فضائی آلودگی میں کمی سے ہزاروں بچے اور بزرگ موت کے منہ سے لوٹ آئے

کرونا وباء سے ہلاک ہونے والوں کی اکثریت بھی پہلے سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھی جس کی ایک وجہ آلودگی ہے


کرونا وباء سے ہلاک ہونے والوں کی اکثریت بھی پہلے سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھی جس کی ایک وجہ آلودگی ہے ۔ فوٹو : فائل

چند روز پہلے ایک رات میں کمرے سے باہر نکلا ، آسمان کی طرف دیکھا، صاف شفاف آسمان پر پہلے سے کہیں زیادہ روشن چاند چمک رہا تھا، اس قدر شفاف چاند کہ اس میں بوڑھی اماں چرخہ کاتتے بھی دکھائی دی حالانکہ میں اس سے دوکروڑ50 لاکھ میل (چار کروڑ کلومیٹر) دورکھڑا تھا اور ایک ایسے شہر میں تھا جو بذات خود روشنیوں میں نہا رہا تھا۔ مجھے چٹانیں بھی نظر آرہی تھیں اور بڑے بڑے گڑھے بھی۔

چاند کے اردگرد موجود ستارے بھی خوب روشن تھے۔ چاند اور ستاروں کو اس قدر چمکتا دمکتا بچپن ہی میں دیکھا تھا جب گاؤں والے گھر کے صحن میں بچھی چارپائی پر لیٹا، آسمان کو دیکھا کرتا تھا۔ میرے بستر کی سفید چادر بھی چاندنی میں نہائی خوب چمکا کرتی تھی۔ پھر جب شہر آئے تو جیسے چاند اورستارے بجھ سے گئے۔ اکتیس برس لاہور میں گزار کر اسلام آباد جیسے نسبتاً صاف ستھرے شہر میں آن بسا تو ایسے لگا جیسے چاند میرے اس فیصلے سے خوش ہوا ہو،کم ازکم اس کے صاف وشفاف ، روشن چہرے سے مجھے یہی محسوس ہوا۔

تاہم یہاں آکر بھی مصروف زندگی نے مجھے کبھی سراٹھانے اور چاند کی طرف دیکھنے نہیں دیا۔ صبح سرجھکائے دفتر جانا، شام کے بعد سرجھکائے گھر آنا اور پھر کمرے سے کم ہی باہر نکلنا۔ جب کورونا وائرس کے نتیجے میں ساری دنیا لاک ڈاؤن ہوئی تو طویل عرصہ بعد جی بھر کر روشن چاند ستاروں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ مجھے خوشی سے نہال نظر آئے۔ پھر انھوں نے مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد دلایا:

حُسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے

ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن

میں یہ شعر سن کر خوب شرمسار ہوا۔ شہرواقعی اچھے نہیں ہوتے بالخصوص وہ شہر جو حسن بے پروا پر نقاب ڈال دیں، وہ ملک بھی اچھے نہیں ہوتے جو انسانوں ، چانداور ستاروں کے درمیان دھویں کی چادر تان دیں۔

ہمیں جس زمین پر رہنے کا ایک موقع دیاگیا، جی ہاں! صرف ایک موقع، اس زمین پر تادم تحریر کورونا وائرس سے ایک لاکھ60 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، ان میں 47 فیصد کی عمر 75برس سے زائد تھی، 24.6 فیصد کی عمر 65 سے 74 برس کے درمیان تھی، 23.1 فیصد کی عمر 45 سے 64 برس کے درمیان تھی۔ مرنے والوں میں مردوں کی شرح 61.8 فیصد تھی اور عورتوں کی 38.2 فیصد۔ان میں سے بہت سے ایسے تھے جو پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ ان لوگوں کو بیمار کرنے میں فضائی آلودگی کا کردار سب سے اہم رہا ہو گا۔

دنیا میں ہرسال 17لاکھ 60 ہزار افراد پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلاہوکر جاں بحق ہوتے ہیں۔یہ تعدادکسی بھی کینسر سے ہلاک ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں پھیپھڑوں کے کینسر کو سب سے زیادہ ہلاکت خیز کینسر کہا جا سکتا ہے۔ دنیا میں 33کروڑ40لاکھ افراد سالانہ ایستھما میں مبتلا ہوتے ہیں، ان میں 15فیصد بچے ہوتے ہیں، اس شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 40لاکھ افراد سانس کی بعض دیگر بیماریوں اور نمونیا کے سبب ہلاک ہوتے ہیں۔ ہر ایک منٹ میں پانچ سال سے کم عمر کے دو بچے نمونیا کے سبب جاں بحق ہوتے ہیں۔ نمونیا کی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں میں 2 برس سے کم عمر بچوں کی شرح 80 فیصد ہے۔99فیصد اموات اوسط آمدن یا اس سے کم آمدن والے معاشروں میں ہورہی ہیں۔ انتہائی چھوٹے بچوں اور بڑے بزرگوں میں زیادہ تر اموات نمونیا کے سبب ہی ہوتی ہیں۔1964ء کے بعد اب تک 25لاکھ افراد دوسروں کی تمباکو نوشی کے دھویں کے سبب بیماری میں مبتلا ہوکر جاں بحق ہوئے۔

ہرسال 42لاکھ افراد گھرسے باہر، فضائی آلودگی کے سبب بیمار ہوتے اور موت کے گھاٹ اترجاتے ہیں۔ اور دنیا کی91 فیصد آبادی غیرصحت مند ماحول میں سانس لیتی ہے۔اس حوالے سے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک زیادہ نمایاں ہیں۔ مثلاً انگولا، باہماس، کمبوڈیا، کانگو، مصر، گھانا، لٹویا، نائجیریا اور شام ۔ ان اعداد و شمار کے بعد مزید کسی لیکچر کی ضرورت نہیںکہ ہمیں کیسے زندگی بسر کرنی چاہئے؟ ہاں! صحت کے اس ہلاکت خیز بحران( کورونا وائرس) سے کچھ سبق ضرور سیکھنے چاہئیں۔

اب تک کی معلومات کے مطابق یہ زمین ہی واحد دنیا ہے جہاں زندگی ممکن ہے۔اس کے علاوہ کوئی دوسری دنیا نہیں جہاں نوع انسانی نقل مکانی کرسکے۔ اسی زمین پر ہم ٹھہر سکتے ہیں چاہے ہم یہاں رہنا پسند کریں یا نہیں۔ اسی زمین پر ہمیں رہنا ہے چاہے ہم صحت مند ماحول میں رہ کر زندگی سے لطف اندوز ہوں یا غیرصحت مند ماحول میں رہ کر تڑپ تڑپ کر مریں۔

اس وقت غیرارادی طور پر پوری دنیا ایک مختلف تجربے سے گزر رہی ہے۔کرونا وائرس کی وبا نے تمام تر صنعتی سرگرمیاں ختم کردی ہیں، اب فضاؤں میں جہاز بھی نہیں اڑ رہے ، گاڑیاں بھی بہت کم ہیں، نتیجتاً ان سے نکلنے والا دھواں بھی اسی قدر کم ہے۔ شہروں کی فضائی آلودگی میں بھی بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ فضائی آلودگی ہی تھی جس نے دنیا میں سانس کی بیماریوں میں کئی گنا اضافہ کیا، اسی وجہ سے اب لاکھوں افراد شدید بُرے اثرات بھگت رہے ہیں۔ کورونا وائرس نے ایسے لوگوں کو زیادہ پکڑا ہے جو پہلے ہی سے سانس کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔

تاہم اب کورونا وائرس کے سبب فضا بہت زیادہ صاف و شفاف ہوچکی ہے، ایسا عشروں بعد ہواہے۔ چین میں گزشتہ دو ماہ کے دوران کم ہونے والی فضائی آلودگی کے باعث ، ایک اندازے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر 4000 بچے اور 70سال سے زائد عمر کے 73000 بزرگوں کی زندگیاں بچ گئیں۔ ایسا اس وقت ہوا ہے جب دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بھی گرگیا ہے۔ جنوری، فروری 2020ء میں چین کی انڈسٹریل آؤٹ پٹ گزشتہ برس انہی دو مہینوں کی نسبت 13.5فیصد کم ہوگئی ہے۔ یہ جنوری 1990ء سے اب تک، تیس برسوں کے دوران میں سب سے کم آؤٹ پٹ ثابت ہوئی ہے۔تاہم جیسے ہی وبا کا خاتمہ ہوگا، معیشتوں کو دوبارہ سے کھڑا کیا جائے گا، نقصان پورا کرنے کے لئے صنعتی سرگرمیاں کئی گنا تیزی سے شروع کی جائیں گی۔ ایسے میں نئی صورت حال سے کیسے نمٹنا ہے، موجودہ کافی حد تک صاف ماحول کو کیسے برقرار رکھنا ہے، یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے لئے ابھی سے سوچنا چاہئے اور اسی کی مطابق اقدامات کرنے چاہئیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کورونا کے بعد ماحول کو کم سے کم آلودہ کیا جائے۔

صاف ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے کیا اقدامات ہوسکتے ہیں؟

یادرہے کہ ماحول کو آلودہ کرنے والے اہم ترین عوامل میں گردوغبار کے طوفان، جنگلات میں آتش زدگی کے واقعات، تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی شامل ہے ۔بالخصوص جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے شہروں میں آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔یہاںکھیتوں میں فصلوں کی باقیات کو کھلے عام جلایا جاتا ہے۔ اسی طرح زرخیز زمین کا صحرا میں تبدیل ہونا، مشرق وسطیٰ اور مغربی چین میں ریت کے طوفان بھی فضائی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔

فضائی آلودگی کے بعض اسباب کو ختم کرنا یا کم کرنا انسانی اختیار میں ہے، ان پر توجہ دینے اور روک تھام کی کوششوں کو مزید تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اب تک ماحول کو صاف رکھنے کے لئے جو چند کامیاب اقدامات کیے گئے ہیں، ان میں ایک بڑی کامیابی دنیا میں ماحول کی آلودگی کومانیٹر کرنے کا انفراسٹرکچر بننا ہے۔ اب کورونا وائرس کے تناظر میں شاید لوگوں کو احساس ہو کہ ماحول کو صاف رکھنا کتنا ضروری ہے، کاش! ایسا ہوجائے، اگرچہ اس سے پہلے حکومتوں اور لوگوں پر ایسے اعدادوشمار کوئی خاص اثرات مرتب نہیں کرتے تھے کہ دنیا بھر میں کتنے زیادہ لوگ فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔

2019 ء میں ، چین نے اپنے ہاں ماحول کی آلودگی کو 9 فیصد کم کیا، واضح رہے کہ 2018ء میں یہاں فضائی آلودگی میں12فیصد کا اضافہ ہواتھا۔گزشتہ برس بیجنگ دنیا کے 200 آلودہ ترین شہروں کی فہرست سے باہر ہوگیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین کے98 فیصد شہروں میں عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی پرواہ نہیں کی جاتی اور 53 فیصد چینی شہروں کی زندگی چین کے اپنے اہداف کے مطابق نہیں ہوسکی۔ تاہم مندرجہ بالا اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ چین ماحول کو صاف بنانے کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کررہاہے اگرچہ بعض مغربی طاقتیں اس باب میں چین پر کڑی تنقید کرتی رہتی ہیں۔

اس وقت بھارت اور پاکستان کے شہر دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل ہیں۔سب سے زیادہ گندے 30شہروں میں سے 21 شہر بھارت کے ہیں جبکہ پانچ کا تعلق پاکستان سے ہے، ان میں گوجرانوالہ اور پشاور بھی شامل ہیں۔ بھارت کے شہروں میں آلودگی کم ہوئی ہے تاہم اس کا تعلق ماحولیات سے متعلق حکومتی اقدامات سے نہیں بلکہ اقتصادی سست روی سے ہے۔ تاریخ میں پہلی بار انڈونیشیا کا دارالحکومت جکارتہ اور ویت نام کا دارالحکومت ہنوئی کا تذکرہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں چین کے دارالحکومت بیجنگ سے پہلے آرہا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے پہلے سب سے زیادہ آلودہ دس ممالک بالترتیب بنگلہ دیش، پاکستان، منگولیا، افغانستان، بھارت، انڈونیشیا، بحرین، نیپال، ازبکستان اور عراق ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا فضائی آلودگی کے تمام تر مہلک اثرات کو جاننے اور دیکھنے کے بعد بھی، ہم آرام سے بیٹھ سکتے ہیں؟ بالخصوص جب پاکستان فضائی آلودگی کے معاملے میں بنگلہ دیش کے بعد سب سے بری حالت میں ہے۔ پاکستان میں آلودگی پیدا کرنے والے ذرائع کا جائزہ لیاجائے تو صورت حال کافی خطرناک ہے۔

جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ شہری آبادی پاکستان میں ہے،اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگلے پانچ برس بعد آدھے سے زیادہ پاکستانی شہروں میں ہوں گے۔ افسوسناک امر ہے کہ پھیلتی ہوئی شہری آبادی اور آلودگی پیدا کرنے والے دیگر ذرائع کی وجہ سے اس وقت 98 فیصد پاکستانی آبادی عالمی ادارہ صحت کے معیاری ماحول کے برعکس غیرصحت مندانہ ماحول میں زندگی بسر کررہی ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کو پاکستانیوں کی صحت پر خراب ماحول کے اثرات کی پروا نہیں ہے۔ ملک میں ماحول کو آلودہ کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اب جبکہ کورونا وائرس کے سبب بدترین مسائل پیدا ہوچکے ہیں، ہمیں 69 لاکھ پاکستانیوں کو پھیپھڑوں سے متعلقہ بیماریوں سے صحت یاب کرنے کے لئے سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور ایسے اقدامات بھی کرنے ہوں گے کہ مزید پاکستانی ان بیماریوں کے شکار نہ ہوں۔

یاد رہے کہ ماحولیات کا تحفظ اس قدر اہم معاملہ ہے کہ اسے قومی سلامتی کے شعبے میں شامل کرنا ہوگا۔ قومی وسائل کا دفاع ملکی سرحدوں کی طرح اہم ہے۔اگرقومی وسائل ہی نہ رہے تو ہم کس چیز کا دفاع کریں گے!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔