مشیروں کے انتخاب میں احتیاط

عمران خان کی حکومت کے بنیادی ترین مسائل میں ان کے مشیروں کا اخلاص بھی ایک مسئلہ ہے


اکرام سہگل April 18, 2020

HONG KONG: امریکا کی خانہ جنگی کے دوران 1864میں جنرل یولیسیس گرانٹ صدر ابراہام لنکن کے معتمد خاص بنے اور بعد میں ان کی سربراہی میں امریکی فوج نے 1865میں کام یابی حاصل کی۔ ان کے بنیادی عملے میں زیادہ تر سویلین شامل تھے جنھوں نے جنگ کے دوران رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ 46برس کی عمر میں گرانٹ امریکا کے اٹھارہویں صدر منتخب ہوئے ۔

اس وقت تک وہ امریکا کے کم عمر ترین صدر تھے۔وہ خود تو بہت محنتی تھے لیکن ان کی انتظامیہ اسکینڈلز کے گرداب میں رہی۔ جنرل رالنز صدر گرانٹ کے دیرینہ ساتھی تھے۔ صدر ان پر سب سے زیادہ اعتماد کرتے تھے اور اسی لیے انھیں چیف اسٹاف بھی بنایا تھا لیکن صرف پانچ ماہ تک اپنی ذمے داریاں ادا کرکے رالنز ٹی بی میں مبتلا ہوکر چل بسے۔

اس کے بعد سے جنرل گرانٹ کی بد قسمتی رہی کہ ان کے مشیروں نے بری طرح انھیں مایوس کیا۔ رالنز کی جگہ سیکریٹری مقرر ہونے والے اورول بیبکوک بدعنوانی کے الزامات میں گھرے رہے اور ان پر کابینہ کے محکموں اور تقرریوں میں مداخلت کا بھی الزام لگا۔ میدان جنگ میں وفادارانہ تعلق اور مشترکہ تجربات کی وجہ سے گرانٹ نے سیاسی حملوں میں بیبکوک کا دفاع کیا۔ 1875میں 'وہسکی رنگ'' کے رکن کے طور پر جب بیبکوک پر فرد جرم عائد ہونے لگی تو گرانٹ کی دی گئی تحریر کی بنا پر اس کا بریت ہوگئی۔ تاہم کئی دیگر اسکینڈل اور گرانٹ کی کابینہ کے قابل ترین افسر وزیر خارجہ ہملٹن فش کے دباؤ کی وجہ سے بیبکوک کو وہائٹ ہاؤس چھوڑنا پڑا۔

بد قسمتی سے صدر گرانٹ کی کابینہ کے اکثر اہم ترین ارکان، عملے کے لوگوں اور مشیروں کا انتخاب زیادہ غور و خوص کے بعد نہیں کیا گیا تھا۔ جنرل گرانٹ خود تو کھرے آدمی تھے لیکن مردم شناس نہیں تھے۔ غلط لوگوں کا انتخاب اور ان کے بد دیانت اور موقع پرست ثابت ہوجانے کے باوجود ان کا دفاع کرنا ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ ان کے صدارت کے دونوں ادوار میں ان کی انتظامیہ کے اسکینڈلز نے ہنگامہ کھڑا کیے رکھا۔ وہ نیک نیت مگر دور اندیشی سے عاری تھے۔ اسی لیے وہ کبھی جرنیلوں، سیاست دانوں اور مشیروں کے ایک گروہ کی سنتے تو کبھی دوسرے کی۔

مؤرخ ہنری واٹمین نے لکھا کہ اپنی سیاسی سادہ لوحی کی وجہ سے گرانٹ ایک غیر مؤثر صدر ثابت ہوئے۔ کیا امریکی صدر گرانٹ کے ان حالات سے فوری طور پر دھیان ایک اور ایسے لیڈر پر نہیں جاتا جسے ہم اس کی دیانت اور خلوص کی وجہ سے جانتے اور عزیز رکھتے ہیں؟

اچھے اور برے مشیروں کی تاریخ بہت قدیم لیکن انتہائی دل چسپ ہے۔ ان میں سے چند معروف ناموں کا تذکرہ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے جو اپنے قائدین کی کام یابی میں مددگار ثابت ہوئے۔ 1) چانکیہ ایک انتہائی ماہر حکمت کار اور سفاک سیاست داں تھا، وہ کاروبارِ حکومت چلانے میں موریہ خاندان کے چندرگپتا کا مدد گار تھا۔ اس کی کتاب ''ارتھ شاستر'' کو ہندو سیاسیات اور سفارت کاری کے لیے مقدس صحیفہ تصور کیا جاتا ہے۔ (2مغل شہنشاہ اکبر کے ہندو مشیر، بیربل کی دانش مندی بے مثال تھی ، وہ اپنی حس مزاح اور مسائل کے حل اختراع کرنے کی بہترین صلاحیت کے باعث شہرت رکھتا تھا۔ 3) پروشیا، جو بعد ازاں جرمن سلطنت میں تبدیل ہوا، کے حکمراں ولی ہلم اول کے وزیراعظم بسمارک نے مختلف جرمن رجواڑوں کو جرمن سلطنت کا حصہ بنایا اور مشہور عالم نوکر شاہی اور فوج کی بنیاد رکھی۔

تاہم بعض ایسے بد خصلت بھی ہوتے ہیں جو اپنے آقاؤں کے لیے تو ناگزیر ہوتے ہیں لیکن ملک و قوم کے لیے نہیں۔ اکثر امور میں آصف زرداری کے ایک قریبی ترین مشیر بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ وہ حکومتی امور کا فہم رکھنے والے ایک سنیئر ڈی ایم جی بیوروکریٹ تھے لیکن ان کی ساری خدمات صرف زرداری کے لیے تھیں۔ اپنی تمام قابلیت کے ساتھ ایسے بیوروکریٹ صرف ایسی وزارتوں میں جاتے ہیں جہاں مال کمانے کے خوب مواقع میسر ہوں۔ اچھی طرز حکمرانی اور کرپشن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہی وجہ تھی کہ بالآخر زرداری کی حکومت ناکام ہوئی۔ نواز شریف نے بھی یہی کلیہ اپنایا اور پنجاب میں شہباز شریف نے تو اس پر مکمل عمل کیا۔ آخر کار اپنے انھی بدعنوان پیادوں کی وجہ سے انھیں سیاسی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔

عمران خان کی حکومت کے بنیادی ترین مسائل میں ان کے مشیروں کا اخلاص بھی ایک مسئلہ ہے جو ان کے روز مرہ اور دور رس اثرات رکھنے والے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک سے زائد مرتبہ وزیر اعظم کے اعلانات اور انٹرویوز سے یہ تاثر قائم ہوچکا ہے کہ وہ بغیر تیاری کے فیصلے صادر کردیتے ہیں۔ جب تک حقیقت کو افسانوںسے الگ کرنے، جذبات اور حقائق کے مابین فرق کرنے والا نگرانی اور حالات کے جائزے کا باقاعدہ نظام موجود نہ ہو تو اچھے مشیر بھی کام نہیں آتے۔

وزیر اعظم کے سیاسی اور دیگر مشیروں میں چند ایک تو واقعی پختہ کار ہیں لیکن ان میں ناپختہ لوگ بھی شامل ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی حکمران اپنے تجربے اور علم کے بل بوتے پر حکومت نہیں چلا سکتا۔ حکومت ٹیم ورک سے چلائی جاتی ہے۔ اپنے شعبے کے ماہرین کی مشاورت اور رہنمائی اب کاروباری ،مالیاتی ، تعلیمی، قانونی، انشورنس اور حکومتی اداروں کے لیے ناگزیر تصور ہوتی ہے۔ انھیں کئی وزارتوں کی فیصلہ سازی میں بھی شریک کیا جاتا ہے۔

وزیر اعظم یا صدر سے لے کر یا جو بھی طرز حکومت کسی ملک میں رائج ہو، ہر مرحلے پر بروقت اور درست فیصلہ سازی کرنا ہوتی ہے۔ امریکا میں تشکیل پانے والے ایسے ہی ایک مشاورتی عہدے 'مشیر برائے قومی سلامتی' کو پاکستان میں اپنایا گیا مگر اس عہدے کو وہاں جو انتظامی اختیارات حاصل ہیں ہمارے ہاں اس کا تصور بھی نہیں۔ مشیروں کا انتخاب کرتے ہوئے لیڈر کے بجائے ملکی مفاد کو اولین ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔

انا پرستی اچھے مشیروں کی تلاش میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ ملک کو اس وقت عمران خان جیسے مخلص لیڈر کی ضرورت ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ان کے گرد ایسے مشیر ہوں جن کے ذاتی ایجنڈے نہ ہوں اور ان کی ناپختگی کا خمیازہ خود ان کے لیڈر کے بجائے ملک کو نہ بھگتنا پڑے۔

(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے ماہر ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں