’’راکٹ سائنس‘‘
جہاں تک خلاصہ طلب تحریر کا تعلق ہے تو اُس میں بھی ایک سے ایک نیا سوال قدم قدم پر دامن گیرہوتا ہے
ایک عام سا جملہ ہے ''وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا'' اس وقت اس کی یاد آنے کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ کالم میں میں نے وعدہ کیا تھا کہ کورونا کی پھیلائی ہوئی اس مایوسی کو کم کرنے کے لیے اگلے کالم میں مشاعروں اور ادیبوں کے کچھ لطیفوں کا ذکر ہوگا اور اس کے لیے شاہد حمید صاحب کی مرتب کردہ ایک کتاب سے مدد لی جائے گی مگر کم از کم اس کا لم کی حد تک اس وعدے اور ارادے کو ملتوی کرنا پڑرہا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کل شام برادرم شوکت فہمی سے بات ہوئی تو انھوں نے اپنے بیٹے کو انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھائی جانے والی کتاب کے بارے میں سخت تشویش کا اظہار کیا ۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ انھیں جو اُردو پڑھائی جاتی ہے وہ اغلاط کی کثرت کی وجہ سے اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ہے۔ ان اسکولوں میں پڑھائی جانیوالی کتابیں بھی کسی نہ کسی غیرملکی نصابی سسٹم کا حصہ ہوتی ہیں ۔ یہ گویا ایک طرح کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے جس کا بورڈ آف گورنرز لندن میں بیٹھ کر ساری مقبوضہ نوآبادیوں کو کنٹرول کرتا ہے ۔
میں برادرم شفقت محمود کو حکمران پارٹی میں اب تک موجود اُن چند لوگوں میں شمار کرتا ہوں جن سے دانش، خیر اور تبدیلی کی توقع بجا طور پر کی جاسکتی ہے۔ سنا ہے آج کل وہ اور اُن کی ٹیم مناسب تعلیم کی یکسانیت، معنویت اور درستی پر بہت کام کر رہے ہیں اور اس میں جدید علمی رویوں اور قومی اور تہذیبی امنگوں کو بامعنی ا ور متوازن رکھنے کے لیے ایک جامع پالیسی بھی مرتب کر رہے ہیں ۔ اس ضمن میں اپنے تما م تر ذاتی اور منصبی تکلیف دہ تجربات کے باعث میری تشویش اور پریشانی اپنی جگہ مگر ایک رجائیت پسند اور خیر کا ہم سفر انسان ہونے کے ناتے میں پھر بھی یہی اُمید اور دعا کرتا ہوں کہ ربِ کریم ہم کو صحیح سوچنے اور سمجھنے کی توفیق دے اور ہم اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں۔
تو بات شروع ہوئی تھی شوکت فہمی کے بیٹے آریزکو پڑھائی جانے و الی اُردو کی کتاب سے جو خود اور جس سے ملتی جلتی کوئی کتاب وطنِ عزیز کے لاکھوں بچوں کو اس وقت پڑھائی جارہی ہے اور جس کے ایک ایک صفحے پر زبان و بیان، املا اور پروف کی غلطیوں اور مبہم معلومات کا ایک دریا سا بہہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر زیرِنظرکتاب کے پہلے ہی صفحے پر ایک نظر ڈالیے تو ناطقہ سربگریباں ہونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا اور اس موجودہ صورت میں کسی بچے کو یہ زبان سکھانا یا اس سے رغبت دلانا ایک ایسا پُل صراط ہے جس سے خود سکھانے والا بھی نہیں گزر سکتا کہ بچہ تو وہی دیکھے اور پڑھے گا جو اُس کے سامنے اور اُس کی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
پرانے زمانے کی کتابت اور آج کی ٹائپ کمپوزنگ میں کہیں کہیں کسی غلطی کا در آنا اپنی جگہ پر نامناسب ہونے کے باوجود ایک امرِ واقعہ ہے اور اسے کم یا ٹھیک کرنے کے ساتھ ساتھ بچے کو یہ باور کرانا بھی مشکل نہیں کہ غلطی کیا اور کیسے ہوئی اور اس کا درست اور ورژن کیا ہے لیکن اگر ہر سطر میں کچھ نہ کچھ غلط ہو تو آدمی کیا کرے؟ جہاں تک کمپوزنگ کی غلطیوں کا تعلق ہے تو درسی کتابوں میں ان کی موجودگی اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ لفظ کی جو شکل اور تلفظ کی جو کمی بیشی اس عمر میں راسخ اور مستعمل ہوجائے پھر وہ عام طور پر قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتی اور اگر اس میں الفاظ اور جملوںکی ترتیب اور اُن کے معنی کو غلط ملط کرنے والے مطالب اور معلومات کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس کے نقصانات اندازے کی حد سے بھی باہر نکل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس کتاب کے پہلے صفحے میں موجود پروف کی غلطیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
۱۔ ''بلڈ ''کی جگہ ''بلد ''لکھا گیا ہے۔
۲۔ ''پتّوں'' کی جگہ ''پتو'' درج کیا گیا ہے ۔
۳۔ ''سب ''کی جگہ ''سبب'' نے لے لی ہے ۔
۴۔ ''کے رات'' سے مراد''کی راہ'' ہے۔
۵۔ ''کھیلنے'' کی جگہ ''کھیلتے'' لکھ کر ایک نقطے کے فرق سے محرم کو مجرم بنا دیا ہے۔
۶۔ ''تو وہیں'' کی شکل ''قودتیں'' کر دی گئی ہے ۔
اور تحریر کی پہلی سطر کچھ اس طرح سے ہے ''مشہور کہاوت ہے جلد سونا /اور جلد اٹھنا'' یہاں جلد سونا اور جلد اُٹھنا کے درمیان جو لائن ڈالی گئی ہے اس کا کیا مطلب لیا جائے؟
چھوٹی جماعتوں کی درسی کتابوں میں زبان کی صحت، جملے کی بندش اور لفظوں کے انتخاب میں احتیاط کی زیادہ ضرورت اس لیے ہے کہ بقول سعدی
خشتِ اوّل چُو نہد معمار کج
تا شرّیا می رود دیوار کج
امیدکی جانی چاہیے کہ والدین، اساتذہ، انگریزی میڈیم تعلیمی ادارے اور اُن کے نصاب ساز سب مل کر اس بات کو دیکھنے، سمجھنے اور اس صورتِ حال کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرینگے جس سے ہماری اگلی نسلیں اپنی زبان سے مزید دُور ہونے سے بچ جائیں گی۔
اسی کے تسلسل میں شوکت فہمی نے اپنے بچے کو پڑھائے جانے والے جس آن لائن سبق کی تصویر مجھے بھیجی ہے اُس سے عبرت حاصل کرنا بھی ضروری ہے کہ پورا سبق جس لفظ کے اِرد گرد گھومتا ہے اُس کی املا ہی درست نہیں یعنی یہاں بار بار ''دیگ'' کو ''دیغ'' اور اس کی جمع کو ''دیغیں'' لکھا گیا ہے۔ اب یہ کوئی مقامی لہجہ یا کسی فردِ واحد کا صوتی مسئلہ تو ہوسکتا ہے مگر اسی کو اس شکل میں پڑھنے کے بعد یہ غلطی ہر بچے کی فطرت کا حصہ بھی بن سکتی ہے اس آن لائن سبق کے تعارفی جملے کا اختتام کچھ یوں ہوتاہے ''100 الفاظ کاخلاص لکھیں'' اب خلاصہ کی جگہ خلاص تو کمپوزنگ کی غلطی ہوسکتی ہے مگر ''100الفاظ میں ''خلاصہ '' کی جگہ ''100الفاظ''کا خلاص کون سی زبان ہے؟
جہاں تک خلاصہ طلب تحریر کا تعلق ہے تو اُس میں بھی ایک سے ایک نیا سوال قدم قدم پر دامن گیر ہوتا ہے، مثال کے طور پر یہ جملہ کہ ''دیغ'' اُس برتن کو کہتے ہیں جس میں کھانا پکایا جائے''تو بھائی ہانڈی، ہنڈیا، پریشرککر، دیگچی، فرائنگ پین اور دیگر بہت سے کھانا پکانے والے برتنوں سے کیا کام لیا جاتا ہے؟
درست کہ دیگ کسی خاص تقریب کے حوالے سے دی یا پکائی جاتی ہے مگر یہ خود تقریب کیسے ہوگئی، جملے دیکھئے۔
''تقریب کو بھی کہتے ہیں جو بڑے پیمانے پر کھانا بنانے یا کھلانے کا سبب بنے''
حاجت کی تکمیل کے لیے ''طلبِ حاجت'' کی اصطلاح بھی اپنی جگہ پر غور طلب ہے۔
جملہ ہے کہ ''حافظ قرآن تلاوت کے ساتھ آغاز کرتا ہے''۔ یہاں تلاوت کرنے کے لیے، 'حافظِ قرآن' ہونے کی شرط پر بھی 'سبحان اللہ' ہی کہا جاسکتا ہے۔
اسی طرح اس میں بھر کی جگہ پھر، تھالیوں یا تھیلوں کی جگہ''تھلیوں'' اور اپاہج کو ''اپاہیج'' لکھا گیا ہے جب کہ ان دو جملوں کا ربط بھی غور طلب ہے کہ
''ان علاقوں میں چونکہ چاول زیادہ نہیں پایا جاتا اس لیے عموماً شادی بیاہ پر بنائے جاتے ہیں''
میں نے اس کتاب کے مرتب کا نام جان بوجھ کر نہیں لکھا کیونکہ میرے تجربے کے مطابق بعض اوقات مصنف یا مرتب نے وہ بات اُس طرح سے یا سرے سے لکھی ہی نہیں ہوتی جو مطبوعہ کتاب میں شامل ہوتی ہے۔ اس ساری نکتہ چینی کا مطلب بھی علمیت دکھانے یا زبان دانی کا دعویٰ کرنے سے نہیں، صرف اصلاح اور توجہ سے ہے۔ جس قوم کا بچہ خود اپنی زبان کو صحیح طرح سے بولنے، لکھنے، پڑھنے اور سیکھنے سے قاصر ہو اُس قوم کے مستقبل کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ راکٹ سائنس کی بنیاد بھی ''کامن سینس'' ہی ہوتی ہے ۔