اندیشے مغالطے انتشار اور غلط فہمیاں۔۔۔

نظم وضبط اور یک سوئی سے دوری ہمیں اجتماعی نقصان کی جانب لے جا رہی ہے


Rizwan Tahir Mubeen April 26, 2020
نظم وضبط اور یک سوئی سے دوری ہمیں اجتماعی نقصان کی جانب لے جا رہی ہے ۔ فوٹو : فائل

کہتے ہیں کہ کوئی بھی مسئلہ بڑا یا چھوٹا تو اپنی جگہ پر ہوتا ہے، لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت، رویہ اور حکمت عملی زیادہ اہم ہوتی ہے۔ ہمیں اگر کوئی گمبھیر مسئلہ درپیش ہو، اور اس کے لیے ہماری درست، منظم حکمت عملی ہو تو یقیناً امید کی جا سکتی ہے کہ ہم اس مسئلے سے جلد اور بہتر طریقے سے نبردآزما ہو سکیں گے، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو پھر کسی معمول کے مسئلے سے بھی صورت حال زیادہ خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ جیسا کہ 'کورونا' کے حوالے سے روز اول سے جس طرح کے رویے سامنے آرہے ہیں، لوگوں میں بہت سے خدشات، مغالطے اور غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں یا یوں کہیں کہ پیدا کی جا رہی ہیں، یہ کوئی نیک شگون نہیں ہے۔۔۔

لاک ڈاؤن کے حوالے سے ایک طرف سیاسی اور حکومتی سطح پر شش وپنج اور بد انتظامی، الزام تراشی اور مختلف 'اسٹیک ہولڈرز' میں مشترکہ حکمت عملی کے حوالے سے ٹکراؤ اور دھینگا مشتی کی سی کیفیت ہے، تو دوسری طرف عوامی سطح پر لاک ڈاؤن کے حوالے سے بہت بڑے پیمانے پر تشویش اور فکر مندی پائی جاتی ہے۔ لوگوں میں بہت زیادہ غیر یقینی ہے اور آنے والے کل پر اندیشوں کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔۔۔ وہیں کچھ حلقے سماجی روابط کے ذرایع بالخصوص 'وٹس ایپ' اور 'فیس بک' وغیرہ پر مسلسل ایسے مواد پھیلا رہے ہیں، جس میں مختلف توجیہات پیش کرتے ہوئے 'کورونا' کو 'سازش' اور 'بلاوجہ کا خوف' قرار دیا جا رہا ہے۔۔۔ ویڈیو اور دیگر سمعی وبصری مواد کے ذریعے اس پر سوالات بھی کھڑے کیے جا رہے ہیں کہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر 'کورونا' کو 'ہوّا' بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور مبینہ طور پر فلاں فلاں جگہ پر زبردستی کسی مریض کو 'کورونا' کا قرار دے کر اپنے ساتھ لے جایا گیا، یا فلاں کی رپورٹیں نہیں دی گئیں، یا غلط رپورٹیں دے دی گئیں، یا فلاں کو مرنے کے بعد زبردستی یا غلط بیانی کرتے ہوئے 'کورونا' کا مریض قرار دے دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔

یہ تمام عوامل رائے عامہ پر دو دھاری تلوار کی طرح وار کر رہے ہیں۔ عوام پہلے ہی 'لاک ڈاؤن' کے پُر پیچ مسائل میں گھِرے ہوئے ہیں، دوسری طرف اب ان میں خدشات اور خوف کے سبب جذباتی ہیجان اور بے چینی بھی پروان چڑھنے لگی ہے، جو کسی طور پر بھی مناسب امر نہیں ہے، کیوں کہ عوام کے قائل ہوئے بغیر ہم اس وبا سے نہیں نکل سکتے۔۔۔!

انہی خدشات یا مغالطوں میں تیسری چیز جو گزشتہ دنوں شامل ہوئی، وہ تھا کراچی میں 'پراسرار اموات' کا موضوع۔۔۔! جب دنیا بھر میں شہر کے شہر وبا کے سبب شدید تناؤ اور مسائل کا شکار ہیں، ایسے میں 'پراسرار' کا لایعنی خوف پھیلانا نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ چلن دکھائی دیتا ہے۔ جب ابھی ایک چیز کی تصدیق ہی نہیں ہوئی ہے، تو پھر اُس گمبھیر مفروضے کی بنیاد پر اتنی طویل خدشاتی گفتگو کرنے کا مقصد خلق خدا کو نفسیاتی مریض بنا دینے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔۔۔؟ سچ پوچھیے تو جو اعداد وشمار 'جناح اسپتال' میں طبی امداد کے لیے آتے ہوئے یا طبی امداد کے دوران جاں بحق ہونے والوں اور ایدھی سرد خانے میں لائی گئی میتوں کے جمع کیے گئے، وہ کراچی جیسے دو ڈھائی کروڑ نفوس کے حامل شہر میں قطعی طور پر اتنے زیادہ نہیں کہ جسے غیر معمولی کہا جا سکے۔۔۔! لیکن نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا کہ یہ خواہش تھی کہ کسی طرح یہ خدشہ یقین بنا کر پھیلا دیا جائے کہ یہ سارے مرنے والے کسی دوسرے مرض سے نہیں، بلکہ خدانخواستہ کورونا کے سبب ہی جان کی بازی ہارے ہیں۔۔۔

جب سوال پوچھنے والوں نے اس عرصے کا موازنہ پچھلے برس کے انہی دنوں میں سرد خانے لائی جانے والی میتوں سے کیا، تو فیصل ایدھی نے یہ بات کہی، جو قرین از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ انتقال کرنے والوں کے تناسب میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شہر میں مختلف اسپتالوں اور کلینکوں نے اپنی معمول کی خدمات مطعل کی ہوئی ہیں، جس کے سبب لوگوں کے مختلف امراض شدت اختیار کر گئے ہوں اور وہ جاں بر نہ ہو سکے ہوں۔

سرد خانے میں پچھلے برس کے مقابلے میں 'زیادہ' میتیں لائے جانے کا غلغلہ مچنا ہماری دانست میں نہایٹ غیر ذمہ دارانہ اور غیر حقیقی منظر کشی کی انتہا ہے۔۔۔ کیوں کہ وبا کے سبب یہ بات بھی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مختلف چھوٹے بڑے محلوں میں قائم 'مغسلہ' بند کر دیے گئے ہوں گے یا جو لوگ میتوں کو غسل دیتے ہیں، انہوں نے احتیاطی تدابیر کے طور پر معذرت کر لی ہوگی، تو غالب امکان ہے کہ چاروناچار لواحقین میتیں غسل وغیرہ کے لیے ایدھی کے سرد خانے لے آئے ہوں، اس پر بھی بس نہیں، پچھلے سال کے اِن پندرہ دنوں کی بنیاد پر بھی سوال کھڑا کیا جاتا ہے کہ یہ تو 2019ء کے مقابلے میں سو، سوا سو زیادہ میتیں لائی گئی ہیں۔۔۔!

یہ سب کیا ہے۔۔۔؟

پوری دنیا ایک قسم کی حالت جنگ میں ہے، اور ہم لوگوں میں آگاہی دینے، ان تک سچائی پہنچانے اور ان کے حوصلے بلند کرنے کے بہ جائے مفروضوں پر گفتگو کر کے درحقیقت ان میں خوف بانٹ رہے ہیں۔۔۔!

ایک لمحے کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ خدانخواستہ یہ اسپتال پہنچنے سے پہلے جان سے گزر جانے والوں اور ایدھی کے سرد خانے لائے جانے والوں کی وجۂ موت کورونا ہی ہے، اگر اِن کی طبی کیفیت اور سینے کے ایکسرے 'کورونا' سے متاثرہ مریض کے سینے کے ایکسرے جیسے ہیں، تو کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ اس 'مفروضے' کو عام کرنے سے پہلے ذرا سنجیدگی سے اس پر باقاعدہ طبی ماہرین کی رائے لے لی جاتی، ساتھ یہ بات بھی واضح کی جاتی کہ ایسے انتقال کرنے والوں میں سے کُل کتنے مریضوں کے ایکسرے لیے گئے، جس بنیاد پر اِن میں کورونا کا خدشہ یا اندازہ قائم کیا جا رہا ہے۔۔۔؟ اور کیا واقعی بس سانس لینے میں دشواری کی بنیاد پر آپ اِن متوفیوں کو 'کورونا' سے متاثرین کے کھاتے میں ڈال سکتے ہیں۔۔۔؟ کیا یہ اس پر گفتگو نشر یا شایع کرنے سے پہلے یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ حقائق کو حتی الامکان چھان لیا جائے اور پھر حاصل شدہ سچ کو قارئین یا ناظرین کے سامنے مناسب طور پر پیش کیا جائے۔۔۔؟

کیا یہ بہتر راستہ نہیں تھا کہ 'مفروضہ حقائق' پر خوف کے نقارے پیٹنے کے بہ جائے لوگوں میں احساس ذمہ داری اور مثبت فکر اجاگر کی جاتی۔ لاک ڈاؤن کے دوران ان کے حوصلے بلند کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جاتیں، عوام کے ذہن میں اس حوالے سے پیدا ہونے والے مغالطوں کو دور کیا جاتا، متعلقہ لوگوں تک یہ بات پہنچائی جاتی کہ اس وبا کے سبب گھروں میں بیٹھنے والے کون کون سے مسائل جھیل رہے ہیں اور انہیں کس طرح ختم یا کم کیا جا سکتا ہے۔۔۔

ماہ صیام کی آمد آمد ہے، مسلم دنیا میں یہ مبارک مہینا کس قدر اہمیت کا حامل ہے، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، اس دوران اجتماعتی عبادات محدود کرنے اور میل جول پر قدغن سے بھی لوگوں میں ایک عجیب بے چینی پنپ رہی ہے۔۔۔ یہ بہت ضروری ہے کہ اس پر اچھی طرح متوازن اور مدلل انداز میں بات کی جائے، افہام وتفہیم کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مناسب راہ دکھائی جائے۔۔۔ لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے خدشات اور مغالطوں پر اچھی طرح گفتگو کر کے ان کے تمام خوف اور بے چینیوں کا ازالہ کیا جائے۔۔۔

اس وبا میں ہمیں ایک دوسرے سے دور دور رہنا ہے، لیکن حکمت عملی کے لحاظ سے ہمیں مکمل اجتماعیت دکھانا ہے، اس کے بغیر ہم اس صورت حال سے نہیں نمٹ سکیں گے، خدارا، تمام مبلغ، مقرر، بولنے والے، لکھنے والے اور سمجھانے والے حلقے اس بات پر غوروفکر کرلیں کہ اگر ہم ایسے ہی سنی سنائی پر کان دھرتے رہے اور انتشار کی راہوں پر یوں ہی ڈانوا ڈول رہے، تو خاکم بدہن ہماری مشکلات بڑھ سکتی ہیں، آگے عید کا تہوار بھی ہے۔۔۔ باقی ہم کچھ نہیں کہہ رہے، اس صورت حال کے تناظر میں آپ خود ہی منظر بنا لیجیے۔۔۔

اللہ ہمارے حال اور کُل عالَم پر اپنا کرم فرمائے، آمین۔۔۔!

'ایک کلو آٹا' کس کس کو چاہیے؟

شہر قائد میں لاک ڈاؤن کے باعث اپنے روزگار سے محروم ہونے والوں میں امداد کی تقسیم کا سلسلہ زورشور سے جاری ہے۔ ایک طرف اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ امداد پیشہ ور لوگوں کے بہ جائے اصل مستحقین تک پہنچے۔۔۔ لیکن یہ بہت مشکل اور اہم سوال ہے کہ مستحقین کا تعین کیسے ہو کہ دینے والے کو بھی اطمینان ہو کہ وہ واقعی کسی حق دار کی مدد کر کے آیا ہے۔

ایسے ہی کسی اللہ کے بندے نے گذشتہ دنوں 'اورنگی ٹاؤن' کراچی کا رخ کیا۔۔۔ وہاں لوگوں کو بتایا گیا کہ راشن تقسیم ہونے والا ہے، یہ سن کر کافی بھیڑ جمع ہوگئی ۔۔۔۔ کچھ انتظار کے بعد انہیں بتایا گیا کہ ابھی کچھ دیر میں گاڑی آئے گی، جس کے پاس ایک ایک کلو آٹے کی تھیلیاں ہیں۔۔۔ جسے سن کر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے انتظار کی زحمت نہ کی، کہ اب ایک کلو آٹے کے لیے کون راہ تکتا رہے۔۔۔ اب صورت حال یہ تھی کہ وہاں صرف مشکل کے مارے افراد ہی باقی رہ گئے۔

جن کا کہنا تھا کہ ہمارے گھر میں تو کھانے کے لا لے ہیں، ہمیں ایک کلو آٹا بھی ملے تو ہم ضرور لیں گے۔۔۔ کچھ ہی دیر میں ایک گاڑی آکر رکی۔۔۔ اور ان لوگوں کو ایک ایک کلو آٹے کی تھیلیاں دے دی گئیں۔۔۔ جب وہ آٹا لے کر اپنے گھر گئے، تو اس میں ہر تھیلی میں 15 ہزار روپے نقد بھی برآمد ہوئے! اس طرح ایک مخیر شخص نے اپنی مدد کے لیے کام یابی سے حقیقی مستحق کو ڈھونڈنے میں کام یابی حاصل کر لی!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں