کمی کا بیٹا

[email protected]


Latif Chaudhry July 08, 2012
[email protected]

خاصے دنوں کے بعد آج لکھنے کو دل چاہا ہے' موضوعات کی کمی نہیں' بعض اوقات دماغ یکسو نہیں ہوتا' گزشتہ دنوں ملک میں بہت کچھ ہوا' یوسف رضا گیلانی نا اہل ہوکر سابق وزیراعظم بن گئے' راجہ پرویز اشرف ان کی کرسی پر آبیٹھے' ادھر مون سون شروع ہونے سے پہلے ہی لوڈشیڈنگ کم ہو گئی، دریا چڑھ رہے ہیں، سیلاب کے خطرے سے دل دھل رہے ہیں۔ انھی ایام میں سات ماہ سے بند نیٹو سپلائی کھل گئی' کراچی کی بندر گاہ سے ٹرالر چمن اور طورخم کی طرف رواں دواں ہیں' یہ سب کچھ ہماری جاگتی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ سرد جنگ کے دور میں سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ ملکوں کا مال کھا کر جوان اور توانا ہونے والا شدت پسندوں کا گروہ نیٹو اور امریکا کو للکار رہا ہے۔ عوامی جلسوں میں آستین چڑھا کر غصے سے پھنکارتے رہنمایان دین و ملت قوم کو ''مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی'' کا سبق یاد کرا رہے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کے قابل احترام رہنما ہوں' عمران خان یا میاں نواز شریف ہوں' میرا حُسن ظن ہے، انھیں نیٹو تنظیم کی ہیئت' مقاصد اور وسعت کا یقیناً علم ہو گا۔ اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں نیٹو یا امریکا شکست کھا رہا ہے تو ان کی دانش و فہم پر آفرین آفرین پکار اٹھنے کو دل چاہتا ہے۔

نیٹو ہے کیا؟ اس کی تفصیل بیان کرنے سے آپ بور ہو جائیں گے، چند موٹی موٹی باتیں حاضر خدمت ہیں۔ اس وقت نیٹو تنظیم کے باقاعدہ ارکان کی تعداد 28 ہے۔ ان میں امریکا' برطانیہ اور فرانس جیسی ویٹو پاور کی حامل طاقتیں شامل ہیں۔ اٹلی، جرمنی، اسپین اورکینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک بھی اس کے رکن ہیں۔ یہ سب ممالک بحر اوقیاس کے شمالی ساحلوں پر واقع ہیں' اسی نسبت سے اسے نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن کہا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے مقاصد میں سے ایک تو یہ تھا کہ کمیونزم اور سوویت یونین کا مشترکہ طور پر مقابلہ کیا جائے' ان ملکوں نے مل کر اپنا یہ اہم ترین ہدف حاصل کرلیا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے بعد بھی اس تنظیم کے رکن ممالک نے اپنا فوجی اتحاد برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا بلکہ اس کا دائرہ کار اور مقاصد مزید وسیع کر دیے۔ اب یہ محض 28 ممالک کا اتحاد نہیں ہے' اس میں نان نیٹو اتحادی بھی شامل کیے گئے ہیں۔ ان کی تعداد15 ہے۔ پاکستان اور افغانستان بھی اس اسٹیٹس کے حامل ہیں' اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ملک بحر اوقیانوس کے شمالی کنارے پر واقع تو نہیں پھر بھی ہم اس تنظیم کے اتحادی اور اس کے مقاصد سے متفق ہیں۔ نیٹو کی ہمہ گیریت یہیں ختم نہیں ہوتی۔ یورو اٹلانٹک پارٹنر شپ کونسل بھی قائم کی گئی ہے' اس کونسل کے رکن ممالک کی تعداد 22 ہے۔ اس میں روس' یوکرائن' بیلاروس' قازقستان، آرمینیا اور وسط ایشیا کی تمام مسلم ریاستیں شامل ہیں۔ ''نیٹو بحیرہ روم ڈائیلاگ'' کے نام سے بھی ایک ڈھیلی ڈھالی تنظیم قائم ہے۔ اس میں الجزائر' مراکش' ماریطانیہ' تیونس' اردن اور مصر جیسے عربی زبان بولنے والے مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے ہیں۔ اسی طرح ''استنبول تعاون تحریک کے نام سے بھی ایک تنظیم موجودہے' یہ بھی نیٹو کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس میں بحرین' قطر' کویت اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ یہ نیٹو کی ہمہ گیریت اور وسعت کا ایک سرسری سا جائزہ ہے۔ نیٹو تنظیم دنیا کے پانچ اہم اور حساس مقامات پر آپریشنز میں مصروف ہے۔ اس کے بحری بیڑے خلیج عدن اور صومالیہ کے ساحلوں پر موجود ہیں' یہاں وہ بحیرہ روم، بحیرہ احمر اور بحر ہند کی گزر گاہوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ وہ بحری جہازوں کو روک کر ان کی تلاشی لینے کا مینڈیٹ رکھتے ہیں۔ نیٹو فورسز افغانستان میں ہیں اور کوسوا میں بھی موجود ہیں۔

مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا محافظ امریکا نہیں بلکہ نیٹو تنظیم ہے البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا اس تنظیم کا روح رواں، سب سے طاقتور اور وسائل کا حامل ملک ہے۔ اس لیے مال غنیمت میں اس کا حصہ سب سے زیادہ ہوتا ہے لیکن ترکی جیسے ملک بھی اچھا خاصا مال وصول کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ افغانستان میں ترک کمپنیاں بھی اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ بھارت جسے ہم اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں، وہ نیٹو یا اس سے وابستہ کسی تنظیم کا رکن نہیں ہے۔ نیٹو صرف اٹھائیس ملک نہیں ہیں بلکہ یہ 60 کے قریب ملکوں کا گینگ ہے۔ امریکا' برطانیہ اور فرانس مل کر شکار پر پہلا حملہ کرتے ہیں۔ پھر دوسرے اُس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ جب شکار گِر جاتا ہے تو ترکی' اٹلی' یونان' جرمنی جیسے ملک اس کے جسم میں دانت گاڑھ دیتے ہیں۔ جب شکار بے جان ہو جاتا ہے توچھوٹے موٹے اتحادی شکار کی ہڈیوں اور انتڑیوں وغیرہ کی تلاش میں آ دھمکتے ہیں۔ افغانستان' عراق اور لیبیا کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ ان تباہ حال ملکوں میں تعمیر نو کے نام پر نیٹو ممالک اور ان کے دوست ممالک کی کمپنیاں اپنی دولت میں دھڑا دھڑ اضافہ کر رہی ہیں۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا2014ء میں افغانستان سے چلا جائے گا' وہ دن میں خواب دیکھنے کے مرض میں مبتلا ہیں۔

امریکا اور نیٹو ممالک افغان نیشنل آرمی کی تشکیل اور تربیت میں مصروف ہیں۔ ان کا ٹارگٹ افغان نیشنل آرمی کو تین لاکھ سپاہیوں کی فورس بنانا ہے۔ 2014ء تک یہ ہدف حاصل ہو جائے گا۔ امریکا اور نیٹو کی جو فوجیں اس وقت افغانستان میں لڑائی میں مصروف ہیں' وہ واپس چلی جائیں گی' ان کی جگہ افغان نیشنل آرمی لے لے گی۔ افغانستان کی چھائونیوں میں اتحادی فوجیں موجود رہیں گی۔ جدید ترین اسلحہ کے ڈپو ان کے کنٹرول میں ہوں گے' ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی موجود رہیں گے' یہ بھی اتحادی فوجوں کے کنٹرول میں ہوں گے' جدید ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سہولت بھی اتحادی فوجوں کے پاس رہے گی۔ افغان آرمی زمین پر ہراول دستے کے طور پر لڑے گی' اسے فضائیہ کی چھتری اتحادی فوج مہیا کرے گی۔ معلومات بھی وہی دے گی اور جہاں ضرورت پڑی اتحادی فوجی بھی ان کی امداد کے لیے اگلے محاذ پر پہنچ سکیں گے۔افغان نیشنل آرمی کا سربراہ جنرل بسم اﷲخان تاجک ہے، افغانستان کی فوجی اور سول بیوروکریسی میں پشتون نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مجھے شبہ ہے کہ سلالہ سانحہ بھی افغان نیشنل آرمی کے افسروں کی غلط معلومات کی بنا پر رونما ہوا۔

یوں دیکھا جائے تو امریکا اور نیٹو ایک طویل المیعاد منصوبے پر کام کر رہے ہیں' ان کا ہدف محض افغانستان نہیں بلکہ وسطی ایشیا سے قازقستان اور منگولیا تک کے وسائل کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت لانا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان نے سات ماہ تک نیٹو سپلائی معطل کر کے بڑے حوصلے اور جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کوئی اور ملک شاید ایک ہفتہ بھی ایسا نہ کر سکتا۔ ایک ملک کے ساتھ لڑا جا سکتا ہے لیکن طاقتوروں کے شکاری گینگ سے پنگا لینا خود کشی کرنے کے مترادف ہے۔ عقل مند وہ ہوتا ہے' جو اپنی حیثیت کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی گزارے' کمی کا بیٹا چوہدریوں کو للکارے گا تو اس کا انجام افغانستان' عراق اور لیبیا جیسا ہو گا۔ خدا ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں