کھیلوں کی دنیا پر چھایا سناٹا ختم کرنے کی تدبیریں

 آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کا انعقاد ممکن بنانے کے لیے فکر مند


Mian Asghar Saleemi April 26, 2020
 آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کا انعقاد ممکن بنانے کے لیے فکر مند ۔ فوٹو : فائل

BRASILIA: وسیم خان پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں، چند روز قبل انہوں نے ٹیلی کانفرنس کی جس میں بورڈ کے اعلیٰ عہدیدار نے ملک بھر کے میڈیا کے نمائندوں کو کورونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بارے میںآگاہ کیا،کانفرنس میں وسیم خان کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ کا ایڈیشن مکمل نہ ہونے کی وجہ سے بورڈ کو کروڑوں روپے کا نقصان تو اٹھانا پڑا ہے لیکن فکر والی بات اس لئے بھی نہیں ہے کہ پی سی بی کے پاس ابھی بہت پیسے ہیں، گوروں کے دیس سے آ کر لاکھوں روپے تنخواہ اور دوسری پرکشش مراعات لینے والے وسیم خان شاید یہ نہیں جانتے کہ ''ویلے'' بیٹھنے سے تو قارون کے خزانے تک خالی ہو جاتے ہیں اور یہ تو پاکستان کرکٹ بورڈ ہے جس کی کمائی کا بڑا ذریعہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور میڈیا رائٹس کی مد میں ملنے والی رقم ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال نے دنیا بھر کے کرکٹ بورڈز کے سربراہان کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں، بی سی سی آئی کے سربراہ ساریو گنگولی خاصے پریشان ہیں کہ اگر آئی پی ایل کا سیزن ملتوی ہو گیا تو اتنے بڑے مالی خسارے کا مداوا کہاں سے کریں گے۔ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ٹام ہیریسن بھی سمجھتے ہیں کہ اگر کورونا کے سبب پورا سیزن منسوخ ہوا تو انگلش کرکٹ کی جیبوں پر اس کا خسارہ 300 ملین پاؤنڈز ہو گا۔ پچھلے چند برسوں میں کرکٹ جس تیزی سے امیر ہوئی تھی، کورونا کا حالیہ جھٹکا اسے پھر کم از کم چار پانچ سال پیچھے دھکیل سکتا ہے۔

کیونکہ اگر رواں برس جون، جولائی تک حالات میں بہتری نہیں آتی تو کیربیئن پریمیر لیگ کے ساتھ ساتھ آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا انعقاد بھی مخدوش ہوتا جا رہا ہے۔اور یہ سادہ سی بات ہے کہ اگر آئی سی سی کی آمدن کم ہوئی تو اس کے اثرات ہر رکن ملک کے بورڈ ہی نہیں، کھلاڑیوں اور ڈومیسٹک کرکٹ تک بھی پہنچیں گے۔ یہ اثرات کسی حد تک ظاہر ہونا بھی شروع ہو چکے ہیں، ویسٹ انڈین بورڈ کریبین پریمئر لیگ کے بارے فکر مند ہے اور یہ فکرمندی بجا بھی ہے کہ اگر پہلے ہی عدم استحکام کا شکار بورڈ کے فنانسز گر گئے تو اس کا ویسٹ انڈین ٹیم کی کارکردگی پہ کتنا گہرا اثر پڑے گا۔اس صورت حال کے باوجود اگر کوئی پریشان نہیں ہے تو پی سی بی کے وسیم خان ہی ہیں جن کا کہنا ہے کہ کورونا دو تین سیریز اور ڈومیسٹک سیزن نگل بھی گیا تو بھی بورڈ کی جیب میں کافی پیسے ہیں۔

اگر کورونا وائرس کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو مہلک وائرس نے حالیہ انسانی تاریخ کے بدترین بحران کو جنم دیا ہے، دنیا بھر کا پہیہ جام ہو چکا ہے، بڑی بڑی معیشتیں دیوالیہ پن کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہیں، زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح کورونا نے کھیلوں کے میدانوں پر بھی کاری ضرب لگائی ہے، بڑے بڑے عالمی مقابلے موخر ہو رہے ہیں اور بہت سے ملتوی ہو چکے ہیں، ویمبلڈن کا سیزن منسوخ ہو چکا ہے، اولمپکس ملتوی ہو چکے ہیں، فٹبال کے میدان میں بھی ایسا ہی عالم ہے اور کرکٹ کو تو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، آئی پی ایل کا میلہ بھی ملتوی کیا جا چکا ہے، اگر یہ سیزن ہی منعقد نہ ہوا تو سوچنے اور محسوس کرنے والی بات یہ ہے کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کو کتنا نقصان ہو گا۔

کورونا وائرس کی وجہ سے کرکٹ سرگرمیاں معطل ہونے پر مالی بحران کا شکار کرکٹ بورڈ نے 80 فیصد ملازمین کو وقتی طور گھر بھیجنے کا فیصلہ کر رکھا ہے، موجودہ پالیسی کے مطابق یہ متاثرین حکومتی امداد پانے والوں کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہوسکتے،ان کی نوکریوں کے لیے کرکٹ آسٹریلیا نے اپنی سپانسر کمپنی سے رابطہ کیا ہے جو سپرمارکیٹس کی ایک چین جلاتی اور نئے ورکرز کی ضرورت بھی محسوس کررہی ہے،کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹو کیون رابرٹس کا کہنا ہے کہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، تاہم ان ملازمین کی مدد کے لیے اپنے سپانسر ادارے سے بات چیت کررہے ہیں،روزگار فراہم کرنے والے اداروں سے بھی رابطہ کرکے متاثرین کے لیے کام تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے دیگر کھیلوں کی طرح کرکٹ کی سرگرمیاں بھی بدستور معطل ہیں، نشریاتی حقوق کے معاہدوں سمیت آمدن کے ذرائع بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں، ان حالات میں بیشتر کرکٹ بورڈز بھی مالی مشکلات کے شکار ہونے لگے ہیں،اکتوبر، نومبر میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کا میزبان آسٹریلیا زیادہ پریشان اور کسی طور ایونٹ کا انعقاد یقینی بنانے کیلیے مختلف امکانات پر غور کررہا ہے، تماشائیوں کے بغیر میچز کرانے پر سوچ وبچار کی جارہی ہے۔

کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹو کیون رابرٹس نے ویڈیو کانفرنس میں خالی سٹیڈیمز اور بند دروازوں میں میچز کروانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وبا کے باوجود اس بات پرغور کررہے ہی کہ ورلڈکپ میچز کو کس طرح ممکن بنایا جائے، اگر بند دروازوں کے پیچھے میچز ہوں تو ان سے زیادہ سرمایہ نہ حاصل ہو تب بھی نشریاتی حقوق سے ملنے والی آمدن سب کے لیے فائدہ مند ہوگی،آسٹریلیا آنے والوں کے لیے پہلے ہی ایئرپورٹس اور ہوٹلز میں قیام کے لیے حکومتی گائیڈ لائنز اور احتیاطی تدابیر موجود ہیں، اگر آئی سی سی اور ٹیمیں اس بات پر متفق ہوجاتی ہیں تویہ بہتر آپشن ہوسکتاہے، اس تجویز پر مزید بہت سا کام کرنا ابھی باقی ہے۔

دوسری جانب کرکٹ آسٹریلیا نے اپنی تجوریوں میں رقم کی کمی پوری کرنے کے لیے بھارت کے خلاف ٹیسٹ سیریز کو طول دینے کے لیے راہ ہموار کرنا شروع کردی ہے، اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کیون رابرٹس نے کہا ہے کہ بھارت کے خلاف سیریز سے ہمیشہ زیادہ رقم حاصل ہوتی ہے، موجودہ صورتحال برقرار رہنے پر اگر بھارتی ٹیم دورہ آسٹریلیا پر نہیں آتی تو بہت زیادہ نقصان ہوگا، کرکٹ سرگرمیاں معطل ہونے سے پہلے ہی 20 ملین ڈالرز سے زیادہ کا خسارہ ہوچکاہے، انٹرنیشنل سیزن ممکن نہیں ہوپاتا تو پھر مالی مسائل کا پہاڑ کھڑے ہوجائے گا، دسمبر، جنوری میں بھارت کے خلاف سیریز میں 5 ٹیسٹ کھیلنے کے لیے بھارتی حکام کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں،تمام میچ ایک شہر میں کروانے کا بھی سوچا جاسکتاہے، اگر حالات سازگار نہ ہوں تو بند دروازوں کے پیچھے بھی میچز کروائے جاسکتے ہیں۔

دوسری جانب آسٹریلیا کی مالی مشکلات سے قطع نظر بھارت کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے زیادہ آئی پی ایل کے انعقاد میں دلچسپی ہے۔آئی سی سی کے تحت ممبر ملکوں کے چیف ایگزیکٹوز کی آن لائن میٹنگ جمعرات کو ہوئی،12فل ممبرز اور3ایسوسی ایٹس کے نمائندے شریک ہوئے، اجلاس میں کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال میں آئندہ ہفتوں اور مہینوں کے دوران عالمی کرکٹ میں ممکنہ اقدامات کے بارے میں غور کیا گیا، تمام ارکان نے اپنی اپنی صورتحال سے آگاہ کرنے کیساتھ اپنی تجاویز بھی دیں۔

آئی سی سی کے مطابق فی الحال اکتوبر، نومبر میں آسٹریلیا میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ اور آئندہ سال ویمنز ورلڈکپ کی پلاننگ شیڈول کے مطابق جاری رکھی جائے گی،تمام بورڈز نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے کئی سیریز کھٹائی میں پڑنے کے بعد 2023 تک کے فیوچر ٹور پروگرام پر نظرثانی کرتے ہوئے اس کو ری شیڈول کیا جائے گا تاکہ تعطل کا شکار ہونے والے زیادہ سے زیادہ میچز ممکن ہوسکیں،موجودہ اور مستقبل کی آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ اور آئی سی سی ورلڈکپ سپر لیگ کا فیصلہ فی الحال موخر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئندہ دنوں میں سامنے آنے والی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ سمیت مستقبل کے ایونٹس کی تیاریوں کے لئے کھلاڑیوں کو گھروں کے اندر ہی مصروف رکھنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، پہلے مرحلے میں قومی کرکٹرز کے فٹنس ٹیسٹ مکمل کر لئے گئے ہیں، ابتدائی روز سنٹرل کنٹریکٹ یافتہ کرکٹرز حارث سہیل، محمد عباس، اسد شفیق، سرفراز احمد، شان مسعود، حسن علی، شاداب خان اور عماد وسیم نے ویڈیو کال پر آن لائن ٹیسٹ دیئے، دوسرے روز 11 قومی کرکٹرز نے جانچ کرائی، ان میں ٹی ٹوئنٹی کپتان بابر اعظم، ٹیسٹ کپتان اظہر علی، فخر زمان، محمد عامر، وہاب ریاض، محمد رضوان، عثمان شنواری اور امام الحق شامل تھے،دوسری جانب ڈومیسٹک پلیئرز کے ٹیسٹ متعلقہ ٹیموں کے ٹرینرز نے لیے ہیں، جن کھلاڑی کو مناسب جگہ دستیاب نہیں تھی ان کے لیے یویو ٹیسٹ دینا لازمی نہیں تھا، اس بار فٹنس کا معیار کم ہونے پر جرمانے بھی نہیں کئے جارہے۔

بس ٹیسٹ لینے کا فرض پورا کردیا گیا، اگلی جانچ جون میں ہوگی۔پی سی بی کی جانب سے کھلاڑیوں کے آن لائن فٹنس ٹیسٹ لیے جانے کے معاملہ پرٹیسٹ کرکٹر کامران اکمل سمیت ماضی کے بعض دوسرے کھلاڑی خفا دکھائی دیتے ہیں، کامران اکمل کے مطابق ہر دو ماہ بعد فٹنس ٹیسٹ دینا کھلاڑیوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے، چیف سلیکٹر وہیڈ کوچ مصباح الحق کو فٹنس پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے،زیادہ فٹنس ٹریننگ کرنے سے بولرز کی توانائی کم ہورہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ بیٹسمینوں کا سٹیمنا بھی ضائع ہورہا ہے،کامران اکمل کی اس تجویز میں بڑا وزن ہے، مستقبل میں کھلاڑیوں کو فٹنس مسائل سے بچانے اور پی سی بی کا خزانہ بچا کر رکھنے کے لئے بورڈ حکام کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں