چیئرمین نادرا کی برطرفی نے کئی سوالات کو جنم دے دیا

طارق ملک کو اسلیے عہدے سے ہٹایا گیا ہے کہ وہ11مئی کے عام انتخابات میں کی گئی دھاندلی کو بے نقاب کرنے والے تھے، اپوزیشن


فیاض ولانہ December 03, 2013
طارق ملک کو اسلیے عہدے سے ہٹایا گیا ہے کہ وہ 11 مئی کے عام انتخابات میں کی گئی دھاندلی کو بے نقاب کرنے والے تھے، اپوزیشن فوٹو: فائل

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بھاری مینڈیٹ یافتہ حکومت اور تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے وزیراعظم محمد نواز شریف اس اعتبار سے قسمت کے انتہائی دھنی ثابت ہوئے ہیں کہ ان کی حکومت کو درپیش اہم ترین مسئلہ یعنی دہشت گردی کے خاتمے کے معاملہ پر ملکی تاریخ میں پہلی بار تمام سیاسی قوتیں اور ابلاغ کے تمام ذرائع سے منسلک صحافی حکومتِ وقت کے ساتھ ہیں۔

محب وطن عناصر کے لیے یہ بات جہاں اطمینان بخش اور وطن عزیز کے روشن مستقبل کے لیے خوش آئند ہے، وہیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے کالے دھندے میں ملوث وطن دشمن عناصر کے لیے انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ وہ اسے دہشت گردی کی کارروائیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھ رہے ہیں اور اب حکومتی و صحافتی اتحاد کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے پیر کی شام ''ایکسپریس'' میڈیا گروپ کے کراچی آفس پر نامعلوم افراد کے بموں سے حملے اور فائرنگ اس سلسلے کی پہلی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ امن و امان کے دشمنوں کو دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کی یکجہتی اور اتحاد میں رخنہ ڈالنے کا یہی واحد راستہ نظر آیا اور انہوں نے اس پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ جیسے غیر جانبدار ادارتی پالیسی کے حامل ادارے کے خلاف دہشت اور بربریت کی یہ کارروائی کسی سیاسی جماعت کی کارروائی کم اور دہشت گرد گروپ کی کارروائی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال وزیراعظم محمد نواز شریف کی جانب سے اس حملے کی بھرپور مذمت اور وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی جانب سے نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف فوری کارروائی کے احکامات سے ''ایکسپریس'' میڈیا گروپ کے کارکنان کو اس حد تک اطمینان ہوا کہ حکومت ان کے تحفظ سے غافل نہیں۔

منگل کی صبح پارلیمنٹ میں سینٹ آف پاکستان کا اجلاس جاری تھا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ کی کال پر جہاں ملک بھر میں ''ایکسپریس'' پر دہشت گردوں کے حملے کے خلاف مظاہروں کا اعلان کیا گیا تھا، وہاں سینٹ کے اجلاس کی کوریج کرنے والے صحافیوں نے بھی مکمل اتفاق رائے سے اجلاس کی کوریج کا بائیکاٹ کیا تو وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید اور عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان صحافیوں سے اظہار یکجہتی کرنے اور انہیں پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کے لیے فوری طور پر پریس گیلری آئے۔

پھر یہی رہنما سینیٹر شاہی سید اور مسلم لیگ (ن) کے جاوید اخلاص کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر شاہراہ دستور پر پی ایف یو جے کی کال پر راولپنڈی اسلام آباد کے صحافیوں کے احتجاجی مظاہرے میں بھی شریک ہوئے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت سے بھی صحافیوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کے لیے کہے گی اور میں یقین دلاتا ہوں کہ آئین میں ضروری ترامیم کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ترامیم کے نتیجے میں ہر شہری اور ملک کا ہر صحافی انشاء اللہ محفوظ ہو گا۔



ادھر ایوان بالا میں چیئرمین نادرا طارق ملک کی ا چانک برطرفی کے معاملے پر بھی بڑی لے دے ہوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں اگر حکومت حقائق منظر عام پر آنے سے گھبرا نہیں رہی تو پارلیمنٹ کی کمیٹی بنا کر ساری صورتحال زیر بحث لائی جائے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اپوزیشن اراکین کا بہرحال الزام ہے کہ طارق ملک کو اس لیے ان کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے کہ وہ 11 مئی کے عام انتخابات میں کی گئی دھاندلی کو بے نقاب کرنے والے تھے یا اس دھاندلی پر مبینہ طور پر پردہ ڈالنے کی راہ میں رکاوٹ تھے۔

ممتاز دانشور پروفیسر فتح محمد ملک کے صاحبزادے طارق ملک نے بھی معاملے کو ہلکے نہ لیا اور فوری طور پر عدالت سے رجوع کر لیا جہاں انہیں فوری ریلیف بھی مل گیا اور ان کی برطرفی کا نوٹیفیکیشن بھی منسوخ کر دیا گیا مگر اب اس معاملے کی گرد بیٹھنا ممکن یوں نہیں کہ 11 مئی کے انتخابی نتائج کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والی تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتیں طارق ملک کی برطرفی کے حکومتی احکامات کو اتحادی دھاندلی چھپانے سے جوڑے رکھیں گی حالانکہ معاملہ تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت پیر کے روز سوا چار گھنٹے تک یوتھ بزنس لون پروگرام کے اجلاس میں جب یہ بات سامنے آئی کہ 3 دسمبر سے اس پروگرام کو لانچ نہیں کیا جا سکتا اور اس معاملے کی حقیقی رکاوٹ نادرا حکام کی جانب سے آن لائن پراسیسنگ کے انتظامات مکمل کرنے پر کوتاہی اور غفلت برتی گئی تو وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن مریم نواز شریف کا غصے سے لال پیلا ہونا فطری تھا۔

اب انتظامات مکمل کرنے کے لیے نئے اہداف مقرر کیے گئے ہیں جس کے مطابق 5 دسمبر کو جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں وزیراعظم یوتھ بزنس لون پروگرام کی افتتاحی تقریب ہو گی جب کہ 6 دسمبر سے نیشنل بنک آف پاکستان، فرسٹ ویمن بینک اور سمیڈا کی تمام برانچوں سے نوجوانوں کو ایک لاکھ روپے سے بیس لاکھ روپے کے آسان شرائط پر قرضوں کے اجراء کے فارم دستیاب ہوں گے۔ وزیراعظم نواز شریف کو یہ پروگرام اس لیے بھی زیادہ عزیز ہے کہ اس کے ذریعے ہی ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف کی عملی سیاست میں قدم رکھنے کی ابتداء بھی ہونا ہے۔

میاں نواز شریف کے دونوں صاحبزادگان حسن نواز اور حسین نواز نے اب تک کی موصولہ اطلاعات کے مطابق عملی سیاست میں حصہ لینے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی جبکہ وزیراعظم پاکستان کی صاحبزادی مریم نواز شریف عوامی خدمت کا جذبہ بھی رکھتی ہیں اور وزیراعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن کی حیثیت سے عملی طور پر پاکستان کے نوجوان کے لیے کچھ ایسا کام کر جانا چاہتی ہیں جو مدتوں یاد رکھا جائے۔ مشورہ کاروں نے اس رائے کا بھی اظہار کیا کہ مریم نواز شریف وزارت خارجہ کے معاملات میں طبع آزمائی کریں اور وہاں سے اپنی بین الاقوامی سطح پر پہچان بناتے ہوئے سیاسی میدان میں قدم رکھیں مگر مریم نواز شریف نے بہتر فیصلہ کرتے ہوئے پہلے پاکستان میں اوربالخصوص پاکستان کے نوجوانوں کے لیے عملی طور پر مثبت کام کرکے ان کے دلوں میں گھر کرنے کی راہ اپنائی۔

وزیراعظم نواز شریف بہت انتظار کے بعد آزاد کشمیر تشریف لے گئے ہیں، وہ آزاد جموں کشمیر کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے اس کے 49 ویں اجلاس کی صدارت کے لیے مظفر آباد گئے مگر کونسل کے بعض اراکین نے آزاد کشمیر بالخصوص اے جے کے کونسل میں ہونے والی مبینہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے کی ٹھان رکھی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے یہ کہنا کہ آزاد کشمیر، خیبرپختونخوا اور بلوچستان و سندھ میں عوام نے جس بھی پارٹی کو مینڈیٹ دیا اسے نہ چھیڑا جائے وہاں حکومت کرنا انہی کا حق ہے۔ یہ انتہائی مستحسن فیصلہ ہے مگر میاں صاحب کرپشن سے صرفِ نظر کا مینڈیٹ تو آپ کو بھی پاکستان کے عوام نے ہرگز نہیں دیا۔ آپ آزاد کشمیر حکومت کی مبینہ کرپشن کا فیصلہ آئندہ انتخابات تک عوام کے ہاتھ چھوڑ بھی دیں مگر آزاد جموں کشمیر کونسل میں ہونے والی بدعنوانیاں تو آپ کی توجہ کی منتظر ہیں کہ وہاں تعینات افسران ان کے اکاؤنٹس کی نگرانی اور آڈٹ پر مامور بیورو کریسی کے تعاون سے بدعنوانیوں کا جال بچھائے ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں