ڈاکٹر عافیہ صدیقی وبا کے دنوں میں قید کے 17 سال مکمل

عمران خان نے 2008 میں سب سے پہلے عافیہ کےلیے آواز بلند کی اور انکی رہائی کو 2018 میں اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنایا


رضوانہ قائد March 31, 2020
یہی وہی عمران خان ہیں جنہوں نے 2008 میں سب سے پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کےلیے آواز بلند کی تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دنیا کا بیشتر حصہ عالمی وبا ''کووِڈ 19'' کی لپیٹ میں ہے۔ اس مہلک وبا کے تاحال لاعلاج ہونے کے باعث حفاظتی تدابیر پر ہی پورا زور ہے۔ احتیاطی تدابیر میں سرِفہرست ''سماجی دوری'' اور ''قرنطینہ'' (لاک ڈاؤن) ہے۔

''اپنی مرضی'' کے اسیر انسانوں کو اپنی بقا کی خاطر (باسہولت) محصوری بھی قید کی مانند لگتی ہے... قید کے تذکرے کے ساتھ ہی سب سے پہلا خیال جو ذہن میں آتا ہے، وہ امریکا کی ظالمانہ قید میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ہے۔ قید کا یہ عرصہ زندگی کا نہیں، ایک کمزور بیمار قیدی کے روز جینے روز مرنے کا سترہ سالہ (30 مارچ 2003 تا 2020) طویل اذیت ناک سفر ہے۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی قومی منظرنامے کے ہر اہم موڑ پر سامنے آنے والا سگنل ہے۔ حالیہ امریکا طالبان امن معاہدہ ہو یا موجودہ وبا کورونا کی ہلاکت خیزیاں، عافیہ ایک بار پھر موضوع بحث ہیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: حکومت ڈاکٹر عافیہ کیلئے ایک خط بھی نہ لکھ سکی

یاد رہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکا کی جامعات سے اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی شہری ہیں۔ تعلیم کے ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلی ان کا خواب تھا۔ ان کے ساتھ پیش آنے والے المناک واقعات تعبیر کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ انہیں 30 مارچ 2003 کو پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کراچی سے اغوا کرکے لاپتا کیا گیا۔ اکتوبر 2008 میں برطانوی نَومسلم صحافی ایوون ریڈلے نے افغانستان میں امریکی مرکز بگرام ایئربیس کی جیل میں موجود ''قیدی نمبر 650'' کے ڈاکٹر عافیہ ہونے کا انکشاف عالمی میڈیا کے سامنے کیا۔ ان کے ہمراہ تحریکِ انصاف کے سربراہ کی حیثیت سے عمران خان بھی تھے۔ ایوون ریڈلے نے عافیہ پر امریکی فوجیوں کے شرمناک اور دل دہلا دینے والے مظالم کے انکشاف کے ساتھ ان کی رہائی کی اپیل بھی کی۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ناقابلِ تسخیرعورت

ڈاکٹر عافیہ کو 2009 میں امریکی قیدیوں پر حملہ کرنے اور مارنے کے الزام میں افغانستان سے امریکا منتقل کیا گیا۔ قتل کی کوشش کا نام نہاد مقدمہ چلا کر عدالت میں جرم ثابت کیے بغیر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: کرنل جوزف کے بدلے ڈاکٹر عافیہ کی واپسی

ڈاکٹر عافیہ کو سیاسی قیدی کہا گیا۔ اس لحاظ سے ان کے کیس کو سیاسی طور پر ڈیل کیا جانا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں یکے بعد دیگر آتی جاتی رہیں، لیکن کسی حکومت کے دور میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی عملی کوششوں کا کوئی ذکر نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کو قوم کی بیٹی سب نے ہی کہا، رہائی کے وعدے بھی کیے۔ لیکن یہ وعدے اور دعوے زبانوں اور میڈیا کی اسکرین سے قانونی و عملی شکل میں نہ ڈھل سکے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: ڈاکٹر عافیہ تو زندہ ہے، انصاف کب زندہ ہوگا؟

ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کےلیے پاکستان کی قومی اسمبلی نے 21 اگست 2008 کو پہلی قرارداد منظور کی۔ اُس وقت شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ تھے۔ سینیٹ نے عافیہ کی رہائی کےلیے 15 نومبر 2018 کو قرارداد منظور کی۔ تب پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تھے۔ امریکا اور طالبان کے مابین حالیہ دوحہ امن معاہدے کے موقعے پر بھی شاہ صاحب وہاں موجود تھے اور معاہدے کا کریڈٹ عمران خان کو دے رہے تھے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: خان صاحب، عافیہ کی آس ٹوٹنے نہ دیجیے!

یہ عمران خان بھی وہی ہیں جنہوں نے 2008 میں سب سے پہلے عافیہ کےلیے آواز بلند کی تھی۔ 2018 میں عافیہ رہائی کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنا کر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کی کوششوں کا وعدہ کیا تھا۔ وہ عمران خان آج پاکستان کے وزیرِاعظم ہیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: مجرم شکیل آفریدی کے بدلے مظلوم عافیہ کی رہائی... اب نہیں تو کبھی نہیں!

منظرنامہ تبدیل ہوا... دوحہ امن معاہدے کے ضمن میں طالبان لابی کی بھرپور فتح سامنے ہے۔ طالبان عافیہ کو اپنے قیدیوں میں پہلے ہی شمار کرکے ان کی رہائی کی بات کرتے رہے ہیں۔

پاکستان اور اس کے اعلیٰ حکام نے دوحہ معاہدے میں جس طرح ہر ممکن معاونت بہم پہنچائی، وہ عافیہ کیس کے سلسلے میں طالبان کی معاونت کیوں نہیں لے سکتے؟

ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کےلیے ہر ممکنہ راستے سے کوششیں کی جانی چاہئیں:

  • کورونا وائرس کے پیشِ نظر امریکا سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر؛

  • امریکا طالبان مذاکرات کے تحت قیدیوں کے تبادلے میں کوئی موقع؛

  • ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل۔


گزشتہ دنوں پاکستان کے ماہرِ قانون داؤد غزنوی نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں اپنی کتاب ''عافیہ ان ہرڈ'' (Aafia unheard) میں ان کی رہائی سے متعلق قانونی نکات اور راستے بھی بیان کیے ہیں۔

ایک راستہ یہ بتایا گیا کہ (مسلسل ٹارچر کے باعث) عافیہ صدیقی کا ذہنی توازن اور طبیعت ٹھیک نہیں لہٰذا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انہیں پاکستان واپس لایا جا سکتا ہے۔ یہ خالص قانون پر مبنی ایک راستہ ہے۔ اس صورتِ حال میں پاکستان بغیر کسی سودے بازی کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

تازہ گمبھیر صورتِ حال کورونا وائرس کی ہے۔ اس خدشے کے پیشِ نظر ایران اور امریکا جیسے دشمن ممالک نے بھی ایک دوسرے کے ملکوں سے اپنے اپنے قیدیوں کی حفاظت اور رہائی کا فوری مطالبہ کر دیا ہے۔ سی این این کے مطابق امریکی جیلوں میں کورونا پھیل گیا ہے۔ حفاظت و احتیاط کی صورتِ حال بہت پریشان کن ہے۔ کئی اموات متوقع ہیں۔ پاکستان میں بھی قیدیوں کی مشروط رہائی کا کام شروع ہو گیا ہے۔

ایسے میں قومی سطح پر ڈاکٹر عافیہ اور ان جیسے دیگر مظلوم قیدیوں کی واپسی کی کوشش حکومت کی اہم سفارتی کامیابی ہو گی۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کےلیے اس سے زیادہ بہتر حالات شاید کبھی نہیں رہے... وزیرِ خارجہ اور وزیرِ اعظم، دونوں ہی ابتدا سے اب تک عافیہ کیس کے عینی شاہدین ہیں... اور عمران خان تو رہائی کے وعدے کے مقروض بھی ہیں!

عمران خان کا وزیراعظم بننے سے قبل کہنا تھا: ''ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا غیروں کی قید میں رہنا، وقت کے حکمرانوں کےلیے انتہائی شرم ناک ہے۔ اگر ہم عافیہ کو رہا نہ کروا سکے تو یہ بدترین مایوسی والی بات ہوگی۔''

عمران خان صاحب! آج وقت نے آپ کو حکمران بنا دیا، آپ کے پاس اختیار آگیا ہے۔ قومی غیرت پر لگے شرمندگی کے اس ناسور کو ختم کرنے کب اٹھیں گے؟ شاید کہ آپ کا یہ کارنامہ ملک و قوم کو مایوسی کی کورونا کی وبا سے نجات دلا سکے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔