مسلم دشمنی

پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں نہایت سوچ سمجھ کر ٹھوس اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔


عثمان دموہی April 19, 2020
[email protected]

بدقسمتی سے گزشتہ تیس سال پاکستان پر بہت بھاری گزرے ہیں ان میں پاکستان کو تباہ کرنے اور پاکستانیوں کو برباد کرنے کے لیے دشمن کے آلہ کاروں نے کیا کیا جتن نہیں کیے مگر ہماری قوم اور فوج نے مل کر دشمن اور اس کے آلہ کاروں کے تمام مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اس جنگ میں ناکامی کے بعد اب دشمن ہماری سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ ہی وطن عزیز کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے۔

مودی کے دل میں جس قدر پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت بھری ہوئی ہے اتنی تو ہٹلر کو برطانیہ اور یہودیوں سے بھی نہیں تھی مگر ہر نفرت کا انجام عبرت ناک ہوتا ہے۔ ہٹلر اپنی فوجی طاقت پر اس قدر نازاں تھا کہ وہ کسی ملک کو خاطر میں نہیں لا رہا تھا وہ پورے یورپ پر قبضہ جمانے کا خواب دیکھ رہا تھا یہودیوں کو وہ ایک حقیر اور منحوس قوم قرار دیتا تھا۔ اس نے ان پر ظلم کی انتہا کردی تھی۔

بس بالکل وہی حال مودی کا ہے وہ اپنی فوجی طاقت کے بل پر افغانستان سے لے کر برما تک پورے علاقے کو اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا ہے۔ وہ بھارتی مسلمانوں سے اس قدر نفرت کرتا ہے کہ انھیں بھارت کی تمام پریشانیوں کا سبب قرار دیتا ہے۔ اسی کے اشارے پر بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔

اس وقت کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو گھیر رکھا ہے یہ ایک قدرتی وبا ہے جس کی وجہ کوئی ملک یا مذہب نہیں ہے مگر بھارت میں اس بیماری کو پھیلانے کا ذمے دار مسلمانوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔ یہ تو خیر بھارتی حکومت کا شروع سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں ہونے والی ہر پریشانی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ تلاش کرلیتی ہے۔

مزید مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جب پوری دنیا اس بیماری سے بچنے کی دوا تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے تو بھارت سرکار اس کا مذہب تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور بالآخر وہ اس میں کامیاب بھی ہوگئی ہے انھوں نے کورونا کا تعلق اسلام سے جوڑ دیا ہے۔ دہلی میں واقع نظام الدین تبلیغی مرکز کو اس بیماری کا منبع قرار دیا جا رہا ہے۔ اس تبلیغی مرکز میں بھارت کے طول و عرض سے مسلمانوں کا دینی تعلیم کے سلسلے میں آنا جانا ہوتا رہتا ہے جس کا دہلی پولیس باقاعدہ ریکارڈ رکھتی ہے۔

بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس مرکز میں گروپ کی شکل میں آنیوالے مسلمانوں نے اس بیماری کو ہوا دی ہے۔ حالانکہ یہاں ہونیوالے سالانہ اجتماع کو بھی کورونا کی وجہ سے موخر کردیا گیا ہے۔ کچھ لوگ یہاں اس سلسلے میں پہلے سے آچکے تھے جن میں کچھ دوسرے ممالک سے آئے ہوئے مسلمان بھی شامل تھے۔ اس وقت بھارت کے تمام ہی شہروں میں شیوراتری کی تقریبات ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے مندروں میں زبردست بھیڑ بھاڑ ہے۔ بھارت میں باہر سے آنیوالوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

ایک فیملی جو کینیڈا سے بھارتی پنجاب آئی تھی وہ کورونا زدہ تھی اسے ایئرپورٹ سے قرنطینہ سینٹر نہیں بھیجا گیا۔ اس نے اپنے گاؤں پہنچ کر درجنوں لوگوں کو کورونا زدہ کردیا ہے مگر میڈیا کورونا پھیلانے کا الزام صرف مسلمانوں پر ہی لگا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کی یہ سراسر مسلم دشمنی ہے مگر یہ مودی کی حکمت عملی کے مطابق ہے تاکہ مسلم دشمنی کی آڑ میں اس کی غلطیاں چھپی رہیں۔

بھارتی میڈیا دراصل کورونا کے پھیلاؤ کے سلسلے میں حکومتی غلطیوں کو چھپا کر اپنا حق نمک ادا کر رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کی اپنی قومی ذمے داریوں سے انحراف پر وہاں کی حزب اختلاف اور دانشور طبقہ اسے سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ میڈیا کو باقاعدہ ہر ماہ بھاری رقوم جاری کی جاتی ہیں اور اس رقم کا بندوبست مودی کا کھرب پتی صنعتکار دوست مکیش امبانی کرتا ہے۔ دراصل بھارت کے تمام ہی بڑے صنعت کار اور تاجر مودی سے خوش ہیں۔ مودی انھیں سرکاری سطح پر خصوصی رعایتیں دیتے ہیں اور بھارتی بجٹ ان کے ہی مشورے سے بنتا ہے جس میں عوام کے بجائے ان کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔

مودی نے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے پاکستان مخالف پروپیگنڈے اور بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلتوں پر ظلم و ستم روا رکھ کر شمالی بھارت کے اونچی ذات کے ہندوؤں کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے انھیں آر ایس ایس سے درپردہ تعلق رکھنے والے الیکشن کمشنر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی بھی ہمدردیاں حاصل ہیں پھر جن علاقوں میں ان کی پارٹی کی پوزیشن کمزور ہوتی ہے وہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی مدد سے الیکشن میں کامیابی حاصل کرلی جاتی ہے۔

بھارتی حزب اختلاف کی پارٹیاں مودی کی اس دھاندلی سے واقف ہیں مگر انھوں نے فراڈ مشینوں کو ہٹا کر ووٹنگ کے پرانے سسٹم کو بحال کرنے کا کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ حزب اختلاف کی کمزوری کی وجہ سے مودی کے حوصلے بلند ہیں۔ کانگریس جو کبھی پورے بھارت کی مقبول پارٹی تھی آج بی جے پی نے اس کی درگت بنا دی ہے۔ کئی ریاستوں کے الیکشن میں کانگریس نے جیت ضرور حاصل کی مگر وہاں کانگریس اپنی حکومتیں نہ بنا سکی۔ بی جے پی نے تیزی دکھا کر ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے وہاں اپنی حکومتیں بنا ڈالیں اور کانگریس بڑی بے چارگی سے یہ تماشہ دیکھتی رہ گئی۔

گزشتہ ماہ کانگریس کی مدھیہ پردیش کی حکومت پر بی جے پی شب خون مار کر اسے ہتھیانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ کانگریس کی اس بے بسی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کہیں کچھ سالوں میں اس کا بھارت میں مکمل صفایا نہ ہوجائے۔ کانگریس کی اس وقت سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کی کشمیر پالیسی پاکستان کی کشمیر پالیسی سے ملتی جلتی ہے۔ کانگریس بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو ہٹائے جانے کے خلاف ہے وہ کشمیر کو ایک خودمختار ریاست کا درجہ دیتی ہے۔ اس وقت کشمیریوں کو موجودہ مشکلات سے نکالنے کے لیے پاکستان کی تمام کوششوں کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی پرامن پوزیشن کو بحال کراکے وہاں لاک ڈاؤن ختم کرانا ہے۔

مودی کانگریس کی کشمیر پالیسی کو پاکستان کی اس حکمت عملی سے ملا کر اس پر غداری کا الزام لگا رہے ہیں۔ کانگریس مودی کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے بھی خلاف ہے اس کا موقف ہے کہ بی جے پی پاکستان کا ہوا کھڑا کرکے نہ صرف اپنی غلطیوں پر پردہ ڈال رہی ہے بلکہ سیاسی فائدہ بھی اٹھا رہی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس کا پاکستان مخالف پروپیگنڈا عوام پر خوب اثر دکھا رہا ہے اور اس کی الیکشن میں دونوں کامیابیوں میں پاکستان مخالف پروپگینڈے کا بڑا عمل دخل تھا۔

اس میں ذرا شک نہیں کہ مودی پاکستان کو دنیا کے نقشے سے غائب کرنے کا خواہاں ہے اور اس کی پارٹی آر ایس ایس پورے برصغیر سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کے در پے ہے ،ایسے حالات میں مودی سے یہ امید کرنا کہ وہ مقبوضہ کشمیر پر اپنی غاصبانہ گرفت کو کچھ ڈھیلا کردے گا ناممکن ہے لگتا ہے وہ کشمیریوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے انھیں کئی سال لاک ڈاؤن میں رکھنے کا پلان بنا چکا ہے۔

ایسے ماحول میں پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں نہایت سوچ سمجھ کر ٹھوس اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ چین مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی بھرپور مدد کر رہا ہے مگر بدقسمتی سے جن عالمی طاقتوں کے پاس اس مسئلے کے حل کی چابی ہے وہ چین کے مخالف ہی نہیں اس کی ہر تجویز اور اقدام کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں