ہمارے ادبی انعامات کا عروج و زوال
الحمرا آرٹ کونسل کی ادبی ثقافتی کانفرنس کی ہبڑ دبڑ میں ہم نے اس سے پہلے ہونے والی تقسیم انعامات کی تقریب کا...
الحمرا آرٹ کونسل کی ادبی ثقافتی کانفرنس کی ہبڑ دبڑ میں ہم نے اس سے پہلے ہونے والی تقسیم انعامات کی تقریب کا سرسری ذکر کیا اور آگے گزر گئے۔
ہم نے اس ضمن میں اصغر ندیم سید کا تو ذکر کیا ہی نہیں۔ ان کے ذکر کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ جہاں جہاں ادب اور ثقافت کی سواری باد بہاری ہے وہاں وہاں اصغر ندیم سید کا قدم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ادب اور ثقافت کے سارے کارواں کو اکیلے امجد اسلام امجد کے تو حوالے نہیں کر سکتے۔
پاکستان کے ادبی انعامات کا ذکر کرتے ہوئے اصغر ندیم نے یاد دلایا کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ ممتاز مفتی کا تاریخ ساز ناول 'علی پور کا ایلی' شایع ہوا اور اسے آدم جی ادبی انعام نہیں ملا۔
ٹھیک ہے یہ آدم جی ادبی انعام کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے۔ ارے پھر یہ بھی تو بتایا ہوتا کہ یہ انعام ملا کسے۔ وہ ہم بتاتے ہیں۔ مگر اس انعام کا ذکر نکل ہی آیا ہے تو کیا مضائقہ ہے کہ پاکستان میں ادبی انعامات کے آغاز اور عروج و زوال پر ایک چلتی سی نظر ڈال لی جائے۔ عام طور سے سمجھا تو یہی جاتا ہے کہ پاکستان میں ادبی انعامات کے آغاز کا سہرا رائٹرز گلڈ کے سر ہے۔ اور یہ کہ پہلا ادبی انعام آدم جی ادبی انعام ہے۔
ایک موقعہ پر جب ادبی انعامات پر گرما گرم بحث ہو رہی تھی تو شہزادؔ احمد نے دعویٰ کیا کہ آدم جی انعام سے پہلے بھی ایک ادبی انعام پاکستان کے ادبی منظر پر نمایاں ہوا تھا اور وہ انعام ایک برس مجھے ملا تھا۔
جب یاروں نے یہ یقین کرنے سے انکارکیا تو اس عزیز نے ہمیں گواہ بنایا کہ انتظار سے پوچھ لو' اس برس وہ انعام اسے بھی ملا تھا۔ ہمیں' ہم تھوڑا چکرائے۔ تب شہزادؔ نے ہمیں یاد دلایا کہ ارے تم بھول گئے۔ مجلس ترقی ادب کی طرف سے جاری ہونے والا انعام تمہیں تمہاری ایک کہانی پر ملا تھا اور مجھے ایک اپنی نظم پر۔ تب ہمیں وہ بُھولا بِِسرا انعام یاد آیا۔ اور ہم شہزادؔ کے انعام پر گواہ بنے۔
مگر اب تو مجلس ترقی ادب کے ارباب بست و کشاد کو بھی یہ یاد نہیں ہے کہ سب سے پہلے اس مجلس نے ادبی انعامات کا ڈول ڈالا تھا۔ اور وہ انعام کسی سیاست کا شکار نہیں ہوا۔ ایسا ہوتا تو ہم دو لکھنے والوں کو جو اس وقت بہت جونیر تھے یہ انعام کیسے مل جاتا۔
مقطع میں بات آ پڑی اور ذاتی حوالہ درمیان میں آگیا، اسے جانے دیجیے۔ واقعہ یوں ہے کہ ادبی انعام کی دھوم رائٹرز گلڈ ہی کے طفیل پڑی۔ آدم جی پاکستان کے ادبی انعامات کے باوا آدم ہیں۔ پہلا انعام مشہور ترقی پسند ناول نگار شوکت صدیقی کو ملا۔ اس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ کتنے شاعر کتنے ناول نگار افسانہ نگار منہ کھولے اور گود پھیلائے بیٹھے تھے۔ مگر انعام جس گودی میں جا کر گرا وہ شوکت صدیقی کی گودی تھی۔ حریفوں نے شور مچایا کہ سفارشیں ہوئی ہیں' رِگنگ ہوئی ہے۔ رِگنگ کی تُہمت پاکستان کی ٹوٹی پھوٹی جمہوریت کی تاریخ میں بعد میں لگی۔ یہ کلنک کا ٹیکا سب سے پہلے دنیائے ادب میں رائٹرز گلڈ کے ماتھے پر لگا۔ پھر ہر برس جب آدم جی انعام کا اعلان ہوتا تو شور پڑ جاتا کہ رگنگ ہوئی ہے' رگنگ ہوئی ہے۔
آخری ایسا شور اس وقت پڑا جب ممتاز مفتی کا ضخیم و حجیم ناول 'علی پور کا ایلی' شایع ہوا۔ یہ ناول اشفاق احمد نے اپنے داستان گو کے ادارے کی طرف سے بڑے ارمانوں کے ساتھ شایع کیا تھا اس یقین کے ساتھ کہ اس شاہکار کو آدم جی انعام ملے ہی ملے۔ مگر ادھر منصفوں کی کمیٹی میں دوسرا ہی گُل کھلا۔ یاروں کے سارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی مگر وہ یہ کیسے یقین کر لیتے کہ اس عہد میں ممتاز مفتی کے سوا بھی کوئی ایسا جانہار لکھنے والا ہو سکتا ہے کہ وہ ممتاز مفتی سے بازی لے جائے۔ مگر ایسی ناول نگار پیدا ہو چکی تھی اس کا نام تھا جمیلہ ہاشمی۔ یہ بی بی دنیائے ادب میں نئی نئی نمودار ہوئی تھی۔ اس کا پہلا ہی ناولٹ 'آتش رفتہ' اسے لے اڑا۔ چاروں طرف سے داد کے ڈونگرے برسنے لگے۔ مگر جس ناول کو یہ انعام ملا وہ دوسرا تھا اس کا نام تھا 'تلاش بہاراں'۔ سمجھ لیجیے کہ جمیلہ ہاشمی کا یہ پہلا ناول تھا۔ ان کا شاہکار ناول 'دشت سوس' تو بہت بعد میں آیا مگر جو ناول انعام سے نوازا گیا اور جو اغیار کی نظروں میں کھٹکنے لگا وہ ''تلاش بہاراں'' تھا۔
شور تو بہت پڑا۔ جمیل الدین عالیؔ مجرم ٹھہرے۔ الزام لگا کہ یہ اس شخص کی کارستانی ہے۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ کل کی لڑکی جانے مانے ادیب ممتاز مفتی سے بازی لے جائے مگر یہ سب مار پیچھے پکار کا معاملہ تھا۔ کمان سے تیر نکل چکا تھا۔ قدرت اللہ شہاب خود جو رائٹرز گلڈ کے مائی باپ تھے منہ دیکھتے رہ گئے۔ مگر منصفوں کی کمیٹی پر کیسے انگلی اٹھاتے۔ اس کمیٹی میں تو پروفیسر حمید احمدخاں اور سید عابد علی عابد ایسی شخصیتیں شامل تھیں۔
اس انعام کے سلسلے میں اس کے بعد کا ایک اور ہنگامہ یاد آ رہا ہے۔ مگر اس کی نوعیت دوسری تھی۔ اب عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں' زیر عتاب تھا۔ خیر اس انتخاب پر تو شاید کسی طرف سے بھی اعتراض نہیں ہوا۔ اعتراض یہ ہوا کہ اس ناول کو انعام کیسے مل گیا۔ اس ناول پر تو فحاشی کا دھبا پڑا ہوا ہے۔ اورکیا یار یقین کریں گے کہ یہ اعتراض خود ایوب حکومت کے کار پردازوں کی طرف سے ہوا۔ مگر یہ کیسے۔
واضح ہو کہ اب ایوب دور میں قدرت اللہ شہاب کی کمان اتر چکی تھی۔ ان کی جگہ الطاف گوہر نے لے لی تھی۔ انھیں شہاب صاحب کا پالا ہوا بچہ رائٹرز گلڈ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا تو اب رائٹرز گلڈ کا ستارہ گردش میں تھا۔ ہاں تو پھر ہوا یہ کہ جمیل الدین عالی نے فوراً ججوں کی کمیٹی کا اجلاس بلا لیا کہ تم نے اس ناول کو پاس کیا تھا۔ اب تم ہی اس کا جواب دو۔ اس کمیٹی میں پروفیسر وقار عظیم تھے۔ سید امتیاز علی تاج تھے۔ اور نام یاد نہیں آ رہے سوائے ہمارے اپنے نام کے۔ بہر حال اس کمیٹی نے متفقہ طور پر فحاشی کے الزام کو رد کیا اور فیصلہ سنایا کہ ہم نے جو اس ناول کو انعام کے لیے منتخب کیا تھا وہ صحیح کیا تھا۔
وہ تو خیر معاملہ رفع دفع ہوا لیکن رائٹرز گلڈ کے دن اب گنے جا چکے تھے۔ ایوب خاں کی نظر کرم سے وہ محروم ہو چکا تھا۔ ایوب خاں کی نظروں کو انعام دینے والوں نے تاڑا۔ ایک ایک کر کے سب ہی نے ہاتھ کھینچ لیا۔ پھر کیسے انعام و اکرام اور کہاں کا رائٹرز گلڈ۔ آں دفتر را گاؤ خورد۔ گاؤ را قصاب برد۔ اس دفتر کو گائے چر گئی۔ خود گائے قصائی کے ہتھے چڑھ گئی۔
انعام تو اس کے بعد بھی جاری ہوئے اور حکومتوں ہی کی طرف سے جاری ہوئے معرفت اکیڈمی آف لیٹرز۔ ہر چند کہ انعام کی رقم پانچ پانچ لاکھ تک پہنچ گئی ع
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی