتہ الآراء کتاب تجلیات رسالت کی تقریب پذیرائی ہوئی ۔ تقریب بڑی روح پرور تھی، اپنی باری آنے پر جب تفاخر محمود گوندل نے اظہار خیال کیا تو میں حیرت و استعجاب میں کھو گیا ۔
اس کے بعد میں نے متعدد بار ان کی شعلی نوائی سے استفادہ کیا اگر میں انھیں الفاظ کا جادوگر کہوں تو بے جا نہ ہو گا، میری یہ دلی تمنا تھی کہ ایسے حامل خامہ نفیس رقم کو کتابی صورت میں ضرور خراج عقیدت پیش کیا جائے۔'' تفاخر محمود گوندل کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پرنسپل پروفیسر سید افتخار حسین شاہ کہتے ہیں'' بعض قابل صد تحسین و قابل قدر کارہائے نمایاں ایسے ہوتے ہیں جنھیں انجام دینے والے کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گلدستہ الفاظ و معانی دستیاب ہو جاتا ہے اور مذکورہ شخصیت کو حرف نیاز طشتری محبت میں سجا کر پیش کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، مگر مجھے پاکستان کے عظیم دانشور سرزمین سرگودھا کے قابل فخر فرزند نازش حریم ادب پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی ادب نوازی کو سلام پیش کرنے کے لئے آزمائش سے دوچار ہونا پڑا۔ وہ اس لئے کہ ڈاکٹر تبسم دنیائے علم و ادب کی ایسی دل پذیر شخصیت کی علمی و ادبی خدمات کو منصہ شہود پر لے آئے ہیں جو گزشتہ چوبیس برس سے نہ صرف میرے مشاہدات و تاثرات میں سمایا ہوا ہے بلکہ اگر میں کہوں کہ وہ میرے وجود کا حصہ بنا ہوا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔'' مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے، تاہم ٹائٹل پر تازہ تصویر شائع کی جاتی تو زیادہ بہتر تھا ۔
نقد شعور
شاعر: ابوالبیان پروفیسر ظہور احمد فاتح۔۔۔قیمت:500۔۔۔صفحات:160
ناشر: فاتح پبلی کیشنز، نیو کالج روڈ تونسہ شریف، 03326066364
ابوالبیان پروفیسر ظہور احمد فاتح متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ کسی بھی چیز کو بیان کرنے پر پورا عبور رکھتے ہیں تو ان کی شاعری اور تحریریں اس کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں، وہ لفظوں سے ایسے کھیلتے ہیں جیسے فٹبال کا ماہر کھلاڑی بال کو جس زاویئے پر چاہے گھماتا، موڑتا اور کک کرتا ہے، ان کی تحریر میں محبت اور شائستگی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ محمد اشفاق مشفق کہتے ہیں '' نقد شعور '' کے نام سے یہ شعری مجموعہ جو آپ کے ہاتھوں میں ہے یہ دراصل ان کی ان پانچ کتابوں میں سے ایک ہے جس میں ان کے انٹرمیڈیٹ تک کے زمانہ طالبعلمی کا کلام شامل ہے۔
یہ وہ دور تھا جب حضرت فاتح نظمیں بہت زیادہ لکھتے تھے ، تاہم نگار غزل سے بھی وہ ابتدا سے ہی وابستگی رکھتے ہیں ان کے ہاں ادبی شستگی اور شائستگی کا جو عالم ہے بین السطور آپ بحسن و خوبی اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تہذیبی رچاؤ اور وسعت مضامین میں ید طولیٰ حاصل ہے۔کتاب ہذا میں کچھ نظمیں ایسی بھی ہیں جن کے فارسی ادب سے منظوم تراجم کئے گئے ہیںکہ ان پر کلام طبع زاد کا گمان ہوتا ہے، اس ضمن میں علامہ اقبالؒ اور شیخ فرید الدین عطار ؒ کی منظومات کو پذیرائی بخشی گئی ہے۔'' مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
ریت سے روح تک
مصنف: شہزاد احمد حمید۔۔۔قیمت:1000روپے۔۔۔صفحات:410
ناشر:نیشنل بک ہاؤس ، اردو بازار، لاہور،03334259363
صحرا کی دنیا بھی بڑی عجیب ہے ، یہ بنجر ، بیاباں اور ویران ہونے کے باوجود انسان کو اپنی طرف کھینچتا ہے شاید یہ اس کی وسعت ہے یا کچھ اور جو انسان اس میں کشش محسوس کرتا ہے۔ مصنف نے چولستان کی وسعت ، روایات،ماحول، ثقافت، ویرانی اور حیرانی کا خوب نقشہ کھینچا ہے۔ معروف کالم کار حسن نثار کہتے ہیں ''صحرا بولتا بھی ہے، صحرا میں ہوا اک ایسی ہوک اور کوک کو جنم دیتی ہے جس کے سامنے ہر موسیقی ہیچ محسوس ہوتی ہے۔ صحرا روح کی طرح پراسرار ہے، کبھی کبھی سوچتا ہوں یہ دونوں ہمزاد تو نہیں، شہزاد احمد حمید شاید اسی سوال کے جواب کی تلاش میں اپنی آوارہ مزاج روح کے ساتھ صحرا کے سفر پر روانہ ہے۔
موضوع اور مصنف دونوں ہی خوب ہوں تو خوبصورت ہوں تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ '' ریت سے روح تک '' کی کہانی بھی کچھ یہی ہے۔'' ریت سے روح تک میں قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ جگہ جگہ سفرنامہ نگار کے ہمراہ ہے۔ شہزاد حمید جب اپنے مشاہدات اور تجربات کو سپرد قلم کرتا ہے تو لفظوں کا موزوں انتخاب، سادگی اور سلاست اس میں چاشنی اور لطافت بھر دیتی ہے۔ متذکرہ سفر نامے میں انھوں نے حقیقی منظر کشی اور متنوع ثقافت کا بیان کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ لطف دوبالا ہو گیا ہے۔'' مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
شبیر ناقد کی اردو تنقید نگاری کا جائزہ ( تنقید و تحقیق)
مصنف:غلام عباس۔۔۔قیمت:600 روپے۔۔۔صفحات:176
ناشر:اردو سخن،اردو بازار، چوک اعظم، لیہ، 03027844094
متعدد کتابوں کے مصنف شبیر ناقد ادبی حلقوں میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں، شاعری اور تنقید دونوں ادبی میدانوں میں انھوں نے اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے شبیر ناقد کی اردو تنقید نگاری پر تحقیق کی ہے۔ ناصر ملک کہتے ہیں '' شبیر ناقد کی اردو تنقید نگاری کا جائزہ''جو ابوالبیان ظہور احمد فاتح کے کیف غزل اور نقد فن کے تناظر میں لکھی گئی اور دراصل ان کے مقالے کا مکمل متن ہے۔ جس میں نقاد و محقق غلام عباس نے فقید المثال جستجو اور لائق تحسین جذبہ و تحقیق سے کام لیتے ہوئے تنقیدی و تحقیقی شہکار تخلیق کیا ہے جو نہ صرف تحقیق کے مروجہ معیار پر پورا اترتا ہے بلکہ کئی نئی جہتوں اور زاویوں کی خبر بھی دیتا ہے۔
انھوں نے نہ صرف نقاد و محقق و شاعر شبیر ناقد کی سوانح حیات پر بھرپور کام کیا ہے بلکہ ان کی تمام تخلیقات کا بھی طائرانہ جائزہ و مشاقانہ جائزہ لیتے ہوئے اپنے قاری کو تشنہ نہیں رہنے دیا۔ شبیر ناقد نے متعدد کتب قارئین ادب کو عطا کی ہیں جس میں اردو کے علاوہ سرائیکی شاعری کے دو مجموعے بھی شامل ہیں۔ شاعری کے علاوہ انھوں نے میدان تنقید و تحقیق میں بھی کئی شہ پارے اردو ادب کو پیش کئے ہیں جن کا مختصر جائزہ بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔'' مصنف نے شبیر ناقد کے ادبی کام کا احاطہ کر کے ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے کیونکہ شبیر ناقد کا کام اتنا وسیع ہے کہ ان کو جاننے کے لئے کافی وقت درکار ہوتا تھا۔ کتاب مجلد ہے اور ٹائٹل پر شبیر ناقد کی تصویر شائع کی گئی ہے۔
مسلمانوں کی قتل گاہ۔۔۔۔ برما
مصنف: محمد فاروق عزمی ۔۔۔ صفحات: 208 ۔۔۔ قیمت :1500 روپے
ناشر : قلم فاونڈیشن، والٹن روڈ، لاہور کینٹ
ابت ک تو ہمیں بدھ مت کے بارے میں یہی پڑھایا (اور بتایا) گیا تھا کہ یہ پرامن لوگوں کا مذہب ہے، جس کے پیروکار عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران ان عدم تشدد کے علمبرداروں نے میانمار ( سابقہ برما) میں مسلمان اقلیتوں پر وہ ظلم و تشدد کیا اور ایسی بربریت کا مظاہرہ کیا ہے کہ ہلاکو خاں اور چنگیزخاں کی روحیں بھی کانپ گئی ہوں گی۔
اس ملک میں عشروں سے آباد روہنگیاہ مسلمانوں پرکسی جواز کے بغیر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا، ان کو اس ملک سے بے دخل کرنے پر مجبور کیا گیا اور ان کے گھروں کو آگ لگادی گئی اور اسی پر بس نہیں کیا گیا یہاں کی حکومت، فوج اور پولیس نے بدھ بھگشوؤں کے ایما پر مسلمانوں کی نسل کشی کرتے ہوئے بے گناہ مسلمان مردوں، عورتوں حتیٰ کہ شیرخوار بچوں تک کو انتہائی بے دردی کے ساتھ تہہ تیغ کر ڈالا۔ میانمار( برما) میں ہونے والے ان انسانیت سوز واقعات پر دنیا کے کسی بھی مہذب ملک، قوم، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں نے بھرپور انداز میں آواز اٹھانے اور اس ظلم کے آگے بندھ باندھنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
حد یہ ہے کہ اقوام ِ متحدہ جیسا ادارہ بھی اس نسل کشی کا نوٹس نہیں لے سکا جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ادارے کے مستقل ارکان روس، چین اور امریکہ اس معاملے میں برما حکومت کے حامی ہیں اور انہیں مسلمانوں کی نسل کشی سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔ ستم ظریفی البتہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے وہ اسلامی ممالک، مذہبی تنظیمیں جو امن ِ عالم کی ضامن ہیں انہوںنے بھی اس پر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے وہاں کے مسلمان آج بھی بے یارومددگار حالات کے رحم وکرم پر کسی غیبی امداد کے منتظر ہیں۔ ادیب و مورخ محمد فاروق عزمی نے اس عظیم انسانی المیے کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اسے منظر عام پر لانے کی سعی مشکور بھی کی۔ ''مسلمانوں کی قتل گاہ ۔۔۔ برما'' ان کی اسی کاوش کا نتیجہ ہے ۔ کتاب کو بڑے دیدہ زیب انداز میں طباعت کے اعلیٰ معیار کے ساتھ شائع کیا گیا ہے جو قلم فاونڈیشن کاطرہ امتیاز ہے۔