عمران خان کا جرات مندانہ فیصلہ
عمران خان نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو للکارا ہے جس پر وہ بلبلارہے ہیں۔
سیاست کی دنیا میں وزیر اعظم عمران خان نے جو زبردست اور خلاف توقع ہلچل مچا دی ہے اس پر تبصرے جاری ہیں اور ان کے رکنے کی تو بات ہی کیا ہے ان کی رفتار کم ہونے کی امید بھی نظر نہیں آتی۔
عمران خان کے ارد گرد جو لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں یا کر دیے گئے ہیں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے حکومت میں آنے سے پہلے یہ وعدہ کیا تھا کہ کسی بدعنوان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی اوراپنی پارٹی کے اہم فرد کے خلاف ایکشن بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو حکومت کے بدعنوانی کے خلاف مصمم ارادوں کو تقویت دیتا ہے۔ اس ایکشن سے قبل بھی وہ پنجاب میں اپنی پارٹی کے دو صوبائی وزراء کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بجھوا چکے ہیں اور پختونخوا میں کئی وزراء کو عہدوں سے ہٹایا بھی جا چکا ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان ایک ایسے ذہن اورنیت کے ساتھ حکومت کر رہے ہیں جس کا رائج الوقت سیاست کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں، ان کا یہ عمل ان کی سیاست اور حکومت کے لیے انتہائی مضر قرار دیا جا رہا، ان کے سیاسی مخالفین ان کے اس اقدام پر بغلیں بجا رہے ہیں، وہ یہ کہنے میں بجا طور پر حق بجانب ہیں کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ لیکن ایسی ہی آگ لگے گی توچراغ روشن ہوں گے جن کی وجہ سے یہ ملک بھی روشن رہے گا ورنہ گزشتہ کئی دہائیوں سے تو ہم گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے آئے ہیں ۔
دنیا میں پھیلی وبا کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشتیں کساد بازاری کا شکار ہو چکی ہیں، صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بڑی بڑی معیشتیں اس بحران کو سنبھال نہیں پا رہیں اوراس وجہ سے مستقبل میں دنیا میں تبدیل ہونے کے اشارے دیے جارہے ہیں، اسی تبدیل ہوتی دنیا میں سے ہم نے بھی اپنے لیے راہ نکالنی ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارے حکمران نیک نیتی کے ساتھ قوم کے اصل مسئلوں کو حل کرنے کی جانب پیش قدمی کریں یعنی دوسرے لفظوں میں اس قوم کا ساتھ دیں جو ہمیشہ ان کا ساتھ دیتی آئی ہے۔
یہ ساتھ اسی صورت میں ممکن ہے کہ قوم کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئی ہیں ان کا ازالہ کیا جائے گو کہ عمران خان کسی حد تک یہ ازالہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن مجھے خدشہ ہے کہ یہ ازالہ ان کے گلے کا ہار نہ بن جائے کیونکہ آج تک پاکستان میں طاقت ور اور بااثر شخصیات احتساب کے کٹہرے سے اول تو کھڑی نظر نہیں آتیں اور اگر آبھی جائیں تو یہ کٹہرا ان کا وزن نہیں سہار پاتا۔
پاکستان جیسے پیداواری ذرایع سے بھر ے پرے ملک میں زمانہ امن میں اگر کسی غذائی جنس کی قلت ہو جاتی ہے تو یہ سوائے حکومت کی نااہلی اور کوتاہی کے اور کچھ نہیں ہے لیکن ہم یہ قلتیں ایک مدت سے بھگت رہے ہیں، کبھی آٹے کے بحران کی صورت میں اور کبھی چینی جیسی غیر اہم جنس کی قلت میںکہ ہمارا گزارا چینی کے بغیر بھی ہو سکتا ہے لیکن ہم نے اپنی زندگی کو ضرورتوں کے تابع کر لیا ہے اور ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش نہیں کرتے۔
آج اگرقوم یہ فیصلہ کر لے کہ اس نے ایک مخصوص مدت تک چینی کا استعمال ترک کر دینا ہے تو چینی کے سوداگر جو آج کٹہروں میں کھڑے نظر آتے ہیں ، وہ کل عوام کی منتیں کرتے نظر آئیں گے اور مارکیٹ میں چینی کا ریٹ وہی ہو گا جو عوام کی دسترس میں ہو جس میں مل مالکان کا جائز منافع بھی شامل ہو گا۔ لیکن ہمارے ہاں چونکہ اس کے برعکس ہوتا آیا ہے حکومت اپنی مرضی کرتی ہے اور اپنے مصاحبین کو فائدے پہنچاتی ہے جب کہ دوسری جانب عوام نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ اگر حکومت ان کے ساتھ زیادتی کرنے پر تل ہی گئی ہے تو وہ بھی اس کا جواب دیں، عوام نے ہمیشہ اپنا مقدر سمجھ کر اپنے اوپر مزید بوجھ کو برداشت کر لیا جس کی وجہ سے حکومتیں منہ زور ہوتی چلی گئیں اور اپنی من مانی کرتی رہیں ۔
ماضی میں بھی یہ قوم راشن بندی کے نام پر قطاروں میں کھڑی ہو کر غذائی اجناس لینے پر مجبور رہی ہے اس کے لیے باقاعدہ طور پر راشن کارڈ جاری ہوتے تھے، آج کل جب میں کسی چیز کی قلت کی خبر پڑھتا ہوں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم تو وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے اور ایسا صرف ہم ہی کر سکتے ہیں کہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف سفر جاری رکھیں اور ہمارا ترقی معکوس کا یہ سفر جاری ہے۔
میں خود راشن کارڈ پرقطار میں لگ کر چینی لیا کرتا تھا یہ بھٹو صاحب کے دور کی بات ہے اس وقت یہ راشن ڈپو جیالوں کو دیے گئے تھے چنانچہ میں نے ایک جیالے ڈپو والے سے دوستی کر لی اور یوں میری قطار بندی ختم ہو گئی اور چینی بھی اپنی ضرورت کے مطابق ملنے لگی۔ بعد میں چینی کے نئے کارخانے لگ گئے جو صنعتکاروں کے تھے اور یہ مسئلہ حل ہو گیا لیکن جب سرکاری پارٹی کے لوگوں نے کارخانے لگانے شروع کیے تو انھوں نے سب سے پہلے کے اصول پر چینی کو اپنی ذاتی نفع اندوزی کے لیے مخصوص کر لیا۔
یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں قیمتوں کا توازن بگڑ گیا جب تک صنعتکاری کے شعبے صنعتکاروں کے حوالے رہے تب تک ملک میں کاروبار رواں دواں رہا،صنعتکار اپنی مصنوعات کی قیمت عوام کی قیمت خرید کے مطابق مقرر کرتا ہے اس کو علم ہوتاہے کہ عوام کی قوت خرید کتنی ہے اس لیے وہ ایک جائز منافع کے ساتھ اپنے کاروبار کو رواں دواں رکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب صنعت کے شعبے میں سیاست دان گھس گئے تو انھوں نے راتوں رات منافع کمانے کے لیے اپنی مرضی کی قیمتیں مقرر کرنا شروع کر دیں ۔
گنے کے کاشتکاروں سے ان کی دکھ بھری داستانیں سنیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کس طرح وہ شوگرملوں کے باہر گنے کی فروخت کے لیے خوار ہوتے ہیں اور بعد میں رقم وصولی کے لیے ملوں کے دروازوں سے سر ٹکراتے رہتے ہیں۔ ایک بہت بڑا مافیا ملک کے ہر شعبے میں چھایا ہوا ہے جس نے حکومتوں کو بھی جکڑ رکھا ہے۔ عوام کی بد قسمتی سے یہی لوگ حکومتوں کے دست و بازو بھی ہوتے ہیں اور ہم سب ان کو حکمرانوں کے ارد گرد منڈلاتے دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح حکمرانوں سے بغل گیر رہتے ہیں۔
عمران خان نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو للکارا ہے جس پر وہ بلبلارہے ہیں۔دبے لفظوں میں چینی کی قیمتوں کو آسمان تک پہنچانے کی دھمکیاں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ قوم نے عمران خان کو انھی جرات مندانہ کاموں کے لیے منتخب کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ عمران خان قوم کی امیدوں پر پورا اتر رہے ہیں اور جب تک حکمران سے قوم کی امیدیں قائم رہیں اس کی حکمرانی قائم رہتی ہے اور عمران خان اپنے جرات مند فیصلوں سے قوم کی ان امیدوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔