زندگی اور معاش کا تحفظ ساتھ ساتھ
موجودہ حالات میں دیہاڑی دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ ان کی آمدن کے ذرایع بند ہوچکے ہیں۔
ملک آفت کی لپیٹ میں ہے لیکن اپوزیشن کی بے تکان نکتہ چینی جاری ہے، افواہوں اور غلط معلومات کا کاروبار گرم بھی ہے۔ ان حالات کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے کوشاں ہے۔ وزیراعظم متعدد بار خوف کی فضا کو ختم کرنے کے لیے براہ راست قوم سے مخاطب ہوچکے ہیں۔
موجودہ حکومت کو ایک ایسا ریاستی ڈھانچا ملا ہے جو کرپشن اور مفاد پرستی سے کھوکھلا ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود عمران خان نے اپنی تمام تر استعداد کے ساتھ موجودہ صورت حال کے مقابلے کے لیے ہر ممکن تیزی کے ساتھ اقدامات کیے ہیں۔ بے سروسامانی کے ساتھ ہی سہی منظم کوششیں اس طوفان کا رُخ موڑ سکتی ہیں۔
کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہے تاہم یہ بھی ثابت ہوچکا کہ اس سے متاثر ہونے والے اکثر افراد میں دو چار روز اور زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں کے لیے بخار اور کھانسی کی ہلکی علامتیں ہی ظاہر ہوتی ہیں۔ اٹلی میں وائرس سے ہونے والی اموات کی( دس فی صد سے کم) شرح سب سے زیادہ ہے اور وہاں بھی 90فی صد متاثرین صحت یاب ہورہے ہیں۔ مرنے والوں میں عمر رسیدہ افراد کی اکثریت ہے۔
اس خطرے کی شدت کا انکار نہیں کیا جاسکتا اورپاکستان میں لاکھوں افراد کی زندگی کو لاحق خدشات کے تناظر میں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ صحت کو لاحق خطرات کے ساتھ معیشت کی تباہی، غربت میں اضافے اور خوراک کی قلت کے باعث ممکنہ فسادات اور نقض امن کے خدشات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ بڑے شہروں میں مکمل لاک ڈاؤن یا کرفیو کا فیصلہ کیا تو جاسکتا ہے تاہم اس کے نتیجے میں اگر زرعی اور صنعتی سرگرمیاں ہی ٹھپ ہوجاتی ہیں تو معیشت کو غیر معمولی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ یہی پہلو عمران خان کے پیش نظررہا ہے۔وہ جو پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ اس وبا کی طبی تباہ کاریوں کے مقابلے میں اس سے پیدا ہونے والا معاشی بحران شدید تر ہوگا۔ان حالات میں اگر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر گراوٹ کا شکار ہوتے ہیں تو پاکستان کی معیشت مردہ خانے میں منتقل ہوجائے گے۔
عمران خان نے ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران غذائی اجناس اور سامان کی نقل و حرکت اور اشیائے ضروریہ کی مطلوبہ ترسیل کو برقرار رکھنے کے لیے انھیں تیار کرنے والی صنعتوں میں پیداوار جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹیکسٹائل جیسے پاکستان کے بڑے صنعتی شعبوں میں بھی پیداوار جاری رکھنا ہوگی۔ عوام کو روزگار اور ملک کو صنعتوں کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ وائرس سے اتنی جانیں نہ جائیں جتنی بے روزگاری کے نتیجے میں بھوک اور علاج سے محروم ہونے کے باعث چلی جائیں گی۔ ہم پہلے ہی طلب و رسد کے سلسلے میں خلل ڈال چکے ہیں۔ گوالے اپنے علاقوں میں دودھ مفت تقسیم کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ بازار میں اس کی کھپت کم ہوچکی ہے۔ بھاری مقدار میں سبزیاں بازار تک پہنچنے کے بجائے گل سڑ رہی ہیں۔ حکومت نے سندھ میں گندم کی خریداری کا دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے۔ ملک میں گندم کی تھریشنگ کا آغاز اپریل کے آخر تک ہی ممکن ہوگی۔ مئی تک پاکستان میں لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہوںگے۔
موجودہ حالات میں دیہاڑی دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ ان کی آمدن کے ذرایع بند ہوچکے ہیں۔ ایسے افراد کو ضروریات زندگی کی فراہمی اور اس کے لیے جنگی بنیادوں پر باقاعدہ نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔یہاں بلدیاتی اور مقامی حکومتوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ راشن کی تقسیم ضلعی اور یونین کونسل کی سطح پر ہونی چاہیے۔ انھیں اپنے علاقوں میں ضرورت مند خاندانوں تک راشن کی فراہمی کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ شہری علاقوں میں مقامی تندوروں کو بھی خوراک کی تقسیم کا مرکز بنایاجاسکتا ہے اور نگرانی کے لیے یہاں یونین کونسل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار تعینات ہونے چاہییں۔ ہر خاندان سے ایک فرد مقررہ وقت پر یہاں آکر راشن وصول کرے اور ہجوم لگانے سے گریز کرے۔ ان انتظامات کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے بھی حکومت عملی بنائی جاسکتی ہے۔
مالی بحران سے نمٹنا سب سے بڑا چلینج ہے۔ شرح سود کو صفر کے قریب تر حد تک کم کیا جائے جیسا کہ بین الاقوامی سطح پر کیا بھی گیا ہے۔ جسے ''ہاٹ منی'' کہا جاتا ہے اس میں سے اکثر سرمایہ جاچکا ہے اور جو رہ گیا ہے غالب امکان یہی ہے کہ اب وہ کہیں نہیں جائے گا۔ گزشتہ سال اور اس سے قبل کئی برسوں سے بینک خوب منافع کما چکے ہیں اور اب موقع آگیا ہے کہ وہ ملک پر بڑھتا ہوا مالی بوجھ کم کرنے میں اپنا حصہ شامل کریں۔ حالات چاہے کیسے بھی ہوں اس منافعے کا 70فی صد ٹی بلز سے حاصل ہوتا جو بہر صورت قومی خزانے سے ادا کیا جاتا ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کسی صورت عمومی معاشی سرگرمیوں اور اشیائے صرف کی قیمتوں سے متعلق نہیں ۔اسے اسٹیٹ بینک کی مدد کی ضرورت نہیں۔ ان حالات میں معاشی بوجھ اٹھانے کے لیے ان لوگوں کو آگے آنا ہوگا جو اس کے متحمل ہیں۔ ایسے بحرانوں میں کمزور طبقات کا ساتھ دینے ہی سے قومیں بنتی ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر کو دیکھتے ہوئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ سرمایہ پاکستانی اکاؤنٹ میں رکھیں تاکہ اسٹیٹ بینک کو روپے پر بڑھتے دباؤ کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے۔
لاک ڈاؤن ضروری ہے لیکن توازن کے ساتھ مرحلہ وار فیصلوں کی ضرورت ہے۔ زندگی بچانے کے لیے نظام زندگی کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا۔ ہم کسی دوسرے ملک کے اقدامات کو بھی من و عن لاگو نہیں کرسکتے کیوں کہ ہر ملک میں دو تین روز بعد حکمت عملی میں تبدیلی لائی جاتی ہے اور کسی کے پاس مستقل لائحہ عمل نہیں۔ ہر ملک بلکہ ایک ہی ملک کے مختلف صوبوں کو بھی اپنے مقامی حالات کے مطابق فیصلہ کرنا پڑیں گے۔ ان حالات میں جو لوگ سیاسی کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں وہ دراصل عوام کی زندگیوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ مغرب کے پاس موجودہ اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل ہیں پاکستان کا اس سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ چین اور مغربی دنیا کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے ہمیں اپنے لوگوں کے ذرایع معاش کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ آٹے کی ملیں کھلی رکھی جاسکتی ہیں لیکن کپاس ٹیکسٹائل اور متعلقہ صنعتوں کے ذریعے لوگوں کو روزگار دیتی ہے۔ ہمیں اپنی ٹیکسٹائل صنعتوں کی پیدوار جاری رکھنے کا مشکل فیصلہ کرنا ہوگا۔
وبا اور معاشی بحران ان دونوں سے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوم متحد ہوجائے۔ قوم کی مدد کے بغیر حکومت تنہا کچھ نہیں کرسکتی۔ اس نازک وقت میں ملکی قیادت کو دوراندیشی، دیانت داری اور بردباری کے ساتھ ساتھ قوم اور بالخصوص نوجوانوں کو متحرک کرنا چاہیے، یہی اس آفت سے مقابلے کا واحد طریقہ ہے۔ زندگیاں بچانے کے ساتھ ساتھ نظام زندگی کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہوگا اور یہی سب سے بڑی آزمائش ہے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)