رویت ہلال کمیٹی اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی

فواد چوہدری کو جب سے سائنس و ٹیکنالوجی کا قلمدان سونپا گیا ہے، تب سے وہ رویت ہلال کمیٹی کے پیچھے پڑے ہیں


فواد چوہدری کو جب سے سائنس و ٹیکنالوجی کا قلمدان سونپا گیا ہے، تب سے وہ رویت ہلال کمیٹی کے پیچھے پڑے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

جب سے رویت ہلال کمیٹی قائم ہوئی ہے، اسے تب سے پوری قوم کا اعتماد حاصل تھا۔ اس میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کی نمائندگی موجود ہے جس کی وجہ سے پورے ملک کے علماء و عوام اس کمیٹی پر اعتماد کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت سمیت چاروں صوبوں کی حکومتیں اس کمیٹی کی پشت پناہی کرتی رہیں یوں یہ کمیٹی کبھی متنازعہ نہیں بنی۔ اس کمیٹی کی مخالفت کرنے والے لوگ اتنے ہیں کہ انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے، وہ بھی فقط دو چار شہروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب ایک طرف یہ گروہ ہے جو چند افراد پر مشتمل ہے اور دوسری طرف رویت ہلال کمیٹی ہے جسے پوری قوم کی حمایت و اعتماد حاصل ہے۔ اس صورتحال میں اس متفقہ قومی کمیٹی کو متنازعہ بنا دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟

ایک کمیٹی جس پر عوام کی غالب بلکہ اغلب اکثریت اعتبار کرتی تھی اور اس کے فیصلوں کو تسلیم کرکے اپنے دینی فرائض سرانجام دیتی تھی، اس کمیٹی کے بارے میں بھی عوام کے دلوں میں طرح طرح کی بدگمانیاں پیدا کر دی گئی ہیں اور یہ بدگمانیاں بھی کسی انتہا پسند گروہ یا کسی متعصب فرقے کی طرف سے نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے وزراء نے پیدا کی ہیں جو خود کو عقل کل خیال کرتے ہوئے باقی سب کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کو جب وزارت اطلاعات کےلیے نااہل سمجھ کر سائنس و ٹیکنالوجی کا قلمدان سپرد کیا گیا تو وہ ہاتھ دھو کر رویت ہلال کمیٹی کے پیچھے ہی پڑ گئے، جیسے ملک میں سائنسدانو ں کےلیے بس ایک ہی مسئلہ رہ گیا ہے۔ اس سے قبل ملک میں دو گروہوں کے درمیان اختلاف تھا۔ ایک طرف مفتی شہاب الدین پوپلزئی تھے اور دوسری طرف پورے پاکستان کے علماء و عوام۔ جب سے فوادچوہدری کو وزارت سائنس و ٹیکنالوجی ملی، تب سے انہوں نے ایک تیسرے گروہ کی بنیاد بھی رکھ دی اور وہ ہے حکومت۔

اس سے قبل کم از کم حکومت اور رویت ہلال کمیٹی کا مؤقف ایک ہی تھا۔ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا۔ اختلاف کرنے والا ایک بہت چھوٹا سا گروہ تھا مگر اب یہ حالت ہے کہ اس گروہ کا اختلاف تو اپنی جگہ برقرار ہے جبکہ ایک نیا تنازعہ حکومت اور رویت ہلال کمیٹی کے درمیان کھڑا کر دیا گیا ہے۔ یہ ہوتی ہے قابل اور اہل ترین وزراء کی نشانی کہ بجائے دو گروہوں کے درمیان مصالحت کرنے کے ایک نیا گروہ اور نیا تنازعہ کھڑ ا کردیں۔

جہاں تک سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے قبل از وقت چاند کی تاریخوں کی پیش گوئی کرنے اور ان پر من و عن عمل کرنے کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں ایک اصولی مسئلہ ذہن نشین کر لیجیے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی سے شریعت کے اصول نہیں بدلتے۔ اگر شریعت کا حکم ہے کہ چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا ہے اور چاند دیکھ کر ہی روزے ختم کرنے ہیں تو دیکھنے والے حکم میں سائنس کی وجہ سے تبدیلی نہیں ہوگی۔

اس کی مثال ایسی ہے کہ شریعت نے سفر میں نماز کی قصر کا حکم دیا، یعنی اگر کوئی شخص پندرہ دن سے کم قیام کے ارادے سے اڑتالیس میل یا اس سے زیادہ سفر کرتا ہے تو وہ چار رکعت والی نماز آدھی یعنی دو رکعتیں پڑھے گا۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ جب شریعت نے یہ حکم دیا تھا اس وقت تو لوگ پیدل سفر کرتے تھے اور اڑتالیس میل کا فاصلہ طے کرنا بھی بہت تکلیف دہ تھا۔ لیکن آج کے دور میں سائنس و ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ چند گھنٹوں میں ہزاروں میل کا فاصلہ طے ہو جاتا ہے۔ اب وہ مشقت تو باقی نہیں رہی، اس کے باوجود تمام علمائے کرام اس پر متفق ہیں کہ یہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی وجہ سے شریعت کا حکم تبدیل نہیں ہوگا۔

یہاں ایک اور بات یہ بھی قابل غور ہے کہ تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل جب یہ احکامات نازل ہوئے، اس وقت بھی تو کچھ لوگ پیادہ پا سفر کرتے تھے اور کچھ گھوڑوں اور اونٹو ں وغیرہ پر۔ اب پیدل چلنے والوں کی مشقت اونٹوں اور گھوڑوں والوں کی مشقت سے کہیں زیادہ تھی۔ اس کے باوجود شریعت نے حکم سب کےلیے یکساں رکھا۔ اسی لیے موجودہ دور میں بھی حکم جوں کا توں رہا۔ اسی مسئلے کو رویت ہلال پر بھی قیاس کریں تو جب شریعت کا حکم ہے کہ چاند کو دیکھ کر ہی روزہ رکھنا ہے تو چاند کو دیکھنا ضروری ہے۔ اب سائنس و ٹیکنالوجی کی پیش گوئیاں کافی نہیں ہوں گی۔

صحاح ستہ سمیت کئی کتبِ حدیث میں مستند احادیث موجود ہیں جن میں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور عید کرنے حکم ہے۔

ہمارے ہاں بہت سے حضرات اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ دوربین بھی تو سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے ہی بنی ہے، اسے رویت ہلال کےلیے کیوں استعمال کرتے ہیں؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ بھائی علمائے کرام نے سائنسی ایجادات سے استفادہ کرنے سے کب منع کیا ہے؟ سائنسی ایجادات کو شرعی احکاما ت پر عمل پیرا ہونے میں آسانی کےلیے تو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے ذریعے سے شرعی احکامات تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔

دوسرا اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جب چاند آنکھوں سے ہی دیکھنا ضروری ہے تو پھر دوربین کیوں استعمال کی جاتی ہے؟ تو اس اعتراض کا جواب پہلے بھی علمائے کرام دے چکے ہیں کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی شخص کی دور کی نظر کمزور ہو اور دور کی چیز کو نہ دیکھ سکتا ہو تو وہ چشمہ لگا کر دیکھے۔ اب اسے کیا کہا جائے گا کہ وہ آنکھوں سے نہیں دیکھ رہا؟ اسی طرح دوربین سے دیکھنے والا بھی آنکھ سے ہی دیکھتا ہے، دور بین تو فقط نگاہ کو تیز کرنے کا آلہ ہے۔ ہاں اگر کوئی ایسی طاقتور دوربین ہو جو افق کے پیچھے چھپے ہوئے چاند کو بھی دکھا دے تو یہ رویت معتبر نہیں ہوگی۔

جب پوری قوم رویت ہلال کمیٹی پر متفق ہے، کمیٹی علماء و مفتیان کرام پر مشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ جید علمائے کرام کا اعتماد بھی حاصل کیے ہوئے ہے اور یہ کمیٹی خود حکومت کی طرف سے بنائی گئی ہے، تو بجائے اسے متنازعہ بنانے کے اسے مزید مضبوط کرنا چاہیے اور مٹھی بھر لوگ جو اس تنازعہ کا سبب بن رہے ہیں، انہیں روکنا چاہے۔

یہاں معاملہ الٹ ہو رہا ہے کہ تنازعہ کی اصل جڑ کو مزید شہ دی جارہی ہے جبکہ متفقہ کمیٹی کو ختم کرنے اور دبانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ لہٰذا اگر پوری قوم کو ایک دن روزہ رکھوانا ہے اور ایک ہی دن عید منانی ہے تو حکومتی سطح پر اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنانے کے بجائے جو چند ایک لوگ جو اس اختلاف کی اصل وجہ ہیں انہیں روکنے کی کوشش کی جائے اور قوم کو مزید اختلاف دراختلاف کے گڑھے میں دھکیلنے سے احتراز کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں