’’آغوش اور قرضِ حسن‘‘
ہم سائنس دانوں کو اُن کا کام کرنے دیں اور خود اپنے حصے کے کام کی طرف توجہ دیں اور وہ کام آپ کے سامنے ہے۔
اگرچہ پاکستانی قوم عمومی طور پر خیرات کے معاملات میں پیش پیش رہتی ہے مگر رمضان کا مہینہ اس حوالے سے پہلے نمبر پر آتا ہے کہ عام طور پر لوگ اپنی زکوٰۃ اس کے اِردگرد نکالتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ رفاہی کام کرنے والی تنظیمیں اپنے فنڈریزنگ کے زیادہ تر پروگرام انھی دنوں میں رکھتی ہیں۔
گزشتہ برسوں میں مجھے پاکستان کے چند انتہائی نیک نام اداروں کے ساتھ اس نوع کے پروگراموں میں ملک کے اندر اور باہر شرکت کا موقع ملا ہے کہ اس بہانے تزکیہ نفس کا کچھ سلسلہ بھی بن جاتا ہے، ان اداروں میں زیادہ نمایاں نام الخدمت فائونڈیشن، اخوت ، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، سندس فائونڈیشن ، رائزنگ سن، سائٹ فائونڈیشن، فائونٹین ہائوس اور انڈس اسپتال کے ہیں، بلاشبہ ان کے علاوہ بھی بہت سے ادارے اور این جی اوز بہت اچھا کام کر رہی ہیں اور اُن کی کریڈیبلٹی بھی کسی طرح مندرجہ بالا اِداروں سے کم نہیں مگر میں اپنی بات کو اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی حد تک محدود رکھنا چاہتا ہوں کہ غائبانہ گواہی اور عینی شہادت میں بہت باریک ہی سہی کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے۔
اس بار کورونا کی وبا کی وجہ سے جہاں زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے وہاں یہ ادارے بھی بہت خطرناک مراحل سے گزر رہے ہیں کہ ایک طرف کورونا سے متعلق امدادی کاموںکے بھاری بوجھ کی وجہ سے ان کے ریزرو فنڈ بُری طرح سے متاثر ہوئے ہیں اور دوسری طرف وہ بوجوہ کوئی ایسا فنڈ ریزنگ ایونٹ بھی منعقد نہیں کر پارہے جس سے اُن کے آیندہ برس کے اخراجات کا انتظام ہوسکے بالخصوص وہ ادارے جن کے کچھ پروگرام مستقل بنیادوں پر چل رہے تھے، زیادہ مسائل ان اداروں کو درپیش ہیں جن کا تعلق یتیم بچوں کی دیکھ بھال، اُن کی تعلیم و تربیت یا جسمانی یا ذہنی طور پر معذور اورخون کی بیماریوں بالخصوص تھیلیسیمیا کے شکار بچوں سے ہے۔
میری معلومات کے مطابق خون یا فنڈز کی متوقع کمی کے باعث ان بچوں کا مستقبل شدیدخطرے میں ہے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں الخدمت فائونڈیشن دیگر بہت سے رفاہی کاموں کے علاوہ ''آغوش'' کے نام سے بہت سے ایسے ادارے بھی چلا رہی ہے جہاں ہزاروں یتیم بچے نہ صرف رہائش پذیر ہیں بلکہ بے شمار یتیم بچے ایسے بھی ہیں جن کی اُن کے گھروں پر مدد کی جارہی ہے، روایتی یتیم خانوں کے برعکس ''آغوش'' میں بچوں کو جس طرح سے رکھا اور پڑھایا جاتا ہے اور اُن کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جاتا ہے بہت سے غریب اور نچلے متوسط طبقوں کے بچوں کو ایسی سہولیات اُن کے گھروں میں بھی نصیب نہیں ہوتیں خاص طور پر مری کے نواح میں بننے والا ''آغوش'' تو اپنے ماحول، وسعت، عمارات اور بلند معیار تعلیم کی وجہ سے ایک ایسی روشن مثال ہے جو امیر، ترقی یافتہ اور باوسائل معاشروں میں بھی کم کم نظر آتی ہے، ظاہر ہے یہ سب کچھ بہت زیادہ مالی اخراجات کے بغیر ممکن نہیں کہ ان بچوں کی تمام تر ذمے داری اسی فنڈز کی مددسے پوری کی جاتی ہے جواہلِ وطن سارا سال اور بالخصوص رمضان کے مہینے میں فراہم کرتے ہیں۔
ان یتیم بچوں کے ساتھ ساتھ بچوں سے متعلق دو ایسے شعبے بھی ہیں جن کی طرف عام طور پر دھیان نہیں جاتا، ان میں سے ایک کا تعلق ان کی جسمانی ا ور دوسرے کا ایسی ذہنی صحت سے ہے جس کو برقرار رکھنے کے لیے مستقل اور مسلسل مسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ میری مراد تھیلیسیمیا اور خون کے دیگر امراض میں مبتلا بچوں اور خصوصی بچوں سے ہے جس کے لیے یوں تو بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں مگر اس ضمن میں تھیلیسیمیا کے حوالے سے سندس فائونڈیشن اور خصوصی بچوں کی دیکھ بھال کے ضمن میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی خدمات بہت زیادہ نمایاں ہیں ۔
سندس فائونڈیشن ا ور تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کی بات کریں تو سب سے پہلے ذہن منو بھائی مرحوم کی طرف جاتا ہے جنہوں نے ان بچوں کے لیے خون کی فراہمی کے مسئلے کو اس محبت، محنت، خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ اُجاگر کیا ہے کہ اب خون کا عطیہ دینا نوجوان نسل میں ایک ٹرینڈ کی شکل اختیار کر چکاہے۔
مجھے یاد ہے پنجاب کی موجودہ وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے میری اولین ملاقات بھی انھی بچوں کے حوالے سے ہوئی تھی، ا سی طرح غزالی ایجوکیشن کے دوست دور دراز کے گائوں کے اَن پڑھ اور غریب خاندانوں میں موجود ذہنی اور جسمانی معذوری کے شکار جن بچوں کی مدد اور خدمت اپنے اسکولوں کے ذریعے کر رہے ہیں، اس کی تحسین اور تقلید بھی واجب ہے کہ ایسے بچوں کے لیے تو بڑے شہروں میں بھی بہت کم ادارے کام کر رہے ہیں، یہ سب بچے کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے لاک ڈائون اور لاک ڈائون کے باعث سامنے آنے والے مسائل کے باعث آج کل سخت مشکل میں ہیں، یوں تو انسانیت کی خدمت کرنے والے چھوٹے بڑے تمام داروں کو بھی آپ کے تعاون اور مالی مدد کی ضرورت ہے مگر یہ یتیم ، بیمار اور معذور بچے سب سے زیادہ اور فوری توجہ کے مستحق اور حقدار ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام اب وطنِ عزیز تو کیا بین الاقوامی سطح پر بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ کچھ ایسے غیر معمولی اور شاندار شخص کی موجودگی کسی بھی معاشرے کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے صرف بیس سال کے کم عرصے میں بلا سود قرضوں مواخات ، تعلیم ا ور اب قرض حسنہ کی اسکیم کے حوالے سے جو کچھ کر دکھایا ہے وہ کسی بہت بڑے ادارے کے بس کی بات بھی نہیں تھی۔ میں انھیں گزشتہ تقریباً تیس برس سے ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں اُن کے ساتھ سفر بھی کیے ہیں اُن کا کام دیکھا ہے اور اُن کی باتیں بھی سنی ہیں میں بہت اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ بیک وقت ایسا نیک نیت ، باعمل ، متحرک اور بے مثال تخلیقی خیالات اور صلاحیتوں کا حامل شخص کم از کم اس وقت ہمارے درمیان ڈاکٹر امجد ثاقب کے علاوہ اگر کوئی اور ہے تو کم از کم مجھے اس کا علم نہیں اور مجھے فخر ہے کہ وہ میرے دوستوں میں سے ہیں۔
قرض حسنہ جسے قرض حسنہ بھی کہتے ہیں، ایک ایسا خوب صورت عمل ہے جس کی برکات کا شمار بھی مشکل ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی اور بات کرنے سے قبل میں مشہور گلوکار امانت علی خاں مرحوم سے منسوب ایک دلچسپ جملے کا ذکر ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ کسی لفظ کی صَوت کے ساتھ ایسا خوب صورت کھیل کسی نے کم کم ہی کھیلا ہوگا جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں قرضِ حسنہ اس نیت پر لیا دیا جاتا ہے کہ استطاعت کی صورت میں یہ واپس کر دیا جائے گا اور اگر کوئی اسے واپس نہ کرے یا نہ کر سکے تو اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ امانت خان سے پوچھا گیا کہ قرضِ حسنہ کسے کہتے ہیں؟ تو اُن کا جواب تھا ''یہ وہ قرض ہوتا ہے جسے واپس مانگیں تو لینے والا آگے سے ہنس کر دکھا دے''۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں بہت سے لوگ مجبوری کی حالت میں بھی زکوٰۃ کی رقم لیناپسند نہیں کرتے اور کچھ کے لیے یہ ویسے بھی ممنوع ہے مگر کورونا کے اس عذاب کے بے شمار سفید پوش لوگوں کو ''مفلس'' کے خانے میں ڈال دیا ہے، ایسے میں اُن کی خاموش ، باوقار اور ضروری مدد کے لیے قرضِ حسنہ کی اسکیم کے فروغ کا آئیڈیا بہت ہی بروقت اور زبردست ہے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب کے پیش کردہ دیگر آئیڈیاز کی طرح اس کو بھی بھرپور پذیرائی ملے گی اور ہم مل جل کر اپنے بے شمارسفید پوش اور غیور احباب کا ہاتھ بٹا سکیں گے ۔
کورونا کا کوئی باقاعدہ اور مستقل علاج تو انشاء اﷲ جلد یا بدیر نکل ہی آئے گا مگر ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم سائنس دانوں کو اُن کا کام کرنے دیں اور خود اپنے حصے کے کام کی طرف توجہ دیں اور وہ کام آپ کے سامنے ہے، ضرورت صرف ہم سب کے متوجہ اور متحرک ہونے کی ہے۔