حکومت وقت کی اطاعت
قدرتی وباء کا مقابلہ کرنے کے لیے مسجدوں میں اجتماعات کو محدود کرنا وقت کی ضرورت ہے
مسجد ایک ایسا مقام ہے جہاں داخلے سے کسی مسلمان کو نہیں روکا جا سکتا ۔مسجد کے سامنے کوئی پہرے دار اور حفاظتی نظام اس نیت سے نہیں ہوتا کہ وہ یہاں آنے والوں کو روکے اور ان پر پابندیاں عائد کرے بلکہ مساجد کے باہر نمازیوں کی حفاظت کے لیے چیکنگ ہوتی ہے جس کی وجہ ہم سب جانتے ہیں۔
ماضی میں حکمران بھی مسجد کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھتے تھے اور اس تعلق کی وجہ سے ان کا عوام کے ساتھ براہ راست اور بلاتکلف رابطہ قائم رہتا تھا اور اس رابطہ میں بندہ اور بندہ نواز میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا تھا سب ایک ہی صف میں شانے سے شانہ ملائے کھڑے ہوتے تھے ۔ لیکن جس طرح زمانہ بدل گیا اسی طرح ہمارے حکمرانوں کے مسجد سے تعلق میں بھی تبدیلی آگئی۔ اب حکمران آپ کو کسی عید کے موقع پرہی مسجد میں نظر آتے ہیں لیکن وہاں پر ان کے ساتھ عوام بھی مخصوص ہوتے ہیں۔
اگر کسی مسلمان کے دل میں ذرا بھی خدا کا خوف ہے تو وہ مسجد میں بددیانتی سے دامن بچاتا ہے یہ اور ان کے علاوہ بعض دوسری وجوہ بھی ہیں جن کی وجہ سے کاروبار حکومت اور حکمرانی میں مسجد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اسے اسلامی جمہوریت کا ایوان بالا تصور کیا گیا ہے ۔ جہاں ایک حکمران اور عامۃ المسلمین خدائے تعالیٰ کے حضور میں بیٹھ کر مقدس اور پاک و صاف مقام پر اپنے باہمی معاملات طے کرتے اور اللہ ان کا شاہد ہوتا جس کے سامنے انھیں ایک روز بہرحال حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔
عہد رسالت ﷺ میں تو سب کچھ مسجد ہی تھی لیکن اس کے بعد جب سلطنت کی حدود پھیلتی گئیں تب بھی مسجد کو ہی مرکزی مقام کی حیثیت حاصل رہی۔ سفیر بھی مسجدمیں آتے تھے اور فوجیں بھی مسجد سے روانہ ہوتی تھیں ۔ دن میں پانچ بار کھلی کچہری بھی یہیں لگا کرتی تھی اور خلیفہ بھی یہیں حلف اٹھاتا تھا اور پالیسی بیان بھی مسجد کے منبر سے جاری ہوتے تھے۔ طویل غلامی اور مسجد سے مسلمان حکمرانوں کی روگردانی کے باوجود آج بھی اصل طاقت مسجد ہی ہے ۔
قدیم تاریخ مسجد کی اس بادشاہت کے واقعات سے بھری پڑی ہے اور جدید تاریخ بھی مسجدکی حکمرانی کی شہادت دیتی ہے ۔ مصر کے حکمران شیخ الازہر کے سامنے اب بھی دم نہیں مار سکتے اورہمیں یاد ہے کہ مسجد کی طاقت نے ایران کی بادشاہت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ خود ہمارے ہاں پاکستان میں ایک سابقہ حکومت اس وقت سرنگوں ہو گئی تھی جب جمہوریت کی تحریک نے مسجد کو مرکز بنایا اور سیاسی دانشوروں نے تسلیم کیا تھا کہ اس ملک میں صرف وہی تحریک کامران ہو گی جو مسجد سے اٹھے گی۔ پاکستان تو ایک اسلامی ملک ہے بھارت میں بھی جامع مسجد کے شاہی امام کی وقعت اور اثر سے کون بے خبر ہے ۔
مسلمانوں کی تاریخ میں مسجد ہمیشہ مرکزی مقام رہی ہے ان کی حکمرانی کے دور میں بھی اور ان کی غلامی کے دور میں بھی ،مگر حیرت ہے کہ مسلمانوںکو جب بھی حکومت ملتی ہے اور مسجدیں آزاد ہوتی ہیں تو ان کے حکمران غیروں کی طرح مسجد گریزی کی روش پر چلتے رہتے ہیں اس کے باوجود بعض اسلامی ممالک میں مقامی طور پر ایسی روایات کسی وجہ سے باقی رہ گئی ہیں اور عوام کے ذہنوں میں اس قدر پختہ ہو گئی ہیں کہ حکمرانوں کے لیے مسجد سے رابطہ رکھنا ایک مجبوری بن گیا ہے ۔
نئے زمانے کی مجھے خبر نہیں لیکن کچھ دہائیوں پہلے تک مراکش میں رواج تھا کہ بادشاہ جمعہ کے روز ایک خاص مسجد میں نماز ادا کرتا تھا۔ وہ اپنے محل سے سفید رنگ کے گھوڑے پر مخصوص لباس پہن کر روانہ ہوتا اور نماز جمعہ مسجد میں ادا کرتا تھا۔ رواج کے مطابق راستے میں اور مسجد کے اندر لوگ بادشاہ کے سامنے اپنی مشکلات بیان کرتے اور مناسب احکامات حاصل کرتے لیکن عہد جدید کی بے خدا اور بد روایات میں ایک روایت حفاظتی اقدامات کی بھی ہے جو مراکش کی اس شاندار روایت میں رکاوٹ بن گئی۔
مراکش کے دارالحکومت رباط میں یہ منظر میں بڑے اشتیاق سے دیکھ چکا ہوں مگر بتایا گیا کہ حفاظت کے پیش نظر حفاظتی دستے لوگوں کوبعض اوقات روک لیتے ہیں۔ اسلام میں حفاظت کا اصول اور حکم موجود ہے مگر اس عقیدے کے ساتھ کہ زندگی اور موت صرف خدا کے اختیار میں ہے کسی بھی حفاظتی دستے کے اختیار میں نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں سب سے زیادہ محفوظ انسان کوئی امریکی صدر کبھی نہ مارا جاتا ۔
حضرت عمرؓ نے تو اپنے قاتل کو دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ یہ شخص مجھے قتل کردے گا مگر وہ اپنے اور عامۃ المسلمین کے مابین کسی محافظ کو حائل کرنے کا حوصلہ نہ کر سکے کہ ان کے خیال میں یہ عمل جان دینے سے بھی زیادہ مشکل تھا۔قیام پاکستان کے بعد جب پنجاب کے گورنر سردار عبدالرب نشتر ہوا کرتے تھے تو وہ نماز جمعہ لاہور کی کسی نہ کسی مسجد میں ادا کرتے تھے ۔ نشتر صاحب پرانی وضع کے مسلمان تھے ، ان کا بیٹا سائیکل پر اسکول جایاکرتا تھا ۔ ایک بار وہ مسجد نیلا گنبد میں نماز جمعہ کے لیے پہنچے تو استاد محترم مرحوم مفتی محمد حسن صاحب خطبہ جمع دے رہے تھے۔ گورنر کی آمد پر قدرتی طور پر لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے ان کی شخصیت بھی بہت نمایاں تھی۔ نمازیوں کی بٹی ہوئی توجہ دیکھ کر مفتی صاحب نے شیخ سعدی کا یہ مشہور مصرع پڑھا۔
من بہ تو مشغول تو با عمر و زید
سردار نشتر نے طنز محسوس کیا لیکن وہ بے قصور تھے قصوروار مفتی صاحب کے مقتدی تھی۔ نشتر صاحب کے بعد یہ رسم بھی ختم ہوگئی اور ان کے بعد کوئی کسی سے مشغول نہ ہوا۔
بات ہماری قدرتی مرکز مسجد کی ہو رہی تھی کہ حکمران بیچ میں گھس آئے۔ ہمارے صدر جناب عارف علوی نے مصر کی جامعہ الازہر کے مفتی صاحبان سے دنیا بھر میں پھیلی کورونا وباء کی وجہ سے مسجدوں میں مسلمانوں کے اجتماع کے متعلق فتویٰ لیا ہے ۔فتویٰ میں کہاگیا ہے کہ '' عوامی اجتماعات بشمول باجماعت نماز کورونا وائرس کے پھیلائو کا باعث بنتے ہیں تو مسلمان ممالک میں حکومت کو باجماعت نماز اور جمعہ کی نمازوں کی منسوخی کا پورا اختیار ہے۔ موذن کو صلوٰۃ فی بیوتکم یعنی گھروں میں نماز پڑھیں کے ساتھ ترمیم شدہ اذان دینی چاہیے''۔ جناب صدرنے علماء پر زور دیا ہے کہ وہ مصر کی جامعہ الازہر کے فتویٰ کی روشنی میں اپنا کردار ادا کریں اور لوگوں کو گھروں پر نماز کی تلقین کریں۔
حکومت وقت نے تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے پاکستانی علمائے کرام سے مشاورت اور فتوئوں کے بعد مساجد میں خاص طور پر نماز جمعہ کے اجتماع پر پابندی لگاتے ہوئے اسے محدود کر دیا ہے ۔قدرتی وباء کا مقابلہ کرنے کے لیے مسجدوں میں اجتماعات کو محدود کرنا وقت کی ضرورت ہے، ان اقدامات کے ذریعے ہی ہم اس مشکل سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں، ہم سب کو مل کر اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے حکومت وقت کے انسانی فلاح کے اقدامات کی اطاعت کرنی ہے۔ اسی میںہماری بھلائی ہے۔