غفلت کی گنجائش نہیں
صحت کے اس بحران کا زیادہ خطرناک نتیجہ لاک ڈائون کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصان کی صورت ہوسکتا ہے۔
LOS ANGELES:
اس لمحے سے جب چینی حکام نے ووہان شہر میںکوروناوائرس کے پھیلائو کے خلاف لڑائی شروع کی ، اعلیٰ درجے کا نظم و ضبط اور تخلیقی نوعیت کی انتظامی صلاحیتیں وقت کی ضرورت تھیں کیونکہ ایک ایسی صورتحال کا سامنا تھا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ جو کچھ ہوا اس نے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی مشکل میں ڈال دیا جن کے پاس خوب منظم ریاستی ادارے اورصحت کی دیکھ بھال کے نظام ہیں۔
ان ممالک کو پولیس کے ذریعے خصوصی قواعد نافذ کروانے، ریستورانوں اور شراب خانوں وغیرہ کو زبردستی بند کروانے اور بعض اوقات قید سمیت سزا کا خوف پیدا کرنے تک جانا پڑا۔ جب شہری عدالتوں میں گئے تو عدالتوں نے فیصلہ دیا کہ کمیونٹی کے مفادات فرد کے مفادات پر برتری رکھتے ہیں۔ ایک صدی قبل 1919 میں امریکی جج اولیور وینڈل ہومز نے ـــ 'واضح اور موجود خطرے' کی صورتحال سے نمٹنے کے تصورکے طور پر اسے متعارف کروایا تھا۔
صحت کے اس بحران کا زیادہ خطرناک نتیجہ لاک ڈائون کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصان کی صورت ہوسکتا ہے۔چند دنوں میں لاکھوں لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امریکا میں لوگوں کا ایک سیلاب کام کی تلاش اور مالی امدادکی درخواستوں کے لیے جاب سینٹرز کا رخ کررہا ہے۔ جمعہ 3 اپریل کو ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں نے امریکا میں نوکری کی درخواست جمع کروائی۔ پاکستان جیسے ملکوں میں کروڑوں دیہاڑی دار ہیں جو آمدنی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
معاشی بحران کا نتیجہ زرعی پیداوار میں کمی اور خوراک کے بحران کی صورت نکل سکتا ہے جس میں کورونا کی وباء سے کہیں زیادہ جانیں ضایع ہوسکتی ہیں۔بنیادی طور پر ہم ایک زرعی ملک ہیں جو اپنے لوگوں کو کھلانے کے قابل ہے لیکن موجودہ بحران کے طوالت پکڑنے سے معاشی مشکلات مزیدگہری ہوجائیں گی۔ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے پہلے سے اعلان کردہ اقدامات مثال کے طور پراشیاء کی آمدورفت کے لیے سڑکوںکو کھلا رکھنے پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ ایک اور مزید فوری مسئلہ ضرورت مندوں کو راشن کی ترسیل کا ہے۔ دن گزرتے جارہے اور کچھ نہیں ہو رہا۔
بدقسمتی سے جو مرض اس قوم کو لاحق ہے وہ اس کے سرکاری شعبوں میں کام کرنے والے کئی لوگوں میں خلوص اور اخلاقی کردار کی کمی ہے۔ پہلے ہی بے حد سست ہونے کی شہرت رکھنے والا سرکاری شعبہ اس طرح کام کرتا ہے کہ آپ کو برطانوی دور کی یاد آجاتی ہے۔پائوں پسار کر بیٹھے رہنے اور کچھ نہ کرنے کی عادت ہماری انتظامیہ میں عام ہے۔ کوئی بھی پکڑا جاسکتا ہے نہ کسی کو سزا ہوسکتی ہے۔
ممکن ہے ایک ادارے کے پاس بہترین چیئرمین ہو اور اس کے ساتھ بہترین مینیجمنٹ ٹیم ہو لیکن مسئلہ اس زینے پر پیش آتا ہے جہاں ذمے داری ان ہاتھوں میں جاتی ہے جنھوں نے نظام کے پہیے کو اصل میں چلانا ہے۔ یہاں کام کرنے والے قواعد و ضوابط کے مطابق چلنے کا تاثر دیں گے لیکن اپنی میز تک پہنچنے والے ہر معاملے کو تاخیر کا شکار کرنے کا ہر نیا پرانا حربہ آزمائیں گے۔ وہ اسے اگلے ہفتے یا اس سے اگلے ہفتے پر ڈال دیں گے یا سرخ فیتے کے سب سے آزمائے ہوئے طریقے یعنی معاملہ 'کمیٹی' کے سپرد کرنے کا استعمال کریں گے جس کا مطلب مہینوں کا التواء ہوسکتا ہے۔
انھوں نے اس ہنر میں اتنی مہارت حاصل کرلی ہے کہ وہ کبھی بھی کسی کام سے صاف انکار نہیں کرتے بلکہ معاملے کو اس قدر لٹکائے رکھتے ہیں کہ درخواست گزار درخواست منسوخ کردیتا ہے اور تنگ آکر چھوڑ جاتا ہے کیونکہ اسے اپنے اخراجات کا بھی خیال کرنا ہوتا ہے۔
اعلیٰ سطح حکام کو شکایت کرنا عام طور پر کام نہیں کرتا،بلکہ اگر کچھ ہوتا ہے تو یہ کہ سرمایہ کار کو مزید نقصان دہ اور گندے حربوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملٹی نیشنلز میں بھی یہ مسئلہ ہے۔ لالچ کے ہوتے ہوئے یہ بات عجب نہیں کہ ہر افسر اپنے منصب اور کم یا زیادہ، جو بھی اختیارات اسے حاصل ہوں، پر حاسدانہ طور پر پہرہ دیتا ہے۔ نظام اس طرح سے تشکیل پاچکا ہے کہ ایک دوسرے کو ذلیل و خوار کرنے کے بعد بھی وہ ایک دوسرے کی نااہلیاں اور بدعنوانیاں چھپانے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں، جس کا مطلب عام طور پر یہ ہوتا کہ اگر کچھ غلط ہوجائے تو کئی لوگ ذمے دار ہوتے ہیں،اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کوئی بھی ذمے دار نہیں ہوتا۔
اس نفرت انگیز طریقہ کار کے باعث حکومت کی کارکردگی کو بہت نقصان پہنچتا ہے اور لوگوں کی خجالت میں بھی بے حد اضافہ ہوتاہے، بالخصوص اس وقت جب قوم کورونا وائرس سے جنگ کررہی ہو۔ حال ہی میں کورونا متاثرین کی تعداد 4000 سے تجاوز کرگئی جب کہ مجرمانہ غفلت کے عادی لوگ اب بھی جانبداری، طاقت کے غلط استعمال، پست اخلاقیات اور کھلی بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ وباء سے بہتر طریقے سے لڑنے کے قابل ملکوں میں اختیارات کا مرکز میں ارتکازہے اور شہری حقوق کا تصور کمزور ہے لیکن نظم و ضبط اور عوام میں قواعد و ضوابط کا احترام بھی زیادہ ہے۔
روس، چین، سنگاپور اور جنوبی کوریا کو ماضی میں سیاسی شفافیت اور شہری آزادیوں کی کمی پر تنقید اور طنز کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایک اورمددگار خاصیت منظم، تربیت یافتہ اور وسائل رکھنے والے اداروں کے ساتھ ایک مضبوط ریاست ہے۔ ایسی غیر معمولی صورتحال میں ان کا استعمال وباء، بے چینی اور دیگر نوعیت کے ناسازگار حالات کو روکنے اور قابو کرنے کے لیے ہوسکتا ہے لیکن عام اوقات میں ان کا استعمال مکمل طورپر شہری حقوق کے تحفظ کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ معاملے کا نچوڑ اکثر معاملات کی طرح درست توازن یا 'درمیانی راستہ' تلاش کرنے میں ہی ہے۔
اس حکومت نے بیوروکریسی کو غیر سیاسی بنانے کی ایک اسکیم شروع کی تھی جسے کئی حاضر سروس بیوروکریٹس نے مسترد کردیا جو حکومت کو روکنے کے لیے تقریباً باغیانہ طریقوں پر اتر آئے۔دنیا کے زیادہ تر ممالک کی طرح،COVID-19 کو پھیلنے سے عملاً روکنے کے لیے ایک قابل عمل اور ہمہ گیر قومی ردعمل تشکیل دینا آج واقعی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اگرچہ ایسی اصلاحات کے نفاذ کے لیے کوئی وقت نہیں لیکن بیوروکریٹس کے لیے یہ ایک موقع ہے یہ ثابت کرنے کا کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی پالیسیوں کورکاوٹیں کھڑی کیے بغیر فوری طور پر حرکت میں آنے کے قابل ہیں۔
اپنے خلاف مقدمات ختم کروانے لیے بدعنوان سیاستدانوں کے سیاسی کھیل اب بند ہوجانے چاہییں۔ اس وقت جب ہم زندگی، موت اور معیشت جیسی گھمبیر صورتوں میں گھرے ہیں، لاپروائی اور دیگر تاخیری حربے نہ صرف لوگوں کی زندگی اور موت بلکہ ہماری قومی بقاء کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہیں۔ ایسا کرنے والوں کی نشاندہی ضرور ہونی چاہیے اور انھیں عبرت ناک سزائیں ملنی چاہئیں اور ان کے اثاثے ضبط ہوجانے چاہئیں۔
(مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)