سرمایہ دارانہ سوچ اور کورونا

کورونا سے پہلے ہم سب انفرادی سوچوں میں تھے


جاوید قاضی March 29, 2020
[email protected]

SINGAPORE: جب نیویارک کے ٹاور گرے تھے تو نائن الیون کے واقعے سے ایک نئی دنیا نے جنم لیا تھا اور جب آج نیویارک میں کورونا سے بڑھتی اموات اور بیماری نے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں تب بھی یہی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک نئی جنگ پیدا کرنے کی۔

امریکا کو کیا دیکھنا تھا کہ دنیا کا ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود چین بہتر انداز میں اس ایمرجنسی کے اس چیلنج کو برداشت کرنے کے لیے تیار تھا۔ دنیا کی اس عظیم طاقت کے پاس اتنے وینٹیلیٹر بھی نہیں تھے شاید جتنے چین کے پاس۔ مگر امریکا کا آئین عظیم ہے، امریکا کی جمہوریت عظیم ہے ، ایسی جمہوریت کہ آئین کے اندر اظہار آزادی کا حق عظیم ہے۔ آج ان کا آئین اپنے اس عظیم حق کی وجہ سے اپنی اس رسوائی کو چھپا نہیں سکتا لیکن چین نے چھپایا۔ یہ بیماری جو آج پھیلی ہے اس میں چین کی لاپرواہی ہے جو ان کے غیر جمہوری سسٹم میں موجود تھی۔

یہ نیو لبرل سوچ تھی جس نے نائن الیون سے جنم لیا۔ جب سوویت یونین ٹوٹ گیا امریکا کا غرور بھڑ گیا اور امریکا کے اس وقت کے صدر جارج۔ایچ بش جس نے کویت کا بہانہ کر کے عراق پر حملہ کیا اور یہ ثابت کیا کہ وہ دنیا کی بڑی طاقت ہے ، سپر پاور ہے۔ سرمایہ دارانہ سوچ جنگی جنون کی سوچ تھی، انھوں نے جنگی ہتھیار جو بیچے وہ بھی ہم غریب ملکوں کے اندر تضادات پیدا کرنے کے لیے بیچے۔ ایران کو عراق سے لڑوایا۔ مشرقی وسطیٰ میں تضادات پیدا کیے۔ ایک عرب قوم کی دوسری جنگ عظیم کے بعد درجنوں ریاستیں بنائیں۔ کردوں کو چار ملکوں میں تقسیم کیا۔ ایک عظیم ہندوستان کا عجیب بٹوارہ کیا۔مگر پھر بھی سرمایہ دار کے پاس ایک جمہوری نظام تھا ، بولنے کی آزادی تھی، اس نے دنیا کو یرغمال رکھا لیکن اپنے لوگوں کو نہیں۔ اور پھر اسی سرمایہ دار نہ سوچ میں بھی دو فکریں تھیں۔

ایک تھی کہ سب کچھ مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دو دوسرا مارکیٹ کو فیصلہ کرنے دو طلب و رسد کی بنیاد پر۔ یہ فیصلے بے رحم فیصلے تو ہوتے ہیں مگر معیشت کے کیپیٹلزم کے عین اصول کے مطابق ہوتے ہیں۔ ان میں ایک عظیم ماہر معاشیات جان مینارڈ کراس ورڈ بھی تھے جو یہ کہتے تھے سب کچھ مارکیٹ پر چھوڑا نہیں جاسکتا ، مارکیٹ کو کچھ کنٹرول پڑیگا تاکہ 1930 میں امریکا میں آئے گریٹ ڈپریشن والی صورتحال نہ پیدا ہو ، اس نے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے سنگم کو جوڑا۔ ایک تھی مانیٹر پالیسی تو دوسری پالیسی جان مینارڈ نے روشناس کرائی جس کو فسکل پالیسی کہا جاتا ہے۔ کہ کس طرح بجٹ کو ترتیب دیا جائے جس سے شرح نمو بھی بڑھے اور افراط زر میں اضافہ بھی نہ ہو۔

اب تک دنیا ان پیمانوں پر چل رہی تھی۔ جو سوشلزم کارل مارکس کی سوچ سے آنا تھا وہ تو آیا ہی نہیں اور ان ریاستوں میں آمریت آگئی۔ جمہوریت بھی نہیں۔ انھوں نے لوگوں کی معیار زندگی تو بہتر رکھی مگر اپنی معیشت بہتر نہیں کر پائے۔ اور بل آخر ٹوٹ گئے۔ چین دنیا میں ایک بڑی معاشی طاقت بننے جارہا تھا مگر اس کے پاس یورپ کی جمہوریت نہ تھی، وہ اس ترقی کی اس ڈگر پر یعنی جو انسانی قدریں یورپ میں تھیں اس کو برقرار نہ رکھ سکا۔ وبائیں آنی تو تھیں اور وبائیں تو اور بھی آئیں گی۔

کورونا سے پہلے ہم سب انفرادی سوچوں میں تھے اور یہی سرمایہ دارانہ کیپیٹلزم کے لاشعور سے نکلی سوچ ہے صرف اپنی فکر کرو۔ اپنا گھر ہو، گاڑی ہو پلاسٹک منی ہو۔ یورپ میں انفرادی سوچ نے خودکشیوں کے حجم کو بھڑایا۔ بھیڑ میں رہتے ہوئے بھی آدمی اکیلا تھا۔ لیکن ہمارے پاس فیملی سسٹم تھا ، پنچایت تھی ، پڑوسی تھے جو اب آہستہ آہستہ ٹوٹ رہا تھا۔ لیکن جب کورونا آیا تو اس نے نہ امیر دیکھا اور نہ غریب۔ نہ یورپ اور نہ ایشیا نہ مسلمان اور نہ کرسچن نہ زبان دیکھی نہ نظریہ اور نہ ہی فکر دیکھی۔ اس نے اس بنی نوع انسان کو اس جنگ میں ایک ساتھ کھڑا کردیا۔

عالمی ماحولیات کی بہتری کے لیے کیپٹلزم کے پاس کوئی بہتر حل نہیں۔ یہ عظیم ترقی جو آج بنی نوع انسان نے کی ہے یہ ساری فوسل فیول تھی جو کاربن سے پیدا ہوتی ہے اور یہی ہے وہ سکہ سے ماحولیاتی تبدیلی آئی ہے اور یہ کورونا جیسی وبائیں بھی پیدا ہورہی ہیں۔

سرمایہ دارانہ سوچ کے پاس پبلک سیکٹر میں صحت و حفظان کے لیے بھی کوئی سوچ نہیں۔امریکا میں علاج کروانا بہت منہگا ہے اور ہم جیسے ممالک جہاں کہ پبلک سیکٹر جیسا نظام ہو وہ سب تباہ و برباد ہوگیا۔ ہم اسوقت بھی کہتے رہے کہ میاں صاحب خدارا! اس ملک کو بڑے بڑے اور شاہکار منصوبوں کی ضرورت نہیں، اس ملک کو ایئر پورٹس اور شاہراہیں نہیں چاہئیں، اس ملک کو اسپتال،اسکول، اور بہتر میونسپل کی ضرورت ہے مگر میاں صاحب چیزوں کو اسحاق ڈار کی نظر سے دیکھتے تھے۔ پھر ہندوستان کی وجہ سے ہمارا اچھا خاصا بجٹ دفاع پر صرف ہوتا تھا اور پھر آج ہمیں قرضوں کی فکر ہے۔

ہمارے پاس آج کل ملا کے 2200 وینٹیلیٹرز ہیں، اگلے پانچ سال میں ہمارے پاس ایک لاکھ ہوںگے اور دنیا کے پاس ایک کروڑ۔ اب ہماری سوچ کا زاویہ بدل چکا ہے، اب ہم اسپتال بنائیں گے، ڈاکٹرز اور نرسز کی فوج تیار کریں گے۔ پینے کے لیے صاف پانی اور دینے کے لیے بہترین نظام۔ اب آپ کو ووٹ برادری کی بنیاد پر نہیں ملے گا، آپ کے دیے گئے منشور ((manifestoاور کارکردگی کی بنیاد پر دیا جائے گا۔

قدیم روم کو کسی اور چیز نے نہیں وباؤں نے ختم کیا۔ کورونا نے تو امریکا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے حالات اتنے برے نہیں جیسا کہ ہمارے پڑوسی ملک ایران کے۔ لیکن ہمیں چوکنا رہنا ہے، یہ وہ وقت تھا جب خاں صاحب سب کے ساتھ مل کر کھڑے ہوتے مگر وہ یہ کام کر نہیں پائے۔

کورونا کی وبا سے پہلے ہی ہم نے اپنی ملکی معیشت کو مندی کے بھنور میں پھنسا دیا تھا اور ہمارے معاشی حالات قابو سے باہر ہوتے جا رے تھے۔ یہ ہی وہ وقت ہے جب ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، اپنے ملک کو حکومت کے ساتھ مل کر آئین کی رو سے چلاناہوگا۔ اس بحران کی کیفیت میں ہمارے بچاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ صرف پاکستان کا آئین ہے اور ہمیں اسی کی طرف جانا ہوگا۔ خاص کر آئین کے حصہ دوم اور چیپٹر دوم میں موجود پرنسپل پالیسی کے تحت اگر ہم چلے ہوتے تو آج پاکستان ایک فلاحی ریاست بن کر دنیا کے افق پر چمک چکا ہوتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں