ان ہی غم کی گھٹاؤں سے خُوشی کا چاند نکلے گا ۔۔۔۔

پوری دنیا بیمارستان میں بدل گئی یا پھر خدشستان میں۔ سامان سو نہیں! ہزار برس کا تھا اور پَل کی خبر ۔۔۔


 یاد رکھیے! ناامیدی موت اور امید زندگی ہے۔ جان لیجیے! خدمت سے خُدا ملتا ہے

WASHINGTON: مُٹھی بھر خاک جسے انسان کہتے ہیں، کی اچھل کُود جاری تھی، دعوے ہی دعوے اور یہاں تک کہ موت کو شکست دیں گے، بل کہ اس سے بھی آگے کے دعوے کہ جو لوگ ہزاروں سال پہلے مرکھپ گئے ہیں ان کے جینز سے اُنہیں پھر سے زندہ کر دکھائیں گے، ایسے ایسے دعوے۔ آپ سمجھ رہے ہیں کہ فقیر مبالغے سے کام لے رہا ہے تو جائیے گوگل کرلیجیے اور جو کچھ فقیر کہہ رہا ہے اس کی تصدیق فرما لیجیے۔ مصنوعی ذہانت سے کسی اور سیارے کے مکین بن جانے کے دعوے، کیا کہا جائے دیکھ لیجیے اب تو سب کچھ عیاں ہے جی۔

سب کچھ ٹھیک تھا، یعنی سامان سو برس کا نہیں جی! ہزار برس کا تھا، ہر شے رواں دواں، خوف و خطر سے بے نیاز، ہماری مرضی جیسے چاہیں جییں کے نعرے، دنیا بھر میں ہوائی جہاز اُڑ رہے تھے، ٹرینیں بھاگ رہی تھیں، کاریں دوڑ رہی تھیں، اسٹاک ایکسچینج میں سودے عروج پر تھے، مارکیٹیں جاگ رہی تھیں، سیاحتی مقامات اٹے پڑے تھے، ریستوران لذّت کام و دہن کے رسیاؤں کو آسودہ کر رہے تھے، ہلّا گّلا مچا ہوا تھا اور یہ مٹھی بھر خاک کا پتلا نہ جانے کیا کیا کر رہا تھا، کیسے کیسے دعوے کر رہا تھا اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔! یک لخت سب کچھ تھم گیا، سب کچھ ہوگیا نابود اور منجمد ہوگئی زندگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا ہوگئی ویران اور ویران ہی کیا جی پوری دنیا بیمارستان میں بدل گئی یا پھر خدشستان میں، یہی ہوا ناں جی! یا کچھ اور ہُوا۔۔۔۔ ؟ کیوں ہوا، کیسے ہوا، سوال تو ان گنت ہیں اور بھانت بھانت کے جوابات، لیکن حل! اب سوچیے اس پر جناب۔

خیر اب جو ہوا سو ہوا، انسان کے دعوے ہوئے ہَوا اور سب کے ہاتھ میں رہ گیا ان کا پُھس پھسا غبارہ۔ چلیے رہنے دیتے اسے اور آگے چلتے ہیں۔

اب کیا کریں ہم ۔۔۔۔۔! ایک دن اپنے بابا جی حضور سے فقیر نے پوچھا تھا کہ انسان کیسے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ اس پر پڑی افتاد عذاب ہے یا آزمائش! مسکرائے تھے اور پھر فرمایا: ''یہ تو بہت آسان ہے پگلے! جو دُکھ، تکالیف، مصائب و آلام، آفات و افتاد، وبائیں و امراض انسان کو اپنے رب سے قریب کرتے چلے جائیں وہ ہوتی ہے آزمائش اور ان مصائب و آلام میں بھی جو لوگ اپنے مالک حقیقی سے نہ جُڑیں وہ ہوتا ہے عذاب۔''

اب ہر انسان اس پر خود کو پرکھ سکتا ہے، تو پرکھیے!

بے بسی تھی تو فقیر نے بابا جی سے کہا تھا: دعا کیجیے ناں اﷲ جی رحم فرما دے، کرم کر دے، زخموں کو بھر دے، چین نصیب کر دے۔ کالی رات ٹلے تو جان فزا سحر آئے، اور ایسی سحر جسے اندیشۂ زوال نہ ہو۔ بچھڑے ہوؤں کو ملا دے، ملے ہوؤں کو پیوستہ رکھے۔ کوئی ماں اپنے لعل کا، کوئی بہن اپنے بھائی کا، کوئی دلہن اپنے سہاگ کا، کوئی باپ اپنے بازو کا، کوئی محبوبہ اپنے محبوب کا لاشہ نہ دیکھے۔ شانتی ہو، بہار ہو، اندیشۂ خزاں ہی نہ ہو۔ کوئی فاقہ نہ کرے، سب کے چولہے میں آگ جلتی رہے، اُن پر چڑھی ہانڈی کی خوش بُو سے صحن مہکتا رہے۔ شِکر دپہرے پپلی دے تھلے کوئی اپنی چوڑیاں کھنکھناتے ہوئے اپنے مطلوب کو بلائے اور وہ دوڑتا چلا آئے، کوئی زور زبردستی نہ ہو۔ گیت گائیں سَکھیاں اور چھیڑیں اک دُوجے کو۔ مفلس کی بیٹی کی اکھیاں بھی چمکیں اور وہ بھی اپنے خوابوں کا شاہ زادہ پائے۔

کارخانوں کی مشینوں کے پہیے گھومتے رہیں۔ دھرتی ماں اپنے خزانے اگلے، بالیاں دانوں سے بھری رہیں۔ شجر پھلوں سے لدے رہیں۔ خوش بُو مہکے، دل چہکے، دریا رواں رہیں، جھیلیں بھری رہیں۔ سمندر دوست رہے، مچھیروں کی کشتیاں بھر کر آئیں۔ مزدور نہال ہوں، سرمایہ دار سخی رہیں۔ آشتی ہو، شانتی رہے اور امن کی فاختہ مسکرائے، چہکے اور سہانے گیت گائے۔ کسی کا کھیسا خالی نہ ہو، بازار خریداروں سے بھرے رہیں۔ پرندوں کی طرح کُوچ کوئی نہ کرے۔ کوئی خود کو نہ بیچے، سب اپنے خوابوں کو تعبیر ہوتا دیکھیں۔ بیمار شفا پائیں، طبیب، واقعی مسیحا بن جائیں، انہیں دستِ شفا کرامت ہو اور بیمار کو شِفا ملے۔ پڑوسی ایسا کہ نہال رہیں۔ سب کی خیر ہو، سب کا بھلا، سب رہیں نہال اور خوش حال۔ آباد رہیں اور شاد رہیں۔ دعا کیجیے! اﷲ جی رحم فرما دے، کرم کر دے، زخموں کو بھر دے۔

فقیر کو بہت تحمل سے سُنا اور کہا: میں دعا کروں اﷲ جی سے! تو سُن میں تو ہوں ہی سراپا دُعا، کب نہیں رہا۔ لیکن بتا مجھے! اﷲ جی نے کب ظلم کیا ہے اہلِ زمیں پر، کب رحمت نہیں کی، کب تنہا چھوڑا، کب دُھتکارا، کب رزق بند کردیا، بول کب رحم نہیں کیا، وہ تو ہے ہی رحیم، رحم کرنا ہے اُس کی شان، اُس نے تو اس وقت بھی ویسے ہی انسان کو زمین پر نہیں اتارا کہ جاؤ یہاں سے۔ پہلے زمین کو آراستہ کیا۔ جنّت نظیر بنایا پھر اصل جنّت سے نکالا۔ اور وہ بھی اس لیے کہ جاؤ اب دنیا میں اور ثابت کرو تم اس اصل جنّت کے لائق ہو تو واپس آجانا۔ سب کچھ تو دیا یہاں پر، دنیا کو جنت نظیر بنایا تو انسان نے کیا کیا۔ وسائل انسانی پر بہ زور قبضہ کرلیا، بم بنائے، زہریلی گیس بنائی، مہلک ہتھیار بنائے اور ماحول کو مسموم کیا۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ خون سے رنگین کردیا اس جنّت کو، انسان کو بہ زور و جبر غلام بنایا۔ خود خدا بن کر بیٹھ گئے۔ وہ رحم کردے، وہ تو ہے ہی رحیم، رحم کرنے والا۔ انسان نے اپنے پر خود ہی ظلم کیا۔ خود کو تباہ و برباد کیا، اب بھی تم کہتے ہو کہ اﷲ رحم فرما دے۔ جاؤ انسان سے کہو۔ خلقِ خدا پر رحم کریں۔ ورنہ اپنا انجام سوچ لیں۔ یہ تو ابھی ابتداء ہوئی ہے آگے دیکھنا۔ ڈرو اُس وقت سے جب رحیم قہار بن جائے۔ ڈرو اُس وقت سے۔ بتا کیا کہے گا اب تُو، اب کر تقریر۔''

ہاں مجھے وہ وقت بھی بہت اچھی طرح یاد ہے جب بابا نے کہا تھا: ''رب سے معافی مانگنے سے پہلے اُس سے معافی مانگ جس کا دل دکھایا، رب سے رحم کی درخواست کرنے سے پہلے اُس پر رحم کر جس پر تُو نے ظلم کیا ہے۔ پہلے بندوں سے معافی مانگ پھر رب سے۔ تُونے مصوّر کی تصویروں کی، چلتی پھرتی تصویروں کی بے حرمتی کی ہے۔ مصوّر کی تصویر سے محبّت مصوّر سے محبّت ہے۔ تُو اتنی سی بات نہیں سمجھ پایا اب تک۔''

ایک دن فقیر نے پوچھا: یہ تو بتائیے کہ انسان کیسے جیتا ہے ۔۔۔۔ ؟ مسکرائے۔ فقیر سمجھا ابھی کہیں گے: پانی پی کر، کھانا کھاکر، مرغ کھا کر، آکسیجن سے۔ لیکن بہت مایوسی ہوئی فقیر کو جب انہوں نے کہا: ''امید پر زندہ رہتا ہے انسان۔'' اگلے ہی لمحے فقیر کا دوسرا سوال اُن کے سامنے تھا: اور مرتا کب ہے انسان؟ تو بولے: ''جب انسان مایوس ہوجائے تب وہ مر جاتا ہے۔''

خُلد مکیں حافظ طاہر درویش نے فقیر کو فارسی کا پہلا جملہ سکھایا تھا: ''دنیا بر امید قائم است'' امید، امید اور امید ۔۔۔۔ تو امید ہی ہے۔ بیمار، مسیحا کے پاس امید سے جاتا ہے کہ وہ صحت یاب ہوجائے گا۔ حالاں کہ وہ بہت پرہیز بتاتا ہے اُسے، اور وہ بہ خوشی چھوڑ دیتا ہے بہت سی چیزوں کو۔ ایک ماں اپنے بچے کو پالتی پوستی ہے۔ امید پر ناں! ایک باپ اپنے بیٹے کو دیکھ کر خواب دیکھتا ہے امید پر۔ یہ ساری کائنات امید ہے۔ خواب امید ہے اور تعبیر بھی۔ امید سے خوشی ملتی ہے اور مُشکلیں ٹلتی رہتی ہیں۔ امید اُکساتی ہے انسان کو جدوجہد پر۔ اور ہاں امید ہی تو مزاحمت بھی سکھاتی ہے۔

ناامیدی ہنستے کھیلتے انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ خوشی کو غم میں بدلتی ہے۔ اور امید غم کو بھی خوشی کا جامہ پہناتی ہے۔ ناامیدی بے قرار کرتی ہے اور امید سکون دیتی ہے۔ قرار پہنچاتی ہے۔ ناامیدی فرار اور امید قیام کرنا سکھاتی ہے۔ ایسا ہی ہے۔ دنیا کیا تھی، کیا ہوگئی۔ غلط کہہ گیا، کیا بنادی گئی۔

بس رب سے جڑے رہنا ہر حال میں ۔۔۔۔۔! عسرت میں بھی اور تونگری میں بھی۔ صحت مند ہو جب بھی اور بیمار ہو تب بھی۔ ہر حال میں سراپا تسلیم رہنا۔ راضی بہ رضائے الٰہی رہنا، کہ یہی ہے بندگی اور کچھ نہیں۔ اپنا دامن بچانا کمال نہیں، دوسروں کو بچانا اصل ہے۔ دوسروں کی مدد کر تو وہ تیری مدد کو آئے گا۔ اوروں کا دکھ بانٹ تو سُکھی رہے گا۔ اندر کا سُکون چاہیے تو دوسروں کے آنسو پونچھ۔ احسان کرکے کبھی مت جتلانا۔ لیکن خبردار رہنا، بہت نازک ہے یہ کام۔ اپنے ذاتی مقصد کے لیے یہ سب مت کرنا، اس لیے کرنا کہ رب کی مخلوق ہے اور مخلوق رب کو بہت پیاری ہے۔

تصویر کی تعریف مصور کی ثناء ہے۔ تخلیق کو سراہنا خالق کو خوش کرنا ہے۔ مخلوق میں رہ اور رب تک پہنچ۔ جنگل، بیاباں میں کچھ نہیں رکھا۔ مرنا تو بہت آسان ہے، زندہ رہنا ہے کمال ، لیکن ایسی زندگی کہ تُو خود کو فراموش کردے، بس خود کو زندہ مت سمجھنا کبھی نہیں۔ اپنے لیے نہیں، بے بس و مفلس مخلوق کے لیے، خاک بہ سر بندگانِ خدا کے لیے جی، ٹوٹے دلوں سے پیار کر، بے آسرا کے لیے سایہ بن، شجرِ سایہ دار۔ پُھول بن، خوش بُو بن، خُلوص بن، وفا بن۔ جب رب خوش ہو تو مخلوق کے دلوں میں اُتارتا ہے محبت۔ دیکھ رب خفا ہوجائے تو سب کچھ برباد ہو جاتا ہے، ہاں انسان کے اپنے اعضاء بھی خفا ہوجاتے ہیں۔

کان خفا ہوجائیں تو بُری باتیں سنتے ہیں، ٹوہ میں لگ جاتے ہیں، زبان خفا ہوجائے تو غیبت کرنے لگتی ہے، مخلوق کی بُرائیاں بیان کرتی ہے، چغلی کھاتی ہے، بہتان طرازی کرتی ہے، لوگوں کو آپس میں لڑاتی ہے، حق کو چھپاتی ہے، خوبیاں چھوڑ کر خامیاں اور کوتاہیاں بیان کرتی ہے، دلوں کو اجاڑتی ہے، فساد برپا کرتی ہے۔ یہ زبان بہت کڑوی بھی ہے اور میٹھی بھی۔ یہ دلوں کو جوڑتی بھی ہے اور توڑتی بھی۔ خفا ہوجائے تو اس کے شر سے کوئی نہیں بچ سکتا، کوئی بھی نہیں۔ جھوٹے وعدے کرتی ہے۔ بس رب ہی اس کے فساد سے بچا سکتا ہے۔ پاؤں خفا ہوجائیں تو دوسروں کو آزار پہنچانے کے لیے اٹھتے ہیں، برائی کی جگہ جاتے ہیں۔

ہاتھ خفا ہوجائیں تو لوٹ مار کرتے ہیں، قتل و غارت گری کرتے ہیں، چھینا جھپٹی کرتے ہیں، مار پیٹ کرتے ہیں، خلق خدا کے حق میں تو نہیں اٹھتے بس مخلوق کو تباہ کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں، مظلوم کے بہ جائے ظالموں کے ہاتھ اور بازو بن جاتے ہیں۔ ذہن خفا ہوجائے تو بُری باتیں سوچتا ہے، شیطانی خیالات کی آماج گاہ بن جاتا ہے، سازشیں کرتا ہے، منصوبہ بندی کرتا ہے فساد کی۔ اور دیکھ، اگر دل خفا ہوجائے تو مُردہ ہوجاتا ہے، اور تجھے معلوم ہے مُردہ شے سڑنے لگتی ہے، اس کی بدبو سے رب بچائے، بے حس ہو جاتا ہے، نیکی قبول ہی نہیں کرتا، برائی کی طرف بڑھتا ہے، تفرقہ پھیلاتا ہے، جوڑتا نہیں توڑنے لگتا ہے، بس رب بچائے ان امراض سے اور رب ہی تو بچا سکتا ہے۔ کچھ ہی لمحے تو جینا ہے، ابھی آتے ہوئے اذان ہوئی تھی اور پھر جاتے ہوئے نماز۔ وہ بھی اگر نصیب ہوجائے تب۔ دو پل کے جینے کے لیے اتنے منصوبے، اتنی جان ماری، اتنی ذلّت، در در کی بھیک، خوشامد اور چاپلوسی۔ کس خسارے میں پڑ گیا انسان۔ رب توفیق دے، کرم کردے، تب ہی تو میں پہچان پاؤں گا چیزوں کی اصل کو۔ انسان کے اندر دیکھنا عنایت ربّی ہے۔ پھل پُھول تو سب کو نظر آتے ہیں، جڑ کون دیکھے گا؟ وہ نظر کہاں سے لاؤں! بس یہ توفیق پر ہے، رب سے جڑنے میں ہے۔

ہمارے بابے کہتے ہیں اور بالکل سچ کہتے ہیں، جو خلقِ خدا کو معاف کردے گا اﷲ جی! اُسے معاف کردے گا، جو مظلوموں کو، بے آسروں کو گلے سے لگائے گا اﷲ جی اسے سینے سے لگائے گا، جو بندوں کی ضرورتوں کو پورا کرے گا، اﷲ جی اُس کا نگہبان بن جائے گا، تو بس رب سے ناتا جوڑنا ہے تو بندگان خدا سے جوڑو، رب کو منانا ہے تو رب کے بندوں کو راضی رکھو، اگر سکون چاہتے ہو تو بندوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرو، اپنے لیے تو تھکتے رہتے ہو، ہلکان رہتے ہو، کبھی اوروں کے لیے بھی تھکو، ہلکان رہو، اشک بہاؤ، دیکھو کیسی رحمت باری تعالیٰ جوش میں آتی ہے، رم جھم، رم جھم، وہ تو مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے بادلوں سے اور آنسوؤں سے مُردہ اور ویران دلوں کو، تو اس کے لیے نینوں سے برسات برساؤ۔ جی جناب! بہت سعادت ہے یہ، نینا برسیں رم جھم، رم جھم، یہ تو اﷲ جی کی دین ہے یارو۔

جہنم کے شعلوں میں گھر گئی ہے دنیا۔ ہر ظالم، ہر جابر، مخلوقِ خدا کی گردنوں کو اپنے خونیں پنجوں میں دبوچے ہوئے ہے۔ فلک ماتم کناں، زمیں آتش فشاں بنی ہوئی ہے۔ انسان مر رہے ہیں۔ کبھی کس نام پر، کبھی کس نام پر۔۔۔۔ ہر طرف رقص ابلیس اور مظلوم مخلوقِ خدا۔۔۔۔۔۔ لیکن ایسے میں بھی امید دم نہیں توڑتی۔ قائم رہتی ہے۔ اور یہی امید، یہی آس زندگی ہے۔ رب کائنات کے آسرے پر، جس نے نارِ نمرود کو گلستان میں بدلا، ہاں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، ایسا ہی ہوگا۔

ہمارے چاروں طرف جو آگ بھڑک رہی ہے، جس کا ایندھن انسان بن رہے ہیں، یہی آگ گلستان بنے گی، ضرور بنے گی۔ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ آگ کبھی نہ بجھے۔ ہمیں تو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ اپنے رب پر توکّل روشنی ہے، ایسی روشنی جس سے اندھیرے شکست کھاتے ہیں۔ ہاں اندھیروں کا مقدر شکست ہے، فتح و کام رانی ہمیشہ روشنی کی میراث ہے اور رہے گی۔ میرے رب کی کبریائی تھی، ہے اور رہے گی۔

تو بس نکلیے! کوئی وبا آپ کی راہ کھوٹی نہ کرے اور پہنچیے ان مفلس و نادار اور ہاں صرف مفلس و نادار ہی نہیں سب تک پہنچنے کی کوشش کیجیے جو اس کورونا جیسی نحوست سے آزردہ و خدشات میں گھر گئے ہیں، اپنا سب کچھ صرف اپنے لیے بچا کر مت رکھیے، اسے جمع مت کیجیے، یہ ہے امتحان کی گھڑی اور ہم سب کو اگر اپنے پالن ہار کو منانا ہے تو اس کی مخلوق کی خدمت میں جُت جائیے، آپ سے جو کچھ بن پڑتا ہو، کر گزریے کہ یہی ہے شرف انسان، اور یاد رکھیے! سامان سو نہیں، ہزار برس کا ہوتا ہے لیکن پَل کی خبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! یاد رکھیے! خدمت سے خُدا ملتا ہے، فیصلہ آپ نے کرنا ہے اور سُن لیجیے! رب تعالٰی نے چاہا تو انہی غم کی گھٹاؤں سے خُوشی کا چاند نکلے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔