لاک ڈاؤن ڈونلڈ ٹرمپ اپنا ووٹ بینک بڑھانا چاہتے ہیں
کاروباری طبقے کے لیے قرض کی مد میں دی جانے والی رقم کم نکلی
مضمون نگار طویل عرصے تک پاکستان میں صحافتی ذمے داریاں سرانجام دینے کے بعد 2000ء سے امریکا میں مقیم ہیں۔ ان کی یہ مختصر تحریر کورونا کے شکار امریکا کی صورت حال کی تصویر پیش کر رہی ہے۔
امریکا میں حکومت کی جانب سے جاری لاک ڈاؤن میں مزید توسیع کو روکنے کے لیے کئی ریاستوں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ مشی گن اسٹیٹ میں لوگ اپنا لائسنس یافتہ اسلحہ لے کر مظاہرہ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ ٹیکساس اور انڈیانا میں بھی مظاہرہ کیا گیا اور مظاہرین لاک ڈاؤن کو یکم مئی سے قبل ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکا میں اس وائرس سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا کے سابق وزیر خزانہ پال اونیل بھی اس وائرس سے ہلاک ہوگئے۔ یہ وائرس اب نیو یارک اور دیگر بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں اور ٹاؤن میں بھی پھیلنے لگا ہے۔ امریکا میں اب تک 38 ہزار افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر غریب اور ڈیلی ویجز طبقہ ہو رہا ہے، چھوٹے کاروبار بھی تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ لوگوں کی جانب سے اسلحہ خریدنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، لوٹ مار اور چوری کی وارداتوں میں حیرت انگیز حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ شہری خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ 1200 ڈالر ہر امریکی شہری کے اکاؤنٹ میں آنا شروع ہوگئے ہیں، مگر یہ امداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، یہاں 3 سے 4 افراد پر مشتمل ایک گھرانے کا خرچہ کرایہ وغیرہ ملا کر کم ازکم 5 ہزار ڈالر ماہانہ بنتا ہے۔ امریکا میں لوگوں کی اکثریت گھروں میں کھانا نہیں بناتی، بلکہ باہر کھانے کو ترجیح دیتی ہے اس معاشرے میں کھانا پکانا یا بچے کا 'ڈائپر' تبدیل کرنا صرف عورت کی ذمے داری نہیں، بلکہ مرد بھی اس میں برابر کا حصہ ڈالتے ہیں، اسی لیے یہاں پیسہ کمانا بھی صرف مردوں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ عورتیں بھی ملازمت کر کے پیسہ کماتی ہیں۔
یہاں کی عورت مظلوم بن کر کسی ظالم شوہر کے ساتھ زیادہ عرصہ نہیں گزارتی بلکہ وہ برسر روزگار ہونے کی وجہ سے خود علیحدگی اختیار کرلیتی ہے اور اپنی زندگی ہنسی خوشی اکیلے گزارتی ہے، مگر اس لاک ڈاؤن کے باعث ازدواجی مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ لوگ باہر نکلنا شروع ہوگئے ہیں، سب سے زیادہ ضرورت انہیں باہر کے کھانوں کی ہے، دوسرا بڑا مسئلہ سماجی دوری کا ہے، یہ لوگ آپس میں یعنی رشتہ داروں سے تو ویسے بھی بہت کم ملتے جلتے ہیں، ان کا سماجی دائرہ زیادہ تر باہمی شوق ہوتا ہے یعنی اگر آپ ''بار'' جانے کے شوقین ہیں، تو آپ زیادہ تر ایسے لوگوں میں بیٹھتے ہیں جو ''بار'' جاتے ہیں یا وہاں آپ کے ساتھ شراب نوشی میں شریک ہوتے ہیں، آپ اپنے دل کی تمام باتیں، قصے کہانیاں وہاں پر شیئر کرتے ہیں یا آپ شکاری ہیں یا کچھ اور... بہرحال اپنے ہی جیسوں کی صحبت میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔
اس لاک ڈاؤن اور سماجی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں منشیات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے اور اس لاک ڈاؤن کے دوران منشیات کی زیادتی کی وجہ سے متعدد اموات بھی واقع ہو چکی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ بتدریج چند ریاستوں میں جہاں اس وائرس سے اموات کا تناسب کم رہا ہے لاک ڈاؤن کے سلسلے کو کم کرتے جائیں گے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے چھوٹے کاروبار تباہی کی طرف جا رہے ہیں، کاروبار بند پڑے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ چھوٹے کاروباری طبقے کے لیے قرض کی مد میں دی جانے والی رقم ضرورت سے کم نکلی اور یہ اعلان کے ایک ہفتے میں ہی ختم ہوگئی۔
اب تک صرف 10 سے 20 فی صد چھوٹے کاروباروں کو قرض فراہم کیا جا چکا ہے، باقی لوگ حکومت سے مزید قرض کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اگر بل گیٹس کے کہنے کے مطابق لاک ڈاؤن میں اگست یا ستمبر تک توسیع کی گئی تو امکان ہے کہ عوام سڑکوں پر آجائیں گے۔ ٹیکساس میں مظاہروں کے دوران ایک شخص نے تو یہاں تک کہا کہ اگر اس وائرس کا خطرہ موجودہ صورت حال سے 10 گنا زیادہ بھی ہوتا تو وہ گھر میں رہنے کو ترجیح نہیں دیتا، یہ ہماری آزادی کے خلاف ہے۔ لوگوں کی ایک خاموش اکثریت خصوصاً 50 سال سے زائد عمر کے شہری لاک ڈاؤن کے زبردست حامی ہیں اور وہ گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹر مپ لاک ڈاؤن کی مخالفت کر کے اپنا ووٹ بینک بڑھانا چاہتے ہیں اور اسی لیے انہو ں نے اپنی ہی پارٹی سے وابستہ نیو یارک کے گورنر کو شکا یتو ں سے ذیادہ اپنے کام پر تو جہ دینے کی ہدایت کی ہے، کیوں کہ یہ گورنر لاک ڈاؤن میں نرمی کے سخت مخالف ہیں۔