حزب اختلاف کے تحفظات دور کرنے کیلئے اقدامات کی ضرورت
یہ حکومت اور حکومتی اداروں ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ضمن میں مناسب اقدامات کریں
MUZAFFARABAD:
تمام تر معاملات کورونا وائرس کے گرد ہی گھوم رہے ہیں۔ مرکز کے بعد صوبائی حکومت نے بھی تعمیراتی صنعت سے متعلق سامان کی فروخت کی اجازت دیتے ہوئے متعلقہ دکانیں کھولنے کی اجازت دی لیکن اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر کئی بازار اور دکانیں بھی کھل گئی ہیں جہاں لوگوں کا رش رہتا ہے۔ معاشی طور پر صوبہ کے لوگ کمزور حالت میں ہیں اس لیے موقع ملتے ہی انہوں نے کاروباری مراکز کھول لیے ہیں۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صورت حال کو درست کرے کیونکہ رش کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلنے کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں۔ خصوصاً پشاور، جہاں صوبہ بھر کے تمام اضلاع کے مقابلے میں سب سے زیادہ کیسز سامنے آرہے ہیں ۔ مرکزی حکومت کے اعلان کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے درزیوں اور حجاموں کی دکانیں بھی کھولنے کا کوئی اعلان نہیں کیا لیکن پھر بھی کئی مقامات پر یہ دکانیں ازخود کھل گئی ہیں۔
یہ حکومت اور حکومتی اداروں ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ضمن میں مناسب اقدامات کریں تاکہ مشکلات میں کمی لائی جاسکے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے خطرہ نہ تو ٹلا ہے نہ ہی اس میں کمی آئی ہے بلکہ یہ خطرہ بدستور موجود بھی ہے اس لیے احتیاطی تدابیر کو برقرار رکھنے کے لئے اُسی طرح کے اقدامات درکار ہیں جو ابتدائی دنوں میں کئے گئے تھے یا پھر حکومت تمام کاروبار کھولنے کا اعلان کردے تاکہ بات ختم ہو ۔
کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے پورے کا پورا منظر نامہ ہی تبدیل ہو گیا ہے اس لیے آئندہ مالی سال کے لیے صوبائی بجٹ کی تیاری بھی الگ اور مختلف انداز میں شروع کی گئی ہے۔ ہرسال بجٹ کے ایک یا دو ڈرافٹ تیارکیے جاتے ہیں تاہم اس مرتبہ بجٹ کے چار مختلف ڈرافٹ تیار کیے جا رہے ہیں جن میں معمول کے مطابق ڈرافٹ کی تیاری کے ساتھ کورونا وائرس کی وجہ سے صورت حال میں شدت آنے پر صوبہ کی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات اور آئندہ مالی سال پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کے تناظر میں الگ ڈرافٹس کی تیاری جاری ہے۔ چار مختلف ڈرافٹ تیار کرنے کا مقصد ہر قسم کے حالات کے لیے خود کو تیار کرنا اور ان سے نبردآزما ہونا ہے۔
خود وزیر خزانہ تیمورسلیم جھگڑا بھی یہ بات کررہے ہیں کہ ہم بجٹ کو ہمہ جہت بنانا چاہتے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کے حالات میں معاملات کو سنبھالا جاسکے اور یہی بہترین پالیسی ہے تاکہ حالات سنگین ہونے پر حکومت افراتفری کا شکار نہ ہو بلکہ پہلے سے کی گئی تیاری کے مطابق معاملات کو آگے بڑھا سکے ۔گوکہ حکومت ان خطوط پر چلتے ہوئے آئندہ مالی سال کے بجٹ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کی تیاری کر رہی ہے لیکن دوسری جانب اپوزیشن کے اپنے تحفظات موجود ہیں۔
اپوزیشن اس بات کو لیے معترض ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی گزشتہ پانچ سالہ صوبائی حکومت کے دور میں بھی انھیں نظر انداز کیاگیا تھا اور اب موجودہ حکومت کے بھی مسلسل دوسرے سال کے دوران ان کے حلقے نظر انداز کیے جا رہے ہیں اس لیے بجٹ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام میں ان کے حلقوں کی محرومیاں دور کرتے ہوئے ان کے لیے بھی اسی طرح کے اقدامات کیے جائیں اور ترقیاتی سکیمیں دی جائیں جس طرح پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کے حلقوں کو دی جاتی رہی ہیں۔
اس حوالے سے یہ بات انتہائی صائب رہے گی کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان خود اپوزیشن لیڈراکرم خان درانی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے پارلیمانی قائدین کے ساتھ ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعے مخاطب ہوں جس میں موجودہ حالات میں ان اپوزیشن جماعتوں سے حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہوئے عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے معاملات زیر بحث لانے کے علاوہ بجٹ اور اے ڈی پی کی تیاری کے بارے میں بھی بات کی جائے ۔ صوبائی اسمبلی کا گیارہواں سیشن جو ماہ فروری میں شروع ہوا اور مارچ کے مہینے میں کورونا کی وبا پھیلنے کی وجہ سے غیر معمولی صورت حال میں غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیاگیا ،اس پورے سیشن کے دوران اپوزیشن جماعتیں سراپا احتجاج بنی رہیں ،اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایوان میں جس طریقے سے احتجاج کیاگیا اور جو ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی وہ کسی بھی طور مناسب نہ تھی اور اگر حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ بجٹ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کی تیاری کے سلسلے میں مشاورت نہ کی تو بجٹ سیشن کے دوران اسمبلی کی کاروائی چلانی انتہائی مشکل ہوجائے گی۔
اس سلسلے میں شنید ہے کہ کوروانا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات میں اسمبلی کے بجٹ سیشن کے انعقاد کے حوالے سے خود سپیکر مشتاق احمد غنی بھی اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے ساتھ جلد ہی رابطے کرنے والے ہیں جس میں ان سے مشاورت کی جائے گی کہ اگر حالات یونہی رہے تو اس صورت میں بجٹ سیشن کا انعقاد کس طریقے سے کیاجائے گا ؟ اگر اس مشاورتی عمل میں وزیراعلیٰ خود بھی شامل ہوجائیں تو معاملات ٹریک پر آجائیں گے ۔
سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک اپنے آخری دو سالوں کے دوران اپوزیشن کو رام کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے انہوں نے اپنی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے اپوزیشن کے حلقوں کے لیے بھی ترقیاتی فنڈز کا اجراء کیا۔ اب وزیراعلیٰ محمود خان کو بھی اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے اپوزیشن پر نظر التفات کرنی چاہیے تاکہ معاملات پر ان کی گرفت مضبوط ہوسکے ۔
اپوزیشن جماعتوں کو بھی موجودہ حالات میں متحرک ہونا پڑے گا کیونکہ اپوزیشن جماعتیں صرف حکومت پر گولہ باری کرنے تک ہی محدود ہیں حالانکہ مشکل کی اس گھڑی میں ہر سیاسی جماعت کو اپنے طور پر فنڈز بھی قائم کرنے چاہیں تھے اور کورونا وائرس اوراس کے ساتھ معاشی طور پر متاثرہ افراد کی مدد بھی کرنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ یہی صورت حال صوبائی وزراء اور حکومتی ٹیم کے ارکان کی ہے جنہیں تنبہیہ کرتے ہوئے متحرک کرنا چاہیے کیونکہ یہ صرف وزیراعلیٰ ،مشیر اطلاعات اجمل خان وزیر،وزیر صحت وخزانہ تیمور سلیم جھگڑا یا چند دیگر کی نہیں بلکہ پوری ٹیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ مل کر معاملات کو آگے بڑھائیں۔