قبرص کے معاملے پر اقوام متحدہ نے ترکی کا موقف تسلیم نہیں کیا

صدیوں تک مسلم سلطنت کاحصہ رہنے کے باوجود مغربی ممالک کی ایماپراقوام متحدہ کے ذریعے قبرص کاالحاق یونان کے ساتھ کردیاگیا


صدیوں تک مسلم سلطنت کا حصہ رہنے کے باوجود مغربی ممالک کی ایما پر اقوام متحدہ کے ذریعے قبرص کا الحاق یونان کے ساتھ کردیا گیا۔ فوٹو: فائل

( قسط نمبر10)

2020 ء کے آغاز ہی پر ترک سربراہ طیب اردگان سرکاری دورے پر پاکستان تشریف لائے تو ترک عوام کی جانب سے پاکستان کے عوام سے ثقافتی اسلامی اور تاریخی رشتوں کا ذکر بہت جذباتی انداز میں کیا اور اس کا خصوصی ذکر کیا کہ پہلی جنگ ِعظیم کے دوران برصغیر کے مسلمانوں نے جس طرح ترکوں کی مدد کی تھی اُس وقت ہند وستان کی مسلمان لڑکیوں نے اپنے جہیز کے زیوارات تک ترکوں کے امدادی فنڈز میں دے دیئے تھے۔

اِ س موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے ہند وستان پر ترکوں اور مغلوں کی حکومتوں کے اعتبار سے پاکستان اور ترکی کے عوام کے نسلی ثقافتی تعلقات کا ذکر کرکے طیب اردگان کے محبت آمیز جذبات کا جواب دیا تھا۔ مگر اس کے فوراً بعد عمران خان پر خاصی تنقید ہوئی کہ انہوں نے بہت غلط انداز سے یہ تاریخی حوالے دئیے جن کی یہاں کو ئی ضرورت نہیں تھی۔

میرا خیال یہ ہے کہ عمران خان نے درست حوالے دئیے تھے البتہ اس کی پوری وضاحت نہیںہو سکی۔ اِس وقت سنٹرل ایشیا کے ممالک ازبکستان ،کرغیزستان ، قازقستان،ترکمنستان ،آذربائجان، تاجکستان وغیر ہ ہیں یہتمام علاقے پہلے روسی ترکستان کہلاتے تھے اور ان کے ساتھ ہی سینکیانگ کا چینی علاقہ جو کاشغر تک پھیلا ہوا ہے، یہ چینی ترکستان کہلاتا تھا۔ ترکستان خصوصاً سنٹرل ایشیا اور منگولیہ کے لوگ جو ترک اور منگول نسل کے تھے یہ بہت بہادر اور شروع کے دور میںقدرے وحشی تھے اور قبائلی زندگی گذارتے تھے۔

اِ ن کی مشہور اور بڑ ی قومیں تاتاری ،منگول ، مغل ،کہلائیں جو بعد میں چنگیزخان کی نسبت سے چنگیزی اور تیمورکی نسبت تیموری اور اس کے علاوہ چغتائی برلاس اور دیگر قوموں یا قومیتو ں میں تقسیم ہوئیں۔ جہاں تک تعلق اس وقت کے ترکی اور سنٹرل ایشیا کا ہے تو تقریباً ڈھائی تین ہزار سال قبل ترکی کے یہ باشند ے بھی یہاں سنٹرل ایشیا یعنی ترکستان میں رہتے تھے۔ اُس زمانے یہاں ایک ہولناک قحط آیا تو یہ ترک بہت بڑے لشکر کی صورت میں اس علاقے سے ہجرت کی غرض سے نکلے اور افغانستان اور ہند وستان کا رخ کیا۔ ابھی وہ اس جانب راستے میں تھے کہ تاتاری قبائل جو اسی قحط کا شکار تھے اُن کو اِن ترکوں کی ہجرت کی خبر ہو گئی اور اُنہوں نے یہ پلان بنا یا کہ ترکوں کے اس لشکر پر راستے میں اچانک حملہ آور ہو کر اِن سے سب کچھ لوٹ لیا جائے۔

تاتاریوں کے اس منصوبے کی اطلاع خفیہ طور پر اِن ترکوں کو مل گئی تو اُنہوں نے اپنا راستہ بدل لیا اور طویل چکر کاٹ کر آج کے ترکی کے علاقے میں پہنچ گئے اور یہاں کے مقامی لو گوں پر غلبہ حاصل کر کے یہاں قابض ہو گئے۔ یوں یہ اسی سنٹرل ایشیا کے علاقے ترک ہیں اور اِن ہی قبائل کے وہ لوگ جو یہاں سنٹرل ایشیا ہی میں رہ گئے تھے وہ بعد میں ترک اور مغلوں کی صورت میں صرف ہند وستان ہی نہیں دنیا کے بہت سے علاقوں میں فتوحات کرتے ہو ئے پھیل گئے۔

منگولیہ اور ترکستان سے پہلی عالمی سطح کی شخصیت تمو چین یعنی چنگیزخان تھی جس نے قبائل کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور پھر سنٹر ل ایشیا اور چین سمیت بہت سے علاقے فتح کئے چنگیز ڈیلونبوڈاک منگولیہ کے علاقے میں 1162 میں پیدا ہوا اور 18 اگست 1227 میں ین چوہان چین میں وفات پا ئی مگر فنیٹی منگولیہ یعنی اپنے آبائی وطن میں دفن ہوا۔ اس کے پو توں میں کبلائی خان نے چین اور دیگر علاقوں میں فتوحات کیں دوسرا پوتا ہلاکوخان تھا جس نے بغد اد سمیت مشرق ِوسطٰی اور دیگر علاقوں کو تاراج کیا اور مسلمانوں کے علم وتحقیق کے مراکز اور کتب خانوں تباہ کردیا۔ ان کے بارے میں یہ ہے کہ یہ سورج کو پوجتے تھے مگر اِن کے ہاں باقاعدہ عبادات اور اپنے مذہب کی تبلیغ کا کوئی رحجان نہیں تھا۔

پھر اسی علاقے یعنی ترکستان میں اس کی نسل میں لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور پھر اِن ہی میں سے چنگیزخان کی وفات کے تقربیاً سو سال بعد امیر تیمور جسے لنگڑا ہونے کے وجہ سے تیمور لنگ بھی کہتے ہیں۔ 9 اپریل 1336 میں شاہرزاباز ازبکستان میں میں پیدا ہو اجس کا نام شجاع الدین تیمور رکھا گیا۔ تیمو ر کی وفات 18 فروری 1405 میںوئرار قازقستان میں ہو ئی لیکن اِسے سمر قند ازبکستان میں دفن کیا گیا۔ چنگیرخان اور ہلاکو خان کی وجہ سے جتنا نقصان اُس وقت مسلمانوں کو پہنچا تھا اس کے مقابلے میں تیمور اور پھر اُس کی آنیدہ نسل نے فتوحات کیں تو اسلام مزید پھیلا اقبال نے اسی مفہو م کو شعر میں یوں بیان کیا۔

ہے عیاں شورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں ملے گئے کعبے کو صنم خا نے سے

مغلوں، تاتاریوں اور ترکوں میں شروع میں بادشاہت میں وراثت کا قانون بہتر نہیں تھا، یعنی بادشاہ کے مرنے کے بعد اُ سکی سلطنت اُس کے بیٹوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی بابر جو باپ کی طرف سے تیمور کی نسل سے اور ماں کی جانب سے چنگیزخان کی نسل سے تھا جب اُن کے والد عمر شیخ مرزا فوت ہوئے تو وہ بارہ سال کی عمر میں ازبکستان میں فرغانہ کی چھوٹی سی ریاست کا مالک بنا مگر اس کے چچا اور رشتہ داروں نے فرغانہ پر حملہ کر دیا اور اُسے یہاں سے جان بچا کر بھا گنا پڑا۔

بعد میں بابر نے اپنے قبیلے کے لو گوں کو جمع کر کے کابل پر قبضہ کرلیا اور پھر یہاں سے 1526 میں ہند وستان پر حملہ آور ہو کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد یوں ڈالی کہ وراثت کے مغلیہ قانون کو ترک کر کے ہمایوں کو ولی عہد اور جانشین مقرر کیا جس پر بابر کی موت کے بعد بھائیوں میں لڑائی ہوئی اور اس کے بعد شاہجہان کے دور میں بھی یہی ہوا اور اس کے بیٹوں میں جنگِ تخت نشنی ہو ئی جس میں اورنگ زیب عالمگیرنے کامیابی حاصل کی اپنے بھائیوں کو قتل اور باپ کو قید کیا اور پھر اورنگ زیب عالمگیر جب 1707 فوت ہو اتو ہند ستان کی مغلیہ سلطنت اُس کے تین بیٹوں میں تقسیم ہوگئی۔

اب جہاں تک تعلق ترکی کا ہے تو سنٹرل ایشیا کے ترکستان سے ترک قبل از مسیح وہا ں منتقل ہو ئے تھے اور پھر جب یہاں سلطنت عثمانیہ مضبو ط ہو ئی تو جس طرح ہند وستان میں 1857 سے پہلے تک افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے ترک ، مغل اور افغان ہند وستان منتقل ہو تے رہے۔

یہی صورت سنٹرل ایشیا کے ترکستان کے اعتبار سے یہاں کے ترکوں کی رہی جو ترکی منتقل ہو تے رہے تعریف کی بات یہ ہے کہ 1980-81 میں جب سابق سویت یو نین کی فوجیں افغانستان میں آئیں تو افغان مہاجرین میں افغانستان میں آباد ،ازبک ،تاجک ،ترکمن بھی پاکستان آئے اور بعد کے دنوں میں بنیاد ی طور پراِن ترک اور مغل قومیتوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے ترکی میں بھی سکونت اختیار کی جن میں سے بہت سے وہاں شادی بیاہ کر کے مستقل طور پر اب ترکی کی شہریت اختیار کر چکے ہیں۔ یوں سنٹرل ایشیا افغانستان اور پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں سے ترکی کے عوام کے بہت گہرے اور پرانے تاریخی ،ثقافتی ،تہذیبی رشتے ہیں ترکی کی خلا فت یا سلطنت ِ عثمانیہ اُس وقت قائم ہو ئی جب پہلے ایک ترک سردار ارطغرل جو ہجرت کر کے بازنطینی سلطنت کے زوال کے زمانوں یہاں پہنچا تو اُس نے میدان جنگ میں دو لشکروں کو آپس میں لڑتے دیکھا سردار ارطغرل بہت بہادر اور بہادری کے اصولوں اور قدروں کا معترف تھا۔

اُس نے اس جنگ میں اپنے 400گھوڑ سوار وں کے ساتھ کمزور لشکر کا ساتھ دیا جس کی شکست یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ یہ چار سو تازہ دم بہادر سوار بہت بہادری سے لڑے اور مخالف لشکر کو شکست ِ فاش دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ لشکر مسلمانوں کا تھا جو عیسائیوں کے لشکر سے جنگ کر رہا تھا۔ اس جرات اور بہادری کے بدلے میں شہر کے نزدیک سلطنت کی جانب سے ارطغرل ایک زبر دست جا گیر عطا کی گئی۔ ارطغرل کی وفات کے بعد جاگیر اُس کے جا نشین عثمان اوّل کے حصے میں آئی تو اُس نے 1299 میں سلجو قی سلطنت سے خود مختاری کا اعلان کر دیا اور پھر عثمان اوّل کے انتقال کے ایک صدی بعد عثمانی سلطنت مشرقی بحیرہ روم سے بلقان تک پھیل گئی اس دوران اسلامی دنیا کے دو عظیم باد شاہوں کی بد نصیبی دیکھئے کہ 1402 میں اپنی وفات سے تین سال قبل امیر تیمور نے اناطوالیہ پر حملہ کیا۔

ترکی اُس وقت نہ صرف ایک بڑی سلطنت تھی بلکہ اس سلطنت پر بہت بہادر اور طاقتور بادشاہ با یزید یلدرم کی حکومت تھی۔ اُس وقت دنیا کے یہ دونوں بڑے اور طاقتور بادشاہ تھے جن کے درمیان بہت تباہ کن جنگ ہو ئی جس میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ امیر تیمور کو فتح حاصل ہو ئی اور جب با یزدید یلدرم کو گرفتار کرکے تیمور لنگ کے سامنے لا یا گیا تو تیمور اُسے دیکھا کر قہقہے مار نے لگا جس پر بایزید یلدر غصے میں آگیا اور کہا کہ تم کیسے بہادر ہو، جنگ میں فتح اپنی جگہ لیکن اس میں ہنسنے اور میرا مذاق اڑانے کی کیا بات ہے ؟

اس پر امیر تیمور جو لنگڑا تھا اور اُس کے مقابل یلدرم جوایک آنکھ سے کانا تھا اسے مخاطب ہو کر کہا کہ میں اس بات پر ہنس رہا ہوں کہ قدرت کا کمال ہے کہ اُس نے پوری دنیا ایک کانے اور ایک لنگڑے کے حوالے کردی ہے اور واقعی یہ درست ہے کیونکہ مورخین کی متفقہ رائے ہے کہ اگر اُس وقت کے یہ دو بڑے طاقتور اور بہادر باد شاہ آپس میں اتفاق کر لیتے تو پوری دنیا پر اِن کی حکومت ہو تی۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور یہ دونوں آپس ہی میں ٹکرا گئے۔ تیمور تو اس فتح کے تین سال بعد انتقال کر گیا اور سلطنت اس کے تین بیٹوں میں تقسیم ہو گئی اور پھر چند برسوں بعد اگلی نسلوں تک تیمور کی سلطنت بہت چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹ گئی اور قوم کی بجائے قبیلوں میں خاندنوں میں میں تقسیم ہو گئی۔

ان ٹکڑوں پر لڑائیاں ہو تیں رہیں مگر دوسری جانب جب تیمور بازید یلدر کو شکست دے کر یہاں سے لوٹ مار کرکے رخصت ہو گیا تو یلدرم کے بیٹے محمد اوّل نے دوبارہ سلطنت کو مضبوط اور طاقتور بنایا۔ پھر اس کی وفات کے بعد 21 سالہ محمد ثانی فاتح نے 1453 میں قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ سلطنت عثمانیہ جو 12 99 سے 1918-22 تک رہی اس دوران ارطغرل کے بیٹے عثمان اوّل سے محمد پنجم 1909 تا 1918 اور پھر اس کے بعد آخری اور برائے نام خلیفہ اور بادشاہ محمد وحید الدین 1918 تا 1922 کل36 بادشاہ گذرے جو اپنے آپ کو خلیفہ کہلواتے تھے سطنت ِعثمانیہ کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے عروج 1299 تا 1453 توسیع 1453 سے1683 جمود 1683 سے1827 زوال 1828 سے 1908 خاتمہ 1908 سے 1922 تک جمود کے زمانے یعنی 1683 میں سلطنت ِ عثمانیہ کا رقبہ 5200000 مربع کلو میٹر تھا اُس وقت اس اسلامی سلطنت کی حدود 3 بر اعظموں تک پھیلی ہو ئی تھیںجنوب میں مشرقی یورپ، مرکز ی یورپ اور شمال میں شمالی افریقہ کا بیشتر علاقہ آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرہ قزدین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں سے سلواکیہ ،کریمیا موجودہ یوکرئن، سے جنوب میں سوڈان،صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھیں۔ 1914 میں جب پہلی جنگ عظیم شروع ہورہی تھی تو سلطنت عثمانیہ کا رقبہ سکڑ کر1800000 مربع کلو میٹر رہ گیا تھا۔



اس دوران مشرقی یورپ کے علاوہ بہت سے علاقے ترکی کی خلافت عثمانیہ کے ہا تھوں سے نکل گئے تھے۔ 1798 میں فرانس نے مصر پر قبضہ کر لیا تھا 1877-78 میں روس اور سلطنت عثمانیہ کی جنگ سے بھی ترکی کو نقصان ہوا اور پھر برلن کا نگر یس کے بعد ترکی نے قبرص کے جزیر ے کو برطانیہ کوپٹے پر دے دیا۔ 1912-13 میں اٹلی اور ترکی کے درمیان جنگ ہو ئی اور لیبیا کا علاقہ ترکی کے ہا تھ سے نکل گیا۔ یہ جنگ دنیا کی پہلی جنگ تھی جس میں پہلی بار دونوں جانب سے ہوائی جہاز استعمال ہو ئے تھے۔ اُس وقت سلطنت عثمانیہ کی کل آبادی 24000000 تھی۔

جنگِ عظیم اوّل 1918 میں ختم ہو ئی اور 1923 میں اتاترک مصطفٰی کمال پا شا نے خلافت کا خاتمہ کر کے ترکی کوجمہوریہ بنا دیا۔ اس کے بعد ترکی آزاد اور خود مختار ملک بن گیا آج اس کا رقبہ 783356 مربع کلو میٹر اور آبادی 82003882 ہے۔

پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک دنیا میں ایک عالمی سطح کا سیاسی اقتصادی بحران رہا جو اقتصادی اعتبار سے1930 سے 1932 تک کی عالمی عظیم کساد بازاری پر پہنچا اور اس کے بعد ہی 1939 سے دوسری جنگ عظیم شروع ہو ئی جو 1945 میں ختم ہو ئی تو اکتوبر1945 میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے بنیاد ی 51 ممبران میں ترکی بھی ایک اہم ملک کی حیثیت سے شامل تھا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جب دنیا کے تمام ممالک کے دساتیر میں انسانی حقوق اور بنیا دی حقو ق کے تحفظ کو بھی ضروری قرار دیا گیا تو ساتھ ہی 1948 میں اس پر وسیع تر انداز میں اقوام ،ملکوں اور حکومتوں کو عالمی سطح پر اِن بنیاد ی قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانے پر زور دیا تو پوری دنیا میںنو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے مر احل شروع ہو ئے۔ ترکی نے یہاں بہت ہی احتیاط سے کام لیا۔

ساٹھ کی دہائی میں ترکی برطانیہ اور امریکہ کااتحادی تھا مگر ریوریج اور لندن معاہدے کے تحت 19 فروری 1959 میں قبرض کی آزادی طے ہو ئی اور 16 اگست 1960 کو قبرص کی آزادی کا علان ِ کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہی ترکی اور یو نان کے درمیان قبرص کے مسئلے پر بحران نمو دار ہوا قبرص کا رقبہ 9251 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 2013 کے مطابق 1141166 ہے جی ڈی پی29.666 ارب ڈالر سالانہ ہے فی کس آمدنی 34970 ڈالر سالانہ ہے۔ قبرص مشرقی بحیرہ روم کا ایک جزیرہ اور ملک ہے جو انطولیہ ایشیائے کو چک کے جنوب میں واقع ہے۔

جمہوریہ قبرص 6 اضلاع میں تقسیم ہے جب کہ ملک کا دارالحکومت نکو سیا ہے 1913 میں بر طانوی نو آبادی بننے والا قبرص1960 میں نو آبادتی نظام سے آزاد ہو گیا لیکن یہاں جو خانہ جنگی کی صورتحال تھی وہ گیارہ سال تک جاری رہی اور 1964 میں یہاں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کر دی گئی۔ جس کے کچھ عرصے بعد اس جزیرے کا الحاق یونان سے کر دیا گیااور اس کے رد عمل میں ترکی نے 1974 میں قبرص کے جزیرے پر حملہ کردیا اور اس کے نتیجے میں شمالی قبرص میں ترکوں کی حکومت قائم ہو گئی جسے ترک جمہوریہ قبرص کہتے ہیں تاہم اقوام متحدہ اس کو تسلیم نہیں کر تا۔ شمالی قبرص اور قبرص ایک خط کے ذریعے منقسم ہیں جسے ،،خط ِ سبز ،، کہتے ہیں شمالی قبرص کو ترکی کی حکومت تسلیم کرتی ہے قبرص کا جغرافیہ کچھ یوں ہے کہ قبرص بحیرہ روم میں ساردینیا اورصقلیہ کے بعد بلحاظ آبادی اور رقبہ تیسرا بڑا جزیرہ ہے۔

یہ 240 کلو میٹر لمبا ہے اور وسیع ترین مقا م پر اس کی چو ڑائی 100 کلو میٹر ہے ترکی اس کے شمال میں 75 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے دیگر ہمسایہ ملکوں میںمشرق میں شام 105 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لبنان108 کلو میٹر پر، اسرائیل جنوب مشرق میں200 کلو میٹر پر، مصر جنوب میں 380 کلومیٹر کے فاصلے پر ،جزیرہ روڈر400 کلومیٹر پر اور یونان 800 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ قبرص کی آزادی خانہ جنگی اور یہاں اقوام متحدہ کی امن فوج کی تعیناتی اور ترکی کے حملے کے بعد اس جزیرے کو سیاسی اور جغرافیائی طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جمہوریہ قبرص جزیرے کے دو تہائی حصے یعنی کل رقبے کے 59.70% پر مشتمل ہے۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص تہائی حصّے یعنی 34.85% رقبے پر مشتمل ہے۔

اقوام متحدہ کے زیر نگرانی گرین لائن حصّہ جو اِن دو حصوں کے درمیان واقع ہے اس کا رقبہ کل جزیرے کے کل رقبے کا 2.67% ہے اور پھر اس جزیرے پر برطانوی حاکمیت کے تحت ایکروتیری و دیککیا کا علاقہ ہے جو ایک بر طانوی فوجی اڈہ ہے جو جزیرے کے کل رقبے کا 2.74% پر مشتمل ہے۔

قبرص کا تاریخی پس منظر کچھ یوںہے قبرص 395 میں رومی سلطنت کی تقسیم کے بعد باز نطینی سلطنت کا حصہ بنا یہ علاقہ امیر معاویہ کے دورِ حکومت میں فتح ہوا تھا۔ تیسری صلیبی جنگ کے دوران برطانیہ کے باد شاہ رچررڈ شیردل نے اِسے فتح کر لیا اور مملکت قبرص کی بنیاد رکھی۔ 1489 میں جمہوریہ وینس نے قبرص کے جزیرے کا کنٹرول سنبھال لیا جب کہ 1571 میں لالہ مصطفٰی کی زیر قیادت ترک فوجوں نے اس جزیرے کو فتح کرلیا۔ 1777 سے یہاں عیسائی مسلم فسادات شروع ہو ئے۔

1821 میں یو نان کی آزادی کے لیے قبرص سے یونانی باشندے یونان کی فوج میں شامل ہو ئے۔ قبرص میں ترک گورنر نے یہاں 486 لیڈروں کو سزائے موت دی 1877-78 میں روس اور ترک سلطنت عثمانیہ کی جنگ ہو ئی جس میں درپردہ بر طانیہ سمیت یورپ کے بہت سے ملک مشرقی اور مرکزی مشرقی یورپی ریاستوں میں ترکی کے خلاف بغاوت کو ہوا دے رہے تھے اور جنگ میں ترکی کے خلاف تھے۔ بر طانیہ کو اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کی فکر تھی۔ کانگریس آف برلن میں اُس وقت کی چھ بڑی طاقتیں بر طانیہ ، روس ،فرانس،(آسڑیا ہنگری) اٹلی اور جرمنی سلطنت عثمانیہ کے زیرِ اقتدار بلقان کی ریا ستیں اور یونان ،سربیا،رومانیہ اور مانٹیگرو کی سرحدوں کے تعین کے لیے بات چیت کے لئے جمع ہوئیں۔

اس موقع پر بر طانیہ نے قبرص کی اسٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظر سلطنت عثمانیہ کو یہ ضمانت دی کہ روس اس علاقے پر قبضہ نہیں کرئے گا اور قبرص کو بر طانیہ نے لیزیعنی پٹے پر حاصل کر لیا۔ 1914 یعنی پہلی جنگ عظیم تک قبرص ترکی کا ہی حصہ رہا۔ 1878 میں قبرص کو برطانیہ نے اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں بر طانیہ نے اپنا اڈا قائم کر رکھا تھا۔ یہاں سے بر طانیہ مصر،نہر سوئز اور ہندوستان جانے والے بحری راستوں کی نگرانی اور حفا ظت کر تا تھا۔ 1906 میں فاما گو سٹا بندر گاہ تعمیر ہوئی تو قبرص نیوی کا اہم اڈہ بن گیا ، اب جہاں تک تعلق ترکی کا ہے تو ترکی نے اپنی آزادی و خود مختاری کو 1918 کی پہلی جنگ ِ عظیم میں شکست کے بعد 1922 تک بہت جد وجہد اور جنگ کے بعد محفوظ کیا1918 تک ترکی کی سلطنت ِ عثمانیہ نہ صرف مسلمانوںکی آخری خلافت تھی بلکہ اُس وقت دنیا کی ایک بڑی سلطنت بھی تھی جس کا تاریخی پس منظر بے مثال رہا ،مگر آج صورتحال بہت مختلف ہے۔

جب قبرص کو نوآبادیاتی نظام سے آزادی دی گئی تو علاقے میں ترکی پاکستان اور ایران امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ تھے اور سویت یونین کے خلاف اسٹرٹیجی کے اعتبار سے کچھ اُس زمانے میں اِن کی مجبوریاں بھی تھیں مگر اس کے باوجود ترکی نے قبرص کے مسئلہ پر جو موقف اختیار کیا وہ ترکی کے قومی مفاد میں تھا اس لیے کہ قبرص میںمذہبی اور نسلی اور قومی بنیاد وں پر آبادی دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح منقسم ہے۔ یہاں ترک مسلمان بھی ہیں اور یو نانی عیسائی بھی۔ پھر یہ علاقہ 1878 میں بر طانیہ نے لیز پر حاصل کیا تھا اور1914 میں جب پہلی جنگ عظیم شروع ہو ئی تو اُس وقت تک اس علا قے کی ملکیت ترکی ہی کی تسلیم کی جا تی تھی۔

یہ درست ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے عروج کے زمانے میں مشرقی اور مشرقی مرکزی یورپ کے بہت سے ملکوں اور علاقوں پر جہاں ترکوں کا قبضہ تھا وہاں اُن ملکوں کی آبادیوں میں ترک قومیت کے حامل افراد کا تناسب دس سے پندرہ فیصد تھا اور اِن پر قبضے کی مدت بھی قدرے کم تھی مگر جہاں تک تعلق قبرص کا ہے تو یہ سرحدی قربت کے اعتبار سے یونان کے مقابلے میں ترکی کے زیادہ قریب ہے اور یہاں ترکوں اور مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بھی مشرقی یورپ کے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور قبرص صدیوں سے مسلم سلطنت کا حصہ رہا ہے۔

یہاں کی ثقافت اور تہذیب پر اس کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ لیکن جب قبرص کو آزادی ملی اور پھر جب اس کا الحاق یونان سے کر دیا گیا تو پھر یہاں ماضی کے نسلی، معاشرتی ،سماجی، مذہبی تنوع کو بڑی قوتوں نے اپنے اقتصادی سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا اور اس تنوع کو تضادات میں بدل دیا۔ جس کے سبب یہاں جنگیں ہو ئیں جس کے لیے یہاں ایک جانب اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کی گئی اور جب ترکی نے قبرص پرحملہ کیا تو پھر جمہوریہ قبرص کے نام سے یونانی عیسائی آبادی کی بنیاد پر جزیرے کے 59.74%دو تہائی رقبے پر جمہوریہ قبرص قرار پایا۔

اگر چہ اقوام متحدہ نے ترکی کے قبضے کو تسلیم نہیں کیا مگر اقوام متحدہ کی گرین لائن کے دوسری جانب شمالی قبرص جو جزیرے کے کل رقبے کا 34.85% ہے وہ ترک قبرص کہلاتا ہے پھر2004 میں جمہوریہ قبرص کی بنیادی پر یہ یورپی یونین میں شامل ہوا مگر اس پر بر طانوی فو جی اڈہ بھی ہے اور پھر ترک قبرص بھی مو جود ہے یہ مسئلہ بھی اس وقت بظاہر ایک خوا بیدہ عالمی مسئلہ ہے کہ فی الحال ترکی ،یونان اور بر طانیہ اپنی اپنی جگہ پر پوزیشن لے کر مطمین ہیں اور اس تنازعے کو منجمد رکھنے پر راضی ہیں مگر قانونی پوزیشن کو دیکھا جائے تو اقوام متحدہ نے ترکی کے موقف کو تسلیم نہیں کیا۔

اسی طرح جمہوریہ قبرص کو یورپی یونین کی بھی بھر پور تا ئید حاصل ہے اور اس کے مقابلے میں ترکی اس تائید اور حمایت سے محروم ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس جزیرے کی سمندری راستوں کے لحا ظ سے ہمیشہ سے اہمیت رہی ہے اور یہ اب بھی برقرار ہے۔ دنیا میں قوموں کا عروج و زوال وقت کی میزان سے بدلتا رہتا ہے۔ ترکی کے عوام میں پہلی جنگ عظیم کی شکست کے بعد سے ایک احساسِ زیاں پا یا جا تا ہے ا ور اس وقت جب سے طیب ارد گان کی قیادت ترکی کو میسر آئی ہے ترکی کے بہت سے عالمی نوعیت کے فیصلے صرف ترکی کے مفاد میں کئے گئے ہیں اور اس کی وجہ سے ترکی کی حالیہ قیادت کو عالمی سطح پر بڑی قوتوں کا دباؤ بھی برداشت کر نا پرا ہے۔

1990 کے بعد جب سویت یونین کے گارباچوف نے گلاسنس اور پرسٹریکا کی بنیادوں پر اصلاحات کرتے ہو ئے مشرقی یورپ اور مشرقی مرکزی یورپ کی بہت سی ریاستوں کو آزاد کر دیا اور وارسا پیکٹ کے تحت مشرقی یورپ کے وہ ملک جہاں کیمونسٹ حکومتوں کے خاتمے کے بعد آزاد مارکیٹ کی معیشت اور مغربی جمہوری نظام آگیا ہے اسی طرح سنٹرل ایشیا کی ریاستیں جن میں آزربائجان وغیر ہ پر تو ایک ڈیڈھ صدی قبل تک سلطنت عثمانیہ کا اثر غالب تھا ابدوبارہ وہاں ترکی کا اگرچہ غلبہ تو نہیں ہے مگر اب بدلتے ہو ئے حالات میں روس سمیت اِن ملکوں سے ترکی کے تعلقات بہتر اور متوازن ہیں۔ 1990 کے بعد سے دنیا میں تیزی سے ترقی کرتی ہو ئی اقتصادی قوت چین ہے جو اب دنیا بھر میں دوسری اقتصادی قوت تسلیم کر لی گئی ہے۔

جب کرونا وائرس چین میں نمو دار ہو اتو یوں لگ رہا تھا کہ جس تیزی سے چین نے معاشی اقتصادی ترقی کی تھی شائد وہ ترقی ساحل پر ریت سے بنے گھروندے کی طرح مسمار ہو جائے گی مگر چین کے منظم معاشرے اور قوم نے جس طرح کرونا وائرس کو شکست دی ہے اگر چین اپنی فتح کو مکمل استحکام دے پا یا تو پھر 2020 ہی سے دنیا میں اقتصادی معاشی اعتبار سے غالباً چین پہلی پوزیشن پر آ جائے اور ترکی کے چین سے بھی مراسم متوازن اور بہتر ہیں۔

سابق سویت یو نین اور حالیہ روس شروع ہی سے خصوصاً خلائی ٹیکنالوجی میں امریکہ کے ہم پلہرہا ہے اور گذشتہ دس برسوں سے کبھی یو کرئن کے محاذ سے تیل اور گیس کی پیداوا ر اور مارکیٹینگ میں بھی امریکہ کے داؤ پیچ کا مقا بلہ کر رہا ہے۔ اب ترکی سے روس کے تنازعات تقربیاً ختم ہو رہے ہیں جو سرد جنگ کے زمانے میں ترکی سے نیٹو کی بنیاد پر رہے۔ پھر ترکی نے گذشتہ چند برسوں میں دوبارہ خود کو اسلامی ملکوں کے اتحاد کے مر کزی کردار کے طور پر ملائیشیا کے مہاتیر محمد کے ساتھ مل کر پیش کیا ہے یہ الگ بات ہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں کے معاشی و اقتصا دی دباؤ کی وجہ سے انڈ ونیشیا اور پاکستا ن اپنی قدرے کمزور معیشت کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے مگر ملا ئیشیا اور تر کی اب بھی ثابت قدم ہیں اس سارے تناظر میں یہ واضح ہے کہ اب قبرص کا سویا ہوا تنازعہ مستقبل قریب میں جا گ سکتا ہے۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں