چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر…
ابھی ابھی ہم نے سنا ہے کہ حاضر اسٹاک میں بھی بہت سارے وزیر وغیرہ ایسے ہیں جو اپنی کوئی نہ کوئی رگ پھڑکاتے رہتے ہیں۔
کسی بھی پیشہ ور جیسے اداکار، فنکار،لوہار ،سنار وغیرہ کا سیاست میں جانا اورلیڈر بننا منع تو نہیں ہے اوراس قسم کے بہت سارے لوگ سیاست میں آتے جاتے بھی رہتے ہیں لیکن یہ بات بھی پتھر کی لکیر ہے کہ اگر کسی میں ہزار عیب یاخوبیاں ہوں تو کچھ نہ کچھ یعنی دوچار خوبیاں یا خرابیاں وراثتی بھی ہوتی ہیں، جو کبھی محو نہیں ہوتیں اورایک نہ ایک دن ابھر آتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کو ایک بھکاری لڑکی پسند آگئی اوراسے اپنا ملکہ بنالیا، کچھ دنوں بعد بادشاہ کو احساس ہوا کہ ملکہ صاحبہ سب کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتی، اگر دکھاؤے کے لیے بیٹھ بھی جاتی تو محض چکھ چھکا کر اٹھ جاتی،بادشاہ نے سراغ لگانے کی کوشش کی تو اس نے دیکھا کہ ملکہ اپنے کمرہ خاص میں دروازہ بند کرکے اوریہاں وہاں کھانے کی چیزیں رکھ کر بھکارن کاروپ دھارتی اورہرپلیٹ یابرتن کے پاس جاکر بولتی ،خدا کے لیے کچھ دے دو،تیرے بچے سلامت ہوں،بھکارن کو کچھ دے دو،اورپھر وہ سارا مال ومتاع جمع کرکے کھانے کو بیٹھ جاتی۔
پڑوسی ملک کاایک لطیفہ ہے کہ کسی نے ایک کریانے کے جدی پشتی دکان دار سے پوچھا کہ اگر تمہیں بے انتہا دولت مل جائے تو اس کاکیاکروگے ؟ بولا، ایک بہت بڑا مندربنائوں گا اورپھر اس مندر کے سامنے بڑی سی کریانے کی دکان کھول لوں گا۔ایک اورکہانی، ایک جنونی نوجوان کی ہے جو محلے کی گلی میں کرکٹ کھیلتا اورگیند مارکرگھروں کے شیشے توڑتا تھا، لوگوں کی شکایت کی تو والدین نے اسے گھر میں قید کرکے اس کا نفسیاتی علاج شروع کرادیا ،کافی عرصہ بعد ڈاکٹروں نے اوکے کردیا۔
ڈاکٹر وداع ہوکرجب جانے لگا تو اس نے نوجوان سے پوچھا، اب تم باہرنکل کر کیا کروگے ؟ وہ بولا ، محنت کرکے خوب پیسے کمائوں گا، پھر شادی کروں گا اوربچے پیدا کروں گا، جب پوری ٹیم بن جائے گی تو انھیں گلیوں میں کرکٹ گیند پکڑا کرکھڑکیوں کے شیشے توڑنے پر لگائوں گا۔
خلاصہ ان ساری باتوں کایہ ہے کہ پکی پکی عادت چھوٹتی ہرگز نہیں ہے ،تھوڑی سی دب جاتی ہے اورموقع ملتے ہی ابھر آتی ہے ،آپ اپنے اردگرد دیکھیں، یہی کچھ دکھائی دے گا۔ گزشتہ زمانوں میں ایوب خان کی بنیادی جمہوریت سے ایک لیڈر ابھراتھا،نام چھوڑئیے، کام اس کابہت مشہورہے، چلیں میاں صاحب کہہ لیتے ہیں۔ ہمارے صوبے میں ان میائوں کے بارے میں ایک عام کہاوت ہے کہ جب وہ کسی کے ہاں جاتے تب بھی کچھ ''لے کر'' آتے ہیں اور اگرکوئی ان کے ہاں آتاہے تب بھی کچھ لے کر آتا ہے۔اپنے اورپرائے دونوں گھروں میں ''مہمان'' ہوتے ہیں۔
کہتے ہیں ایک دن ایک میاں صاحب کسی ارادتمند کے پاس گئے تو اس کے گھر میں کچھ نہ تھا ،میاں صاحب نے کہا کہ کچھ نہیں توغلہ ،گڑ یاآٹا ہی دیدو،اس شخص کے پاس ان میں بھی کچھ نہ تھا ،جانوروں اوربھیڑ بکریوں میں سے کچھ نہ تھا تو میاں صاحب نے پوچھا کوئی مرغا مرغی چوزہ تو ہوگا ،اس شخص نے بتایاکہ ایک ہی مرغی تھی وہ صبح مرگئی، میاںصاحب نے کہا کہ کہاں ہے وہ مرغی؟ وہ شخص بولا ،کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی ہے، میاں صاحب نے کہا دوڑ کرجائو اوروہ مری ہوئی مرغی لے آئو، وہ مری ہوئی مرغی لایا ،میاں صاحب مری ہوئی مرغی لے کرجانے لگے تو اس شخص نے پوچھا کہ مری ہوئی مرغی کاکیاکرو گے آپ؟
اس میاں صاحب کے پاس بھی جائیدادوں، جاگیروں اوردولت کی فراوانی تھی لیکن اسے سیاست کاشوق چرایا،ان کے بارے میں مشہورتھا کہ جب اس کے پاس دوردراز، بنوں، ڈی آئی خان ،کوہاٹ، دیر، سوات اوچترال کے لوگ کسی ضرورت کے تحت آتے تھے تو کام کے بارے میں توجوجھوٹ سچ ہوتاتھا وہ ختم ہوجاتاتو میاں صاحب ان کا اس دوران گہرا ''میانگانہ'' جائزہ لے چکے ہوتے،کسی کے پاس اچھی چادر،ٹوپی یا کوٹ واسکٹ ہوتی تھی تو اتروالیتے تھے۔
جب وہ جانے لگتے تو کھانے کاپوچھتے، کھانا کہاں کھائوگے وہ ہوٹل بتادیتے تو میاں صاحب اپناآدمی ساتھ کرکے کہتے کہ میرے لیے بھی کھانا پیک کرکے بھجوادو،اس ہوٹل کی فلاں چیز بڑی مشہورہے، اس کے علاوہ ایک اورطریقہ واردات ان کا یہ تھا کہ اچھا اچھا آپ ڈی آئی خان کے ہیں جہاں کا حلوہ مشہور ہے، میرے لیے نہیں لائے ۔۔۔ اگروہ نہیں لایاہوتا تو کہتے واپس جاتے ہی بجھوادینا چارپانچ سیر، ارے آپ مردان سے آئے ہیں ،وہاں کے تو بدایونی پیڑے بڑے فیمس ہیں جاکر چار پانچ ڈبے ضرور بھجوانا۔۔ سوات ،دیر ، چترال کا تو بہت کچھ مشہور تھا،اس لیے ان علاقوں کے لوگوں کو بھی کچھ نہ کچھ سعادت ضروربخش دیتے جہاں کاکچھ مشہور نہ بھی ہوتا، میاںصاحب وہاں کابھی کچھ نہ کچھ'' مشہور'' کر دیتے ،چپل ،کپڑا، کمبل اورنہ جانے کیاکیا؟
ابھی ابھی ہم نے سنا ہے کہ حاضر اسٹاک میں بھی بہت سارے وزیر وغیرہ ایسے ہیں جو اپنی کوئی نہ کوئی رگ پھڑکاتے رہتے ہیں ،ایک دوکا تو ہمیں خاص طورپر پتہ ہے ،ان میں سے ایک کی عادت کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں۔ بچپن ہی سے جھوٹا وعدہ کرنا، پھر بھول جانا اور اندازدکھانا اس کے اندر راسخ ہوچکاہے اور ساتھ ضد کرنا، دھول دھپا کرنا ،برابھلا کہنا بھی اس میں کوٹ کوٹ کربھرا ہواہے۔
یہ توخیر ہم نہیں بتائیں گے کہ باتوں کے کاروبار سے متعلق لوگ کیا کیاکرتے ہوں گے اوریہ بھی بالکل نہیں بتائیں گے کہ ہیراپھیری کرنے والے کیاکیا کرتے تھے اور''موسمی تبدیلی'' کے بارے میں تو ہرگزہرگز نہیںبتائیں گے کہ ...
یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیاہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
باقی آپ سمجھدار ہیں، نشانیاں ہم نے بتادی ہیں، ان ہی نشانیوں کو لے کر آپ کسی کے بھی اوصاف اور عادات کا پتہ کرسکتے ہیں،اسے تحقیق کی زبان میں کہتے ہیں ''معلوم'' کے ذریعے ''نامعلوم'' کاپتہ لگانا ۔