افغانستان کی موجودہ صورت حال
طالبان نے معاہدے کے مطابق حملوں میں غیر معمولی کمی کی اور ان کی ٹیم حتمی مذاکرات کے لیے مثبت اقدام اٹھارہی ہے۔
افغانستان کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ افغان حکومت نے ملک میں تنازعات کے حل کے لیے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے 21رکنی ٹیم تشکیل دیدی ہے۔ یہ بات افغانستان کی وزارت امن نے ایک بیان میں بتائی ہے ۔ بیان میں مذید کہا گیا ہے کہ ٹیم کی سربراہی کاؤنٹر انٹیلی جنس کے سابق سربراہ محمد معصوم ستانکزی کریں گے ۔سیا سی جماعتوں سمیت معاشرے کے ہر طبقہ کے ساتھ مشاورت کرنے کے بعد کمیٹی کے ارکان کا انتخاب کیا گیا ہے ۔کمیٹی کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے اسلامی جمہوریہ افغانستان کی نمائندگی کرنے کی ذمے داری دی گئی ہے۔
قبل ازیں افغانستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب زلمے خلیل زاد نے بھی اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ امن معاہدے پر عمل درآمد کے سلسلے میں اگلا قدم قیدیوں کی رہائی ہے ۔یاد رہے کہ امریکا کی تاریخ کی طویل ترین جنگ ختم کرنے ،افغانستان سے ہزاروں فوجی نکالنے اور قومی مفاہمت یقینی بنانے کے لیے مسلح گروپوں اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات کے لیے سہولت کارکا کردار ادا کرنے کے لیے امریکا اور طالبان کے مابین 29فروری 2020 کو امن معاہدہ طے پایا تھا ۔اس معاہدے کے تحت امریکا نے طالبان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان حکومت کی جیلوں میں قید 5ہزار عسکریت پسندوں کی رہائی یقینی بنائی جائے گی جب کہ بدلے میں طالبان ایک ہزار افغان قیدی رہا کریں گے ۔
امن مذاکرات شروع کرنے اور قیدیوں کی رہائی یقینی بنانے کے لیے دونوں افغان حکومت اور طالبان نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران طویل ٹیلی کانفرنس کا انعقاد کیا ہے، اطلاعات کے مطابق طالبان وفد کابل کے شمال میں واقع بگرام جیل کا جلد ہی دورہ کرے گا تاکہ رہائی کے لیے فہرست میں شامل کیے گئے قیدیوں کی پہچان کی جاسکے ۔ قبل ازیں امریکا نے افغانستان میں صدر اشرف غنی اور حریف رہنما عبداللہ عبداللہ کے درمیان حکومت سازی میں عدم اتفاق اور امن معاہدے کی پاسداری میں تاخیر پر کابل حکومت کے لیے مختص امدادی رقم میں سے ایک ارب ڈالر کی کٹوتی کردی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پوم پیو غیر متوقع اور غیراعلانیہ دورے پر پیر 23مارچ 2020 کو کابل پہنچے تھے جہاں صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں اور دونوں رہنماؤں کے درمیان متوازی حکومت کی تشکیل اور سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ملاقات کے دوران صدر اشرف غنی اور حریف رہنما عبداللہ عبداللہ نے مشترکہ حکومت سازی سے معذرت کرلی اور دونوں رہنما کسی ایک نکتے پر متفق نہیں ہوسکے جس کے بعد اہم ملاقات بے نتیجہ ثابت ہوئی جب کہ مائیک پوم پیو کی دونوں رہنماؤں کو امداد بند کرنے کی دھمکی بھی کارگر ثابت نہ ہوسکی ۔مائیک پوم پیو نے بے سود ملاقات کے بعد کہا کہ افغان قائدین کا رویہ مایوس کن رہا امن بحالی کے لیے ہزاروں اہلکار وں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کیے لیکن افغان قائدین کی غیر سنجیدگی سے یہ قربانیاں رائیگاں جائیں گی اور اس طرح امریکا اور افغانستان کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچے گا ۔
پوم پیو کابل سے دوحہ پہنچے جہاں انھوں نے افغان طالبان کے ڈپٹی لیڈر ملا برادر سے بھی ملاقات کی اور افغانستان میں امن معاہدے کی پاسداری میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امن معاہدے کے ثمرات جلد از جلد افغان عوام تک پہنچنے چاہیے ۔مائیک پوم پیو کے دورے کے بعد وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ افغان قائدین کی غیر سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے امریکا نے افغانستان کے لیے امدادی رقم میں سے ایک ارب ڈالر کی کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے اور اگر افغان قائدین نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو امداد مکمل طور پر بھی بند کی جاسکتی ہے ۔
طالبان نے معاہدے کے مطابق حملوں میں غیر معمولی کمی کی اور ان کی ٹیم حتمی مذاکرات کے لیے مثبت اقدام اٹھارہی ہے۔ سیکریٹری خارجہ نے کہا امریکا امن معاہدے کے مطابق افغانستان سے اپنی فوجی نکالے گا ۔امریکا افغانستان کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے لڑنے میں مدد کے لیے 15ملین ڈالر کی امداد فراہم کرے گا ۔قبل ازیں 29فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں امن معاہدہ پایا تھا تاہم افغان صدر نے انٹر افغان مذاکرات سے مشروط کرتے ہوئے طالبان اسیروں کی رہائی کوملتوی کردیا تھا جب کہ طالبان بھی افغان سیکیورٹی فورسز کو نشانے بنارہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس دوران افغانستان میں سیاسی بحران کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے ،اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے صدارتی انتخاب میں اپنی اپنی کامیابی کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک ہی دن الگ الگ تقریب میں صدارتی حلف اٹھایا تھا ۔افغان حکومت اور طالبان کے درمیان وڈیو لنک کے ذریعے پہلا رابطہ مارچ کے آخری ہفتے میں ہوا ہے جس میں تشدد میں کمی لانے سمیت ددیگر امور پر گفتگو ہوئی ۔بات چیت وڈیو کانفرنس کے ذریعے ہوئی اور اس دوران قطری اور امریکی حکام بھی شریک تھے سفارتی حکام نے کہا کہ دونوں فریقین کے درمیان باضابطہ ملاقات ہونی تھی لیکن کورونا کی وجہ سے وڈیو کانفرنس کا اہتمام کرنا پڑا ۔
ذرائع کے مطابق وڈیو لنک کے ذریعے ہونے والے مذاکرات میں قیدیوں کی رہائی کے لیے ماحول تیار کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے ۔ یاد رہے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق امریکی فوج 14ماہ میں افغانستان سے مکمل انخلا کریگی اور طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کریں گے۔ معاہدے کے تحت امریکا پہلے مرحلے میں ساڑھے 4ہزار فوجی افغانستان سے نکالے گا اور ساڑھے 8ہزار فوجیوں کا انخلا معاہدے پر مرحلہ وار عمل در آمد سے مشروط ہے ۔ افغا ن جیلوں سے 5ہزار طالبان قیدی مرحلہ وار رہا کیے جائیں گے جب کہ بدلے میں طالبان ایک ہزار افغان قیدی رہا کریں گے اور طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے پابند ہوں گے اور دیگر دہشت گردوں سے عملی طور پر لاتعلقی اختیار کریں گے ۔
یادرہے کہ مارچ 2020 کے پہلے عشرے میں جب امریکا افغانستان میں متوازی حکومت کے قیام کی شدید مخالفت کررہے تھے عین اس وقت طالبان بھی اپنے نئے افغان صدر کا اعلان کرچکے تھے یعنی (افغانستان کا تیسرا صدرنامزد کرچکے تھے ) ۔ اس وقت وائس آف امریکا کے مطابق افغان طالبان نے اپنی حکومت قائم کرنے اور ملک کے نئے سربراہ کے نام کا اعلان کردیا ہے ، افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ ان کے سربراہ ہیبت اللہ ملک کے قانونی سربراہ ہیں اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کرلی جائے گی ۔
اسی دوران دوسری جانب طالبان سے معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی شروع ہوگئی ،افغانستان میں امریکی فورسز کے ترجمان سونی لی گٹ نے کہا کہ 135دنوں میں فوجیوں کی تعداد 8600کرنے کے لیے فوجیوں کی مشروط واپسی شروع کردی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوجی مقاصد کی تکمیل بشمول انسداد دہشت گردی آپریشن اور افغان قومی دفاع اور افغان فورسز کی مدد فراہم کرنے کا اختیار محفوظ رکھتے ہیں۔ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہا کہ وہ امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر ووٹنگ کرے ۔ بعد ازاں امریکی پیش کردہ قراداد امریکا ،افغان امن معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی منظوری و توثیق کردی ۔قراداد میں افغان فریقین کے ارادوں اور سیز فائر کے عمل کو سراہتے ہوئے امن معاہدے کو کامیاب بنانے پر بھی زور دیا گیا علاوازیں قرارداد میں امن عمل کو یقینی بنانے کے لیے انٹراافغان مذاکرات کو ضروری قرار دیا گیا ۔ پر امن دنیا کو امید واثق ہے کہ امریکا و طالبان امن معاہدہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا ۔