نوازشریف کے دورے سے پاک افغان تعلقات میں اعتماد پیدا ہوگا

ضروری ہے کہ اعتمادسازی کیلیے سفارتی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، تجارتی، ثقافتی اورعوامی رابطوں میںتیزی لائی جائے، ماہرین


Abid Hussain December 02, 2013
ضروری ہے کہ اعتمادسازی کیلیے سفارتی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، تجارتی، ثقافتی اورعوامی رابطوںمیںتیزی لائی جائے، ماہرین فوٹو: فائل

وزیراعظم نوازشریف کے حالیہ دورہ افغانستان سے مستقبل میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات الزامات کی زد سے نکل کراعتمادسازی اوردوستی کے مضبوط رشتوں میں تبدیل ہوناشروع ہوجائیں گے۔

ضروری ہے کہ اعتمادسازی کیلیے سفارتی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، تجارتی، ثقافتی اورعوامی رابطوںمیںتیزی لائی جائے۔ان خیالات کا اظہار سابق سیکریٹری خارجہ اکرم زکی،سینیٹ کی خارجہ امورکمیٹی کے چئرمین حاجی عدیل،سینٹرفارانٹرنیشنل اسٹرٹیجک اسٹڈیزکے سربراہ وسابق سفارتکارعلی سرورنقوی،سابق سفیربی اے ملک اورقائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امورکے پروفیسرڈاکٹرقندیل عباس نے وزیراعظم کے دورہ افغانستان کے حوالے سے ''ایکسپریس'' سے گفتگوکرتے ہوئے کیا۔ ماہرین نے کہا کہ پاکستان اورافغانستان کے مابین تعلقات تاریخی طورپرکبھی بھی دوستانہ نہیںرہے ۔ افغانستان وہ ملک ہے جس نے 1947ء میں پاکستان کو اقوام متحدہ میں تسلیم نہیںکیاتھا اوربعدازاں الزامات کاسلسلہ عروج پررہا۔ وزیراعظم کے اس بیان کوکہ ''افغانستان میںکوئی گروپ ان کا فیورٹ نہیںہے''۔ افغان حکمرانوں کے ساتھ افغان عوام نے بھی سراہا ہے۔



اکرم ذکی نے کہاکہ وزیر اعظم نوازشریف کے دورے سے مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔حاجی عدیل نے کہاکہ حالیہ دورے کے دوران افغانستان کے طرف سے جوردعمل آیاہے وہ قابل تعریف ہے۔دونوںممالک کودہشت گردی کے مسائل کاسامناہے۔ اس لیے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے۔سابق سفارتکارعلی نقوی نے کہاکہ حالیہ دورہ خاصااہمیت کاحامل ہے اس سے غلط فہمیوںکودورکرنے کاموقع میسرآیاہے۔سابق سفارتکاربی اے ملک نے کہاکہ موجودہ حکومت کے اقتدارسنبھالنے سے قبل الزامات کی بارش ہوتی رہی جس میں اب کمی آئے گی۔پروفیسرڈاکٹرقندیل عباس نے کہاکہ پاکستان کواب افغانستان کے ساتھ تعلقات کومستحکم کرنے کیلیے سفارتی،سیاسی،معاشرتی،ثقافتی،معاشی اورپیپل ٹوپیپل روابط کوفروغ دیکراپناامیج بہترکرناچاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں