پنجاب میں حکومتی پالیسی میں ابہام کے باعث آٹے کی قلت دوبارہ پیدا ہونے کا خدشہ

ضلعی افسروں نے مارکیٹ میں آٹے کی دستیابی کو نظر انداز کر کے تمام تر توجہ گندم خریداری اہداف پر مرکوز کردی


رضوان آصف April 14, 2020
محکمہ خوراک کے خریداری عملے کا باردانہ اجراءکی پالیسی پر تحفظات کا اظہار فوٹو: فائل

KARACHI: حکومتی پالیسی میں ابہام اور ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے فلورملز کی خریداری پر پابندی کے باعث پنجاب میں ایک بار پھر آٹے کی قلت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق صوبائی محکموں اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان ہم آہنگی کی کمی ، جنوبی پنجاب کے اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے فلورملز کی گندم خریداری پر پابندی اور حکومتی پالیسی میں ابہام کی وجہ سے لاہور،گوجرانوالہ، فیصل آباد اور راولپنڈی میں دوبارہ آٹے کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ سر اٹھانے لگا ہے۔

ایف آئی اے کی گندم آٹا بحران رپورٹ میں گزشتہ برس گندم خریداری کے حوالے سے صوبائی حکومتوں اور محکموں سمیت بعض سینئر افسروں پر ذمہ داری عائد کیئے جانے کے بعد سرکاری حکام بالخصوص ڈپٹی کمشنرز نے تمام تر توجہ گندم خریداری ہدف کی تکمیل پر مرکوز کردی ہے اور اس اہم ترین ضرورت کو نظر انداز کردیا ہے کہ فلورملز بالخصوص سنٹرل پنجاب اور راولپنڈی ڈویژن جہاں گندم کی پیداوار کم ہوتی ہے اور تاخیر سے فصل آتی ہے وہاں کی ملز کو روزانہ آٹا پسائی کے لئے اوپن مارکیٹ سے گندم درکار ہے۔ اس وقت گندم کی فصل جنوبی پنجاب میں تیار ہوئی ہے اور فروخت کی جا رہی ہے لیکن ان اضلاع کی انتظامیہ نے فلورملز کی گندم خریداری پر مکمل پابندی عائد کررکھی ہے،اس حوالے سے وسطی پنجاب کے فوڈ حکام شدید پریشانی کا شکار ہیں کہ آئندہ چند روز میں رمضان المبارک کی تیاریاں شروع ہوتے ہی آٹا کی طلب بڑھ جائے گی بالخصوص راشن تقسیم میں اضافہ ہوگا، ایسے میں گندم کی کمی ہونے سے آٹا بحران دوبارہ پیدا ہو سکتا ہے۔

مزید برآں اس وقت محکمہ خوراک نے باردانہ تقسیم کا شیڈول 30 دن کیلئے بنایا ہوا ہے جس میں پہلے 15 دنمیں60 فیصد جبکہ اگلے 15 دن میں 40 فیصد باردانہ تقسیم ہونا ہے ،فیلڈ سٹاف کے مطابق اس پالیسی سے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اعلی حکام کو یہ شیڈول 20 دن کا بنانا چاہئے تا کہ کسانوں میں جلد از جلد باردانہ تقسیم ہوجائے کیونکہ گرداوری کی شرط ختم کر کے پہلے آو پہلے پاو کی پالیسی لاگو کرنے کا فائدہ بھی اسی صورت ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔