کیا سرکاری آٹا خراب ہے

چند دن قبل پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہر میں آٹے کی کوئی قلت نہیں


اگر آٹے کی قلت نہیں تو لوگ اتنا پریشان کیوں ہیں؟ (فوٹو: فائل)

کیا سرکاری آٹا خراب ہے؟ یہ سوال میرے ذہن میں اس وقت آیا جب گزشتہ دنوں حاجی صاحب نے مجھے بتایا کہ ہم نے آٹے کا ایک ٹرک دو سے تین روپے فی تھیلا نفع لے کر تین گھنٹے میں فروخت کردیا۔ عام دنوں میں ایک ٹرک ہم 15 دنوں میں فروخت کرتے ہیں، لیکن اب ہم نے یہ صرف تین گھنٹے میں فروخت کردیا۔ حاجی صاحب سے گفتگو کے بعد میں سوچ میں پڑگیا کہ کیا سرکاری آٹا ناقص ہے؟ کیونکہ چند دن قبل پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہر میں آٹے کی کوئی قلت نہیں، آٹا وافر مقدار میں موجود ہے۔

اس سے پہلے کہ میں سرکاری اور غیر سرکاری آٹے کی روٹی پکا کر جانچ کرتا، میں نے یہ سوال حاجی صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ وہ مسکرا کر بولے ''بیٹا جی ایسی بات نہیں ہے، سرکاری آٹا بھی اچھی کوالٹی کا ہے''۔

''تو پھر لوگ آپ کے پاس کیوں آتے ہیں؟''

''دراصل لوگ خوف میں مبتلا ہیں کہ پتہ نہیں آنے والے دنوں میں کیا ہوجائے۔ اس لیے ہر بندہ آٹا جمع کررہا ہے۔ یہ لوگ کورونا سے تو بچ جائیں گے لیکن آٹے کے نیچے دب کر مر جانا چاہتے ہیں۔''

یہ صرف ایک شہر کی صورتحال نہیں۔ ہم من حیث القوم اس صورتحال کا شکار ہیں۔ ہم اپنے کل کے خوف میں نہ صرف اپنا آج قربان کررہے ہیں بلکہ حکومت اور اپنے جیسے لوگوں کےلیے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔

غور طلب امر یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اس کی دو وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک ہمیں قرآن پاک پر یقین نہیں ہے اور دوسرا حکومت پر۔ جی ہاں ہم قرآن پاک کو مانتے تو ہیں مگر یقین نہیں کرتے۔ کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(مفہوم:) زمین پر جتنے جاندار چلتے ہیں ان کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔

اگر ہم قرآن پاک کو ماننے کے ساتھ اس پر یقین اور عمل بھی کرلیں تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں ہی اچھی ہوجائیں۔ دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں حکومت وقت پر یقین نہیں ہے۔ اگر ہمیں حکومت پر یقین ہو تو ایسی صورتحال کبھی نہ ہو۔ اگر ہمیں حکومت پر یقین ہو تو کبھی بھی لاک ڈاؤن ناکام نہ ہو۔ اگر ہمیں یہ یقین ہوکہ ہم نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی تو ہمارے خلاف قانون پوری قوت سے حرکت میں آئے گا، تو پھر ہم قانون کی خلاف ورزی، ذخیرہ اندوزی کا تصور بھی نہ کریں۔

اور آخر میں متحدہ عرب امارات میں لاک ڈاؤن کی ایک جھلک آپ کی نذر، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگ حکومت پر کتنا بھروسہ کرتے ہیں اور ریاست اپنے شہریوں کا کس طرح خیال کررہی ہے۔

متحدہ عرب امارات میں گزشتہ ماہ جیسے ہی لاک ڈاؤن کی خبریں آئیں تو اس سے پہلے کہ عوام رزق کی فکر میں مبتلا ہوتے، بڑے بڑے فوڈ اسٹورز کی طرف سے پیغامات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا کہ ہم بدستور کھلے رہیں گے اور ہمارے پاس اشیائے ضروریہ کا ذخیرہ بھی وافر موجود ہے، اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دو ہفتے سے زائد ہوچکے ہیں لیکن ریاست میں امن و امان ہے۔ عوام مارکیٹوں میں معمول کے مطابق بغیر کسی افراتفری کے ماسک، گلوز وغیرہ کے ساتھ اشیائے ضروریہ خرید رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے ہم سب بھی اللہ رب العزت پر بھروسہ کرتے ہوئے ''گھر میں رکیے'' کو کامیاب بنائیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ عوام پر اپنا اعتماد، میڈیا، سوشل میڈیا کے بجائے عملی طور پر ثابت کرے۔ بصورت دیگر جو ہوگا وہ کسی سے نہیں دیکھا جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں