کیا اب دنیا بدل جائے گی
طاقتور ممالک نے اپنے مفادات کی خاطر دنیا میں ظلم اور ناانصافی کا بازار گرم کر رکھا ہے
MUMBAI:
اب کہاں ہیں وہ دنیا کے طاقتور ترین ملک جنھیں اپنی فوجی و معاشی طاقت اور خلائی برتری پر ایسا غرور تھا کہ غریب ملکوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتے تھے ۔آج ان کی دولت اور ایٹمی طاقت ایک حقیر سے کیڑے کا مقابلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ ان کے اپنے لوگ مرتے جا رہے ہیں اور وہاں کے مغرور حکمران ان کے مرنے کا نظارہ ہی نہیں کر رہے بلکہ اپنی بھی خیر منا رہے ہیں۔
کیا اب وہ اپنے تحکمانہ اور تعصبانہ رویوں میں کچھ تبدیلی کریں گے۔ لگتا ہے ایسا نہیں ہوگا اس لیے کہ ایسا تو صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے کہ انسان قدرت کی طرف سے بھیجی گئی آفات سے بھی کچھ سبق نہیں لیتا اور اپنے کرتوتوں سے باز نہیں آتا مگر ایسا بھی ہوا ہے کہ جب انسان حد سے گزر گیا اور اس نے دنیا کو خود ہی جہنم بنا دیا تو پھر قانون قدرت ایسا طیش میں آیا کہ پھر انھیں نہیں بخشا گیا، وباؤں اور آفات کی صورت میں ایسی خوفناک مصیبتیں نازل ہوئیں کہ جن سے بچاؤ کا انسانوں کے پاس راستہ نہ تھا وہ بے بس تھے اور پھر خود کو بڑا سمجھنے کی غلطی سے معافی مانگنے لگے اور رب کو ہی بڑا ماننے پر مجبور ہوگئے۔ ہودؑ، صالحؑ، لوطؑ اور نوحؑ وغیرہ کی اقوام کے ساتھ کیا ہوا دنیا کے تین بڑے الہامی مذاہب اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔
ان کی الہامی کتابوں میں یہ واقعات درج ہیں وہ ان کتابوں پر ایمان بھی رکھتے ہیں اور ان کی حقانیت سے روگردانی نہیں کرتے۔ افسوس کہ اہل مغرب جو اکثر عیسائیت کے پیروکار ہیں آج دنیا میں ہر طرح خوشحال اور طاقتور ہیں پوری دنیا ان کی مٹھی میں ہے وہ جس طرح چاہتے ہیں دنیا کو ہنکاتے رہتے ہیں۔ غریب ممالک ان کے اشاروں پر ناچتے رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا رویہ شروع سے ظالمانہ ہے وہ انھیں اپنی خوشحالی میں شامل کرنا تو درکنار انھیں اپنا غلام بنائے رکھنے پر بضد ہیں۔
طاقتور ممالک نے اپنے مفادات کی خاطر دنیا میں ظلم اور ناانصافی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ وہاں کے عوام ان کی غلامی سے نکلنے کے لیے جانیں دے رہے ہیں وہ اقوام متحدہ سے ان کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کو ختم کرانے کی اپیلیں کر رہے ہیں مگر اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ اس ادارے کو قائم ہی اسی لیے کیا گیا تھا کہ دنیا سے ظلم اور ناانصافی کو ختم کیا جائے، محکوم قوموں کو غلامی سے آزاد کیا جائے۔ دنیا کو امن کا گہوارا بنایا جائے اور غریب ممالک کی مدد کرکے ان کی غربت اور پسماندگی کا خاتمہ کیا جائے مگر بدقسمتی سے اس ادارے کو قائم کرنے والے وہی بااثر اور طاقتور ملک تھے جو پہلے بھی دنیا میں ناانصافی اور ظلم کو روا رکھ کر اپنی حکمرانی قائم کیے ہوئے تھے اور ان کی اسی ناانصافی اور ظلم کے نتیجے میں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں برپا ہوئی تھیں جن میں کروڑوں لوگ مارے گئے تھے۔
ان جنگوں میں اصل جانی نقصان غریب اور محکوم ممالک کا ہوا تھا کیونکہ سامراجی ممالک نے انھی ممالک کے فوجیوں کی بڑی تعداد کو ان جنگوں میں جھونک دیا تھا۔ ان جنگوں سے دنیا میں زبردست تباہی پھیلی تھی کئی ممالک تو اپنے وجود کو ہی کھو بیٹھے تھے۔ اس طرح لیگ آف نیشن کے بعد اقوام متحدہ کا ظہور عمل میں آیا تھا مگر جس طرح ان سامراجی ممالک نے لیگ آف نیشن کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا کر ناکام بنا دیا تھا بالکل اسی طرح اب اقوام متحدہ کو بھی ایک غیر فعال ادارہ بنا دیا گیا ہے۔ پوری دنیا پھر انھی ممالک کی جارحیت کا شکار ہے۔ وہی دنیا میں ظلم و زیادتی اور ناانصافی کو فروغ دینے کے ذمے دار ہیں۔
اٹلی کے بعد امریکا میں کورونااتنی تیز رفتاری سے پھیل رہا ہے کہ وہاں اس سے نمٹنے میں سول حکومت کی ناکامی کی صورت میں مارشل لا تک لگانے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ وبا دراصل مغربی ممالک کے بگڑے مزاجوں کو درست کرنے کے لیے ہی آئی ہے۔ جب چین میں کورونا پھیلا تو مغربی ممالک چین کا مذاق اڑا رہے تھے اور وہی وقت تھا جب انھیں چین پر طنز کرنے کے بجائے اپنے ہاں اس وبا سے بچاؤ کا بندوبست کرنے کی ضرورت تھی مگر وہ وقت کھو کر اب کورونا کے گرداب میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ چین میں بھی اس وبا نے ایسی تباہی مچائی تھی کہ وہاں کی مضبوط حکومت بھی ہل کر رہ گئی تھی مگر اس نے ہوش مندی کا ثبوت دے کر فوراً سب سے زیادہ متاثر شہر ووہان کو لاک ڈاؤن کردیا تھا۔
اس وبا نے وہاں بھی بڑے پیمانے پر صرف جانی نقصان ہی نہیں پہنچایا معیشت اور صنعت کا بھی بٹھہ بٹھا دیا ہے۔ اس تباہی سے بچنے کے لیے وہاں کی حکومت نے تمام ہی تدبیریں اختیار کرلی تھیں مگر جب کوئی افاقہ نظر نہیں آیا تو وہاں کے صدر بھاگے ہوئے ایک مسجد جا پہنچے اور وہاں کے پیش امام سے اس وبا سے نجات کے لیے دعا کرنے کی خصوصی درخواست کی۔ کہاں یہی ملک اپنی مسلم اقلیت کو خاطر میں نہیں لاتا تھا سنگ کیانگ کے مسلمانوں کو اندرونی آزادی دینا بھی انھیں گوارا نہیں تھا اور اس مطالبے پر سیکڑوں مسلمانوں کو ٹارچر سیلوں میں بھیجنے کا ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے اب وہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا ضرور اہتمام کریں گے۔
دراصل چینی قوم ایک باشعور قوم ہے وہ معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے ساتھ ہی اپنی غلطیوں کو دور کرکے درست راستہ اختیار کرنے کا ادراک بھی رکھتی ہے مگر مغربی ممالک کا کیا بنے گا جو مسلمانوں پر مسلسل ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے مسائل اب پون صدی پرانے ہوچکے ہیں مگر انھیں حل کرنے اور وہاں کے مظلوم اور محکوم عوام کو غلامی اور ظلم و ستم سے آزاد کرانے میں انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے دنیا کے تمام مسائل کو پیدا کرنے میں جہاں ان کا ہی ہاتھ ہے وہاں ان کو حل کرنے کی کنجی بھی انھی کے پاس ہے اگر یہ چاہیں تو یہ دونوں دیرینہ مسائل ایک دن میں حل ہوسکتے ہیں مگر ان مسائل کو حل کرنا تو کجا انھوں نے تو ناانصافی کی انتہا کردی ہے۔ امریکا جیسی سپر پاور جس سے نہ ہی انصاف کی امید رکھتے ہیں فلسطینیوں کے حق خود اختیاری کا ہی منکر ہو گیا ہے وہ پورے فلسطین کو اسرائیل کا حصہ بنانے پر تل گیا ہے۔
ٹرمپ نے بڑی ڈھٹائی سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرلیا ہے۔ وہ بھارت کی بھی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی ہمت افزائی کررہا ہے۔ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے ساتھ یہ ظلم و ستم صرف اس لیے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تیمور اور جنوبی سوڈان کے عوام کو کیوں ان کی چند سالوں کی جدوجہد کے بعد ہی آزادی کی نعمت سے سرفراز کردیا گیا۔ اس لیے کہ وہ ان کے اپنے لوگ ہیں۔ مغربی ممالک کی یہ زیادتیاں اور ناانصافیاں آخر کب تک چلتی رہیں گی۔ کورونا جیسی آفت سے بھی وہ کوئی سبق نہیں سیکھ سکیں گے۔