سچی توبہ کورونا
یہ وہی مساجد ہیں جو چند گھنٹوں کے علاوہ صبح و شام کھلی رہتی تھیں نمازیوں کو پکارتی تھیں
شعبان کی پندرہویں شب وہ مبارک، مقدس اور متبرک رات ہے جب مساجد پر چراغاں کیا جاتا ہے، نمازی جوق در جوق مساجد کا رخ کرتے اور رات بھر اللہ کی عبادت کرکے شب بیداری کرتے، خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں دعائیں مانگتے، اپنے لیے، امت مسلمہ کے لیے، گلی گلی، محلے محلے لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر تلاوت کلام پاک، تراجم، احادیث نبویؐ کا ذکر خیر کرتے، کوچہ کوچہ اور قریہ قریہ رحمتوں بھرا سماں ہوتا، ایمان کی حرارت سے دل منور ہوتے۔ محفل میلاد اور درس قرآن کے بعد شیرینی تقسیم کی جاتی چھوٹے بچے اسی انتظار میں سہانی اور نورانی ساعتوں میں شریک رہتے کہ اپنا حصہ لے کر ہی گھر جائیں گے اورکچھ اچھی باتیں، اسلامی سبق ، معاشرے میں رہنے سہنے کے ڈھنگ اسلام کی روشنی میں سیکھتے اور یہ تعلیم و تربیت زندگی گزارنے کے لیے مشعل راہ بن جاتی۔
لیکن افسوس اس بار ایسا نہیں ہوا۔ نہ مساجد کی رونقوں میں اضافہ ہوا اور نہ لوگوں کا امڈتا ہوا قافلہ مسجد کے راستوں پر گامزن دکھائی دیا۔ مساجد عبادت کے لیے بند رہیں، صرف انھیں ہی اجازت ہے جو منتظمین ہیں، بس تین چار لوگوں سے زیادہ نہیں۔
اب حالات یہ ہیں مساجد پر تالے پڑے ہیں، مدارس بند ہیں، درسگاہیں بند ہیں، ریستوران بند ہیں، پارک خالی ہیں، سناٹا ہے، سڑکیں ویران اور بازار کی رونقیں ماند، شادی ہال میں خاموشی ہے، وہ دولہا دلہن باراتی، لوگوں کا شور وغل، قیمتی لباس میں ملبوس لوگ اور انواع و اقسام کے کھانوں کی خوشبوئیں دم توڑ چکی ہیں، شادی سے پہلے کی خوشیوں نے چپ کی ردا اوڑھ لی ہے نہ مایوں اور نہ مہندی کی رسومات، رقص، موسیقی، ڈھول ڈھمکا کچھ بھی نہیں۔
یہ وہ وقت ہے جب جہیز کے مطالبات کرنے والوں نے اپنی زبانوں کو لگام دے دیا ہے اور دلہنوں کو جلانے کے لیے ہاتھ دراز نہیں ہو رہے ہیں کہ وقت کی کمی ہے اپنی جانوں کی پڑی ہے، خوشی ہو، غم یا معمولات زندگی فاصلہ لوگوں کے درمیان کا جو طے ہوا ہے وہ کم ازکم چھ فٹ ہے، دور دور سے بات کرلیں، پابندیاں توڑنے والوں کے لیے سزائیں مقرر ہیں انھیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، کہا کیا جانتے مانتے نہیں، سمجھتے نہیں، حالات کی نزاکت کا نوٹس نہیں لیتے تو پھر مجبوری ہے کہ ان پر ہماری پولیس ڈنڈے برسائے یا موبائل میں بٹھا کر لے جائے۔ یہ ان کی ڈیوٹی ہے۔ کیا کریں بے چارے، وہ بھی تو جان کی بازی لگا کر میدان جنگ میں کود پڑے ہیں۔ جہاں دشمن، وائرس ہے جس سے اپنوں کو بچانا ہے۔
یہ وہی مساجد ہیں جو چند گھنٹوں کے علاوہ صبح و شام کھلی رہتی تھیں نمازیوں کو پکارتی تھیں اذانوں کی صدائیں اب بھی گونجتی ہیں حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح کی صدائیں پانچوں وقت بلند ہوتی ہیں اور اذان کی صدا تا قیامت یوں ہی بلند رہے گی لیکن نمازیوں کو فرصت نہیں تھی، کاروبار زندگی میں مصروف تھے وقت نہیں تھا اور اب وقت ہے تو اللہ نے اپنے گھر کے دروازے بند کرلیے ہیں اللہ ناراض ہو گیا ہے، اللہ تھوڑے سے نمازیوں کے وہ سجدے قبول فرمائے،آج انسان میںحق بندگی اور شکر رحمت کم ہے، منافقت زیادہ ہے، تعمیر مساجد میں دی جانے والی رقوم زیادہ تر منافع کی رقم ہوتی ہے اور سود لینے کا مطلب اللہ سے جنگ ہے تو اللہ نے بھی جنگ کردی ایک چھوٹا سا کیڑا مسلط کردیا اور رقص و سرور کی محفلوں اور مرد و عورت کا آزادانہ میل ملاپ کو ختم کردیا، اللہ کا تو یہی حکم تھا لیکن مانتے جو نہ تھے۔
دولت اور عیش و طرب نے سرکش بنا دیا تھا بغاوت پر آمادہ ہوگئے تھے جو اللہ نے منع کیا وہی کرتے، قوم بنی اسرائیل اور ہم میں تھوڑا سا ہی فرق رہ گیا تھا، عذاب میں بھی تھوڑا سا ہی فرق ہے وہ سب کے سب غرق کردیے گئے، بندر بنا کر نشان عبرت بنا دیا اور ہم پر سپر پاور طاقتیں مسلط ہوگئیں، ہم نے بھائی چارہ اور اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ جو کر دیا تھا، دشمن کو ڈھیل تو ہم نے دی، اپنا اپنا مفاد سمجھ کر خاموش بیٹھے رہے، افغانستان جلتا رہا، عراق دھواں دھوں ہوگیا، شامی در بدر ہوگئے، کشمیریوں کو قید کردیا گیا، میانمار کے اور دوسرے مسلمان اپنے بھائیوں کو آواز دیتے رہے، مدد کے لیے پکارتے رہے کہ مسلمانو! آؤ ہم اکیلے ہیں، کمزور ہیں، بے بس ہیں۔
ہم تمہارے کلمہ گو بھائی ہیں، قرآن نے بھائی کے درجے میں پرویا ہے، مہاجرین و انصار کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، خطبہ حجۃ الوداع بھی اتحاد کا درس دے رہا ہے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اللہ کا یہ حکم بھی نہ مانا۔ جس سرزمین عرب سے بتوں کو پاک کیا، جیل کی تاریکی کو دور کیا، عورت کو عزت دی، مرتبہ دیا اس کی مثال آقا حضرت محمد ﷺ نے اپنے عمل سے پیش کی، اپنی چہیتی بیٹی بی بی فاطمہؓ کو جگر کے ٹکڑے کی طرح عزیز رکھا بے پناہ محبت اور توقیر عطا فرمائی تاکہ امت اسوہ حسنہ اور سیرت پاکؐ پر عمل کرے۔ لیکن امت اسی مقام پر کلب، ریسٹورنٹ بنوا رہی ہے، کنسرٹ اور نائٹ میوزک کا اہتمام کیا گیا، مغربی تمدن کا پرچار کرنے کے لیے عورت کو آزادی بخش دی اور ''مستور'' جس کا مطلب ہی چھپا ہوا یا چھپی ہوئی ہے اسے مکمل آزادی بخش دی وہ غیروں کے سامنے نیم برہنہ لباس پہنے، رقص کرے، ناچے، گائے ایسے اقدامات کو ماڈرن ازم اور وقت کا تقاضا قرار دیا اور قرآن پاک کو خوبصورت جزدانوں میں لپیٹ کر رکھ دیا۔
جس میں تمام سبق موجود ہیں، سائنس، طب، معاشرت، سیاست غرض قیامت تک کے اور ہر زمانے کے علوم موجود ہیں۔ اور پھر جب زندگی عمل سے خالی ہوگئی، والدین کی عزت، بہنوں کی توقیر، عزیز و اقارب کے حقوق، پڑوسیوں کی خبر گیری کا خاتمہ اپنے ہاتھوں کیا تو پھر ایسا ہی ہونا تھا۔ آئیے اپنے روٹھے ہوئے اللہ کو منا لیتے ہیں توبہ کرلیتے ہیں۔ وہ غفور الرحیم ہے بخش دے گا، معاف کردے گا ہماری غلطیوں کو اور یہ جرثومہ جو ہزاروں کی ہلاکت کا باعث بنا، واپس چلا جائے گا اس کے ''کُن'' کہنے کی دیر ہے۔ بس اجتماعی اور انفرادی سچی توبہ کی ضرورت ہے ورنہ تو ''جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا'' والا معاملہ درپیش آجائے گا اور بچنے والے بھی اس وبائی امراض کی لپیٹ میں آجائیں، اور پھر پلاسٹک کی تھیلیوں میں ڈال کر آخری دیدار کا موقع گنوا کر بغیر تجہیز و تکفین کے گڑھے میں دھکیل دیا جائے ، ڈریں اس وقت سے۔ جب کورونا وائرس بے شمار لوگوں کی جانیں نگل لے اور تاریخ کے صفحات میں انسانوں کی نافرمانیاں اور گناہ درج ہوجائیں اور ہم بھی نشان عبرت بن جائیں ۔۔۔۔کہیں استغفراللہ!