کورونا سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات
وفاق کے احساس پروگرام اور سندھ کے راشن تقسیم کے پروگرام پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں
کورونا نے دنیا بھر کی صحت، معیشت اور معاشرت کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے، مضبوط معیشت اور مسائل و اسباب کے حامل ممالک میں اس کی تباہ کاریاں بھی نسبتاً زیادہ ہیں جب کہ غریب ممالک اس کے ایک جھونکے سے ہی جان بہ لب ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں اس کے اثرات نے ملک کے کاروبار، معیشت اور معاشرت کو تل پٹ کرکے رکھ دیا ہے۔
کچھ لوگ خوف کے خول میں پناہ گزیں ہیں جب کہ کچھ لوگ بوجہ اس کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، البتہ یہ حقیقت ہے کہ معیشت کو شدید دھچکا پہنچنے کی وجہ سے تاجروں اور صنعتکاروں سے لے کر نائی، دھوبی، موچی، چھابڑی والے، فوڈ اور ڈاک ڈلیوری کرنے والے، ٹیلی فون سمز اور دیگر اشیا فروخت کرنے والے، دکانوں، چھوٹے موٹے کارخانوں اور فٹ پاتھوں پر کام کرنے والا لاتعداد شعبوں سے متعلق افراد جو عزت اور خودداری کے ساتھ جسم و جان کا رشتہ قائم رکھے ہوئے تھے اور کسی سے خیرات و امداد لینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں ان پر عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے۔ ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے لازمی سروسز کے حامل افراد اور سرکاری، عدالتی اور پابندی میں مستثنیٰ افراد کو بھی شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔
وفاق کے احساس پروگرام اور سندھ کے راشن تقسیم کے پروگرام پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی کی جانب سے ایک دوسرے پر سنگین الزامات اور تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ تقسیم کے عمل میں مستحقین کی عزت نفس مجروح کی جا رہی ہے۔ امداد کے حصول میں شہری دھکم پیل اورپولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔ امدادی رقوم میں کسی کٹوتی کی شکایات بھی آرہی ہیں۔ دھوکا باز پیداگیر عناصر امداد کے نام پر سادہ لوح شہریوں کو امدادی فارموں اور نام رجسٹرڈ کرنے کے بہانے لوٹ مار کر رہے ہیں ،ایسے واقعات پر درجنوں ایف آئی آر بھی کٹ چکی ہیں۔
مصیبت اور ناگہانی وبا کی اس صورتحال میں مخیر اور خدا ترس شہریوں اور کچھ فلاحی تنظیموں کی کاوشیں لاحق صد تحسین ہیں جو احسن طریقے سے مستحقین تک امداد پہنچا رہی ہیں اگر حکومت الخدمت فاؤنڈیشن، چھیپا، سیلانی اور عالمگیر ٹرسٹ جیسے اداروں اور ملک بھر میں پھیلی مساجد کے اماموں اور انتظامی کمیٹیوں کی سرپرستی اور معاونت کے ذریعے امدادی سامان کی تقسیم نیٹ ورک کا استعمال کرے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ امداد کا سلسلہ بڑی حد تک کرپشن اور شکایات سے پاک ہو جائے گا دور دراز علاقوں تک مستحقین افراد تک بلاامتیاز امداد پہنچ سکے گی۔
حکومت کو تین چیلنجز کا سامنا ہے پہلا کورونا کی وبا پر قابو پانا،دوسرا ملکی معیشت کو تباہی سے بچانا اور تیسرا لاک ڈاؤن کے دوران شہریوں کو درپیش معاشی و سماجی مسائل کا فوری تدارک کرنا جس کے لیے صلاحیت، اخلاص نیت، دیانتداری اور بیدار مغز ہونا بنیادی ضرورت ہے۔ وقتی، عجلتی و نمائشی اور غیر حقیقت پسندانہ سیاسی اقدامات مسائل کو مزید پرپیچ کرسکتے ہیں جن کا مستقبل میں سدباب کرنا بے حد مشکل ہو جائے گا۔ موجودہ صورتحال میں وفاقی حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے ایک پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت تعمیراتی شعبے کو صنعت کا درجہ دیا جا رہا ہے عندیہ دیا گیا ہے کہ اس شعبے میں فکسڈ ٹیکس ہوگا۔
گھر خریدنے والوں پر کیپیٹل گین ٹیکس نہیں لگے گا، سیل ٹیکس میں کمی لائی جائے گی تعمیراتی شعبے میں پیسہ لگانے والوں سے آمدن نہیں پوچھی جائے گی اسی سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا گراف بلند ہوگا جو لاکھوں افراد کے روزگار کا ذریعہ بنے گا نیز حکومت نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے 30 ارب کی سبسڈی بھی دے گی۔ بلڈرز و ڈویلپرز کی تنظیم آباد نے اس پیکیج پر بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے تعمیراتی شعبے میں شفافیت آئے گی، حکومت کے ریونیو میں اضافہ ہوگا، شعبے میں سرمایہ کاری بڑھے گی، گھروں کی قیمتوں میں کمی آئے گی، لیکن دوسری جانب ماہرین اس پیکیج پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
ایک کاروباری شخصیت کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کی چھوٹ اور ذرائع آمدن نہ پوچھنے کا استثنیٰ جائیداد کے خریداروں کے لیے ہونا چاہیے تھا بلڈرز اور ڈویلپرز کے لیے نہیں۔ لوگ اپنا کالا دھن وہاں لگا دیں گے یہ زیادہ بدنامی کا باعث بنے گا۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ یہ تعمیراتی پیکیج دراصل ایک ایسی ایمنسٹی اسکیم ہے جس میں کچھ جرمانہ بھی ادا نہیں کرنا پڑے گا شرح سود 15 فیصد رکھی گئی تو کون نیا گھر خریدنے آئے گا، شرح سود 7 فیصد ہونی چاہیے جو انڈسٹریز میں سرمایہ کاری کے لیے رکھی گئی ہے۔ لاکھوں تاجر بھی فکسڈ ٹیکس کا مطالبہ کر رہے تھے اس کے لیے ہڑتالیں بھی کیں مگر ان کا مطالبہ نہیں مانا گیا ۔
پی ٹی آئی کی حکومت کڑے احتساب اور لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے کے دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی مگر پچھلے سال اس حکومت نے ایک ایمنسٹی اسکیم دی تھی ۔ لہٰذا حکومت کو ان تحفظات کو مدنظر رکھنا چاہیے، اب وفاقی حکومت ذخیرہ ا ندوزی کے تدارک کے لیے جو آرڈیننس تیار کر رہی ہے جس میں ذخیرہ اندوزی کا 50 فیصد ضبط کرنے، 10 فیصد نشاندہی کرنے والے کو دینے اور 3 سال تک قید کی سزا رکھنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ اس کا اطلاق صرف اسلام آباد تک رکھا گیا ہے حالانکہ اس کا دائرہ پورے ملک پر محیط ہونا چاہیے۔
سندھ حکومت نے ایمرجنسی ریلیف کے تحت کرایہ داری سے مطابق آرڈیننس کا مسودہ تیار کیا ہے اس میں کرایہ داروں کو ریلیف دینے کے ساتھ ساتھ بجلی، گیس، پانی کے بلز معاف کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اس میں بھی کافی تضادات و ابہام پائے جاتے ہیں۔ جو مشکلات و تنازعات پیدا کریں گے مالکان اور کرایہ دار ابھی سے الجھنا شروع ہوگئے ہیں۔
مثلاً یہ کہ کرایہ معطل ہوگا یا معاف اگر معطل ہوگا تو کتنے عرصے کے لیے اور بعد میں اس کی ادائیگی کی صورت کیا ہوگی؟ اگر معاف ہے تو کرایہ کی رقم حکومت ادا کرے گی یا مالک برداشت کرے گا؟ جب کہ کرایہ داری کی جائیداد میں خاصا حصہ ایسے افراد کا بھی ہے جو معذور، بزرگ یا بیوہ و یتیم ہونے کی وجہ سے کرایہ کی آمدنی پر ہی گزارہ کرتے ہیں اور جو کورونا کی وبائی صورتحال میں پلے ہی بری طرح متاثر ہیں۔ وفاقی حکومت کے ابتدائی اندازے کے مطابق کورونا بحران سے ڈھائی کھرب کا نقصان ہو سکتا ہے اور کاروبار کی بندش سے پونے دو کروڑ محنت کش اور ملازمت پیشہ لوگوں کے روزگار سے محروم ہونے کا خدشہ ہے ۔
سابق گورنر اسٹیٹ بینک شاہد کاردار کے مطابق لاک ڈاؤن اور بے روزگاری کی وجہ سے مزید ڈیڑھ کروڑ شہری خط غربت سے نیچے آسکتے ہیں۔ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ارباب اقتدار اس قسم کے اقدامات اور قانون سازی کریں جن سے ملکی معیشت کو مزید بدحال ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ عوام کی پریشانیوں اور فلاح کا بھی خیال رکھا جائے اور صحت اور امداد کی مختص رقوم کے پیسے پیسے کا صحیح استعمال ہو۔ بے سوچے سمجھے عجلتی اقدامات نہ اٹھائیں جن کا خمیازہ ملک و قوم کو مدتوں بھگتنا پڑے۔