جڑ اکھاڑیئے شاخیں نہ کاٹیے

پاکستان خراب نہیں تھا بلکہ گندی، بدبو دار اور کثافت زدہ سوچ نے اس صاف جڑ کو آلودہ کردیا


راضیہ سید April 30, 2020
معاشرتی نہیں انفرادی سوچ بدلیے۔ جڑ کو درست کیجیے، شاخیں خود بخود درست ہوجائیں گی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مجموعی معاشرتی رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت کے بھاشن تو ہم روز ہی سنتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ دیکھتے نہیں کہ اس ہجوم کی سوچ کے پیچھے ہمارا انفرادی رویہ چھپا ہوا ہے۔ بچپن سے ہمیں یہ تربیت دی جاتی ہے کہ کسی پیڑ کی شاخیں بڑھ گئی ہیں انہیں کاٹ دو یا کم کر دو۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ جڑ کی گوڈی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

برائی کی جڑ کو اکھاڑنے کی ترغیب کم کم ہی دی جاتی ہے لیکن سماج دشمن کرداروں کی کردار کشی کرنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگایا جاتا۔

مظلوموں اور لاچاروں کی مدد کرنے والے ایدھی صاحب کی خدمات کا اعتراف کرنے والے بہت ہیں۔ لیکن ان کو ناجائز بچوں کو پالنے والا کہنے والے بھی کم نہیں کہ انھوں نے تو ایدھی سینٹرز میں ایسے بچوں کی پرورش کےلیے جھولا رکھا ہوا ہے جبکہ ایدھی تو معاشرے کے ایک روشن پہلو کا نام ہے، لوگ ان کو برا کیوں نہیں کہتے جو ایسے ناجائز اور غیر اخلاقی کام کرتے ہیں۔ یہ وتیرہ ہی بن چکا ہے کہ برائی کو کچھ نہ کہو اور اچھائی کرنے والے ہی کو قابل نفرت بنا دو۔

ایک نشئی، چرسی اور افیمی بہت آسانی سے پولیس کے ہتھے بھی چڑھتا ہے مار بھی کھاتا ہے، گھر والوں کے طعنے بھی سنتا اور معاشرے کی نفرت کا سامنا بھی کرتا ہے۔ دوسری طرف منشیات بنانے، ان کی اسمگلنگ کرنے والے مافیاز کو روکنے والا کوئی قانون نظر نہیں آتا۔ یہاں بھی جڑ کو نہیں اکھاڑتے بلکہ شاخوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

نئی نسل کو بے راہ روی کے طعنے ملتے ہیں کہ یہ مخرب الاخلاق حرکات کر رہی ہے، ہر وقت موبائل پر مصروف ہے۔ نوجوانوں کو چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں لیکن یہ نوٹ نہیں کیا جاتا کہ نت نئے موبائل، لیپ ٹاپ اور دیگر آلات کس نے لے کر دیئے ہیں؟ یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ آپ کے گھر میں آپ کے اپنے والدین کے ساتھ کیا تعلقات ہیں، محلے والوں کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھا گیا ہے۔

ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو شاید صبح سے دیتے دیتے شام ہو جائے۔ ہم رشوت لینے والے کی مخالفت کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ محنتی بندے کی کوئی قدر نہیں ہو رہی۔ اسے اچھی تنخواہ نہیں مل رہی اور پھرجب وہ کرپٹ بن گیا ہے تو اسے لتاڑا جا رہا ہے۔

ذخیرہ اندوزوں کو کوئی برا بھلا نہیں کہتا۔ ہاں بیچارے معمولی جنرل اسٹورز بند کروائے جاتے ہیں، چھوٹے دکان داروں کو قیمتیں کم کرنے کو کہا جاتا ہے۔ بجلی چوری کرنے والے کبھی قابل مذمت نہیں بنتے، ہاں صارفین اگر وقت مقررہ پر بل نہ دیں تو ان پر بھاری سرچارج، لائن رینٹ اور پتا نہیں کون کون سے ٹیکس لاد دیئے جاتے ہیں۔

کسانوں کو نہ آب پاشی کے نئے طریقے سکھائے جاتے ہیں نہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں نہ زمیندارانہ نظام کو ختم کیا جاتا ہے اور فصل خراب ہونے کا خمیازہ بھی بے چارہ دہقان برداشت کرتا ہے۔

دہشت گردوں کی تو تصویریں اخبارات میں لگتی ہیں، ان کے ساتھ پولیس مقابلے بھی ہوتے ہیں لیکن اسلحہ کون بناتا ہے؟ ان کے گریبانوں تک تو آپ ہاتھ بھی نہیں ڈال سکتے۔

عوام سے کہتے ہیں کہ ملاوٹ والی چیزوں کا بائیکاٹ کرو، سڑکوں پر نکلو، احتجاج کرو، ٹائر جلاؤ، نااہل حکومت کا احتساب نہیں ہوتا۔

ملاوٹ کرنے والوں کا دامن صاف رہتا ہے، احتجاج کروانے والے اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں۔ قرضہ لینے والی حکومتیں باہر بھاگ جاتی ہیں اور نئے آنے والے حکمران اگر معاشی مشکلات کا بیانیہ جاری کرتے ہیں تو ان پر تنقید کی جاتی ہے۔

معاشرے میں زنا کرنے والوں اور غیر اخلاقی حرکات کرنے والوں کی باز پرس ہوتی ہے، ہونی بھی چاہیے، لیکن نکاح کے اسباب پیدا نہ کرنے والوں سے کچھ نہیں پوچھا جاتا۔

یہ سب اس لیے ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی جان چکا ہے کہ دھونس، رعب اور بدتمیزی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوگا۔ اپنے سے بڑوں کے ساتھ برا سلوک کرکے، ان سے بے ادبی سے پیش آکر اپنا مقصد نکالنے میں کوئی حرج نہیں۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی سے یہ سب کہا جائے تو وہ کہتے ہیں کیا کریں جی ہم بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہمیں تو اس معاشرے میں اسی سسٹم کے تحت رہنا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اگراپنی برائیوں کو چھپانا ہو تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں تو یہ ہو گا ہی کیونکہ یہ پاکستان ہے۔

یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ پاکستان تو خراب نہیں تھا، اسے کس نے خراب کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گندی، بدبو دار اور کثافت زدہ سوچ نے اس صاف جڑ کو آلودہ کر دیا۔

ہم آج سسٹم کو برا کہتے ہیں، برائیوں کو پسند نہیں کرتے۔ دوسری طرف ہٹ دھرمی، ناانصافی، لاقانونیت، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، فحاشی، دھوکہ بازی، رشوت اور دیگر غیر اخلاقی حرکات کی جڑوں کو پانی اور کھاد بھی مہیا کی جا رہی ہے۔ اس جڑ کو تقویت پہنچائی جا رہی ہے۔

معاف کیجیے گا، معاشرتی نہیں انفرادی سوچ بدلیے۔ جڑ کو کاٹیے، شاخیں خود بخود درست ہوجائیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں