کرپشن کورونا اورعوام

خوش قسمتی سے ملک میں کورونا سے یورپ اور امریکا جیسے حالات پیدا نہیں ہوئے۔


عثمان دموہی April 12, 2020
[email protected]

آٹا چینی کے مصنوعی بحران کے بارے میں سنسنی خیز انکوائری رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد تہلکہ مچا دیا ہے کہ مصنوعی بحران کی ذمے دار خود حکومتی شخصیات ہیں۔ اس چشم کشا رپورٹ کے مطابق مصنوعی بحران پیدا کرکے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے جہانگیر ترین ہیں جب کہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر خسرو بختیار اور مونس الٰہی ہیں۔ حالانکہ اس مصنوعی بحران کی بہتی گنگا سے سیراب ہونے والے کچھ اپوزیشن لیڈرز بھی ہیں مگر وہ اپنے گریبان میں کم اور حکومتی گریبان میں زیادہ جھانک رہے ہیں۔ دراصل عوام ''کرپشن سے پاک پاکستان'' کے نعرے پر ہی پی ٹی آئی کو اقتدار میں لائے تھے مگر ملک تو اب بھی کرپشن میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے ذمے دار خود تحریک انصاف کے رہنما ہیں۔

جہاں تک کورونا وائرس کا تعلق ہے حکومت اس سے نمٹنے کے لیے کوششیں تو بہت کر رہی ہے مگر اس وبا سے لڑنے میں مصروف ہر اول دستے یعنی ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر میڈیکل اسٹاف کی حفاظت کا اسے کوئی خیال نہیں ہے۔ اب تک کئی ڈاکٹر اور نرسیں اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اس کوتاہی میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں دونوں ہی شامل ہیں جس سے ہمارے مسیحاؤں میں بد دلی پھیل رہی ہیں۔

حکومت سندھ کی کورونا سے بچاؤ کے لیے کیے جانے والے احتیاطی اقدامات کی ہر طرف سے تعریفیں کی جا رہی ہیں مگر دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ سندھ کے ڈاکٹروں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے کورونا کے خلاف حکومتی انتظامات پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے ان تنظیموں کا ایک آن لائن اجلاس ہوا ہے جس میں ڈاکٹر اور میڈیکل اسٹاف کے مسائل اور مشکلات کا جائزہ لیا گیا ہے اور انھیں حفاظتی سامان مہیا نہ کیے جانے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ حفاظتی کٹس کے بغیر وہ اپنے فرائض انجام نہیں دے سکیں گے۔ سندھ حکومت ابھی تک ان کی شکایتوں کو دور نہیں کرسکی ہے۔

جہاں تک ڈاکٹروں کی حفاظت کا معاملہ ہے وہ سندھ سمیت تمام ہی صوبوں میں بے حسی کا شکار ہے۔ تمام ہی صوبوں میں بغیر حفاظتی کٹس کے اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے کئی ڈاکٹر اور نرسیں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ کراچی کے ایک علاقے میں گیارہ افراد پر مشتمل ایک خاندان کورونا کا شکار ہو گیا ہے۔ ان افراد میں ایک لیڈی ڈاکٹر بھی شامل ہے جو اسپتال میں خدمات انجام دے رہی تھیں۔ ظاہر ہے کہ پہلے اس خاندان کی ڈاکٹر خاتون کو اسپتال میں اپنی خدمات کی انجام دہی کے دوران کسی کورونا کے مریض سے یہ وائرس لگا ہوگا اور پھر اس خاتون سے گھر کے دوسرے افراد میں منتقل ہوا ہوگا۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کورونا کے بچاؤ کے سلسلے میں باتیں تو بہت کی جا رہی ہیں مگر وہ اپنے اصل فرائض سے غافل نظر آتی ہے۔

کورونا وائرس کے سلسلے میں وفاقی وزارت صحت نے سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 25 اپریل تک ملک میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد پچاس ہزار تک ہوجائے گی جن میں 7024 کیس سنگین نوعیت کے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کیسوں کی یہ تعداد کس حساب سے بتائی گئی ہے۔ گزشتہ آٹھ اپریل تک پورے ملک میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد چار ہزار تھی تو یہ تعداد صرف سولہ دن میں اچانک بڑھ کر پچاس ہزار کیسے ہوجائے گی۔

اس وقت ملک میں فی دن کورونا کے نئے مریضوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چھ سو ہے تو اگلے 16 دن میں یہ زیادہ سے زیادہ دس ہزار ہوسکتی ہے نہ کہ پچاس ہزار۔ اس قسم کے اعداد و شمار پیش کرنے سے دراصل عوام میں خوف و ہراس کی فضا پروان چڑھ رہی ہے جس سے عوام کی صحت پر بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ستارہ امتیاز حاصل کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر ایم ایچ مبشر کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے سبب لوگوں میں کورونا فوبیا پھیل رہا ہے یہ نئی بیماری ہے جو کورونا کی دہشت کی وجہ سے جڑ پکڑ رہی ہے۔ اس نے لوگوں کی راتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ ایک دوسرے پر شک کرنے سے لوگوں میں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔

تنہائی اور خوف کی وجہ سے لوگوں کی قوت مدافعت میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ پمز اسپتال اسلام آباد کے شعبہ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر رضوان تاج کا کہنا ہے کہ عوام اس وقت بذریعہ فون بھی ایک دوسرے سے گفتگوکرنے سے احتراز کر رہے ہیں جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ آپس میں بات چیت کریں تاکہ اپنے دکھ بانٹ سکیں یا تنہائی کے کرب کو دور کرسکیں۔ ان کے مطابق ہر شخص کی قوت برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ کورونا وائرس نے نہ صرف لوگوں کا سکون برباد کردیا ہے بلکہ انھیں ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ گھر میں بند رہنے سے ان پر جھنجھلاہٹ، چڑچڑا پن اور بے زاری طاری ہو رہی ہے ساتھ ہی غصہ غالب آ رہا ہے جس سے عام لوگوں کی خانگی زندگی اور باہمی تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔ بعض لوگ ایسی صورت حال میں اپنے خاندانوں کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوگئے ہیں۔ غصے کے عنصر کے بھرنے کی وجہ سے اکثر گھروں میں تنازعات شروع ہوگئے ہیں۔

میاں بیوی میں بات توتو میں میں سے آگے بڑھ گئی ہے۔ بعض لوگوں کو اپنے بچوں پر بھی تشدد کرتے دیکھا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوشل ڈسٹینسنگ (Distancing) دراصل مغرب کی ٹرم ہے پاکستان میں یہ ہوگی تو نئے مسائل جنم لیں گے چنانچہ ہمیں مغربی اسٹائل کی اندھی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ ڈسٹینسنگ یعنی فاصلہ رکھنے کا یہ بھی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ لوگوں کے آپس کے رابطے بھی ختم ہو جائیں اور جب رابطے ختم ہوں گے تو پھر ڈپریشن بڑھے گا اور برداشت کی عادت بھی ختم ہوگی۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اب کورونا سے عوام کو ڈرانا بند کرنا چاہیے البتہ وہ احتیاط کی تلقین ضرور کریں۔ اب چین میں اس بیماری کے خاتمے کے بعد یہ امید ہوچلی ہے کہ جنوبی ایشیا میں درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ کورونا ختم ہوجائے گا اور لوگ تنہائی کے وبال سے باہر آسکیں گے۔ تاہم اس وبا کے ختم ہونے کے بعد بھی لگتا ہے برسوں تک اس کے اثرات لوگوں کے اذہان پر موجود رہیں گے جس کی وجہ سے شاید ماحول میں پہلے جیسی خوشگواری قائم نہ رہ سکے۔

خوش قسمتی سے ملک میں کورونا سے یورپ اور امریکا جیسے حالات پیدا نہیں ہوئے۔ یہاں بہت کم لوگ اس کا شکار ہوئے اور وہ بھی شاید شکار نہ ہوتے اگر ملک میں باہر سے آنے والوں کو سرحد اور ایئرپورٹس پر ہی روک کر چیک کرلیا جاتا اور متاثرین کو قرنطینہ سینٹر بھیج دیا جاتا ۔ پی ایس پی فاؤنڈیشن کی امدادی سامان کی تقسیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے درست ہی کہا ہے کہ حکومتی غفلت کی وجہ سے ہی کورونا کو ملک میں پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے۔

حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ 14 اپریل کو کورونا کی صورت حال کا جائزہ لینے والی ہے قوی امید ہے کہ جب تک حالات بہت بہتر ہوچکے ہوں گے،چنانچہ کاروبار کو مکمل نہیں تو کم سے کم جزوی طور پر ضرور کھول دینا چاہیے۔ ساتھ ہی عوام کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت دے دینی چاہیے تاکہ معاشی جمود ختم ہونے کے ساتھ عوام کی گھٹن بھی دور ہوسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں