یکم مئی 1886 محنت کشوں کا عالمی دن

ہم اس سال یکم مئی کیسے منائیں جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اس وبا سے براہ راست متاثر ہیں۔


Manzoor Razi May 01, 2020

آج پھر یکم مئی 1886 کا دن یاد آ رہا ہے۔ آج سے ٹھیک 134 سال قبل امریکا کے صنعتی شہر شکاگو کے محنت کشوں نے اپنے اوقات کار کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دنیا بھر کے محنت کشوں کے لیے آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر کروائے تھے۔ آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو دنیا بھر میں ایک ایسی وبا یا بیماری پھیلی ہوئی ہے جس نے اب تک دنیا بھر میںدو لاکھ سے زائد انسانی جانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ دیکھیں یہ وبا کب تک چلے گی؟ اور کتنی زندگیاں نگل جائے گی۔

ہم اس سال یکم مئی کیسے منائیں جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اس وبا سے براہ راست متاثر ہیں، وہیں تمام مذاہب کے ماننے والوں نے اپنی اپنی عبادت گاہوں کو بند کردیا ہے۔ حد تو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کی مساجد میں باجماعت نماز پڑھنے پر بھی احتیاط کرنے کی پابندی لگا دی گئی ہے۔ امریکا اور اسرائیل سمیت عالمی طاقتیں بھی صورتحال سے پریشان ہیں۔ خیر ہم یکم مئی 1886 شکاگو کے شہدا کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے ان کی جدوجہد کی مختصر سی تاریخ لکھ کر اپنے پاکستان کے محنت کشوں کو یہ باور کرا سکیں کہ کس طرح یہ حقوق شکاگو کے محنت کشوں نے ہمیں دلوائے تھے۔ جو اب اکیسویں صدی میں ہم سے چھینے جا رہے ہیں۔

یوں تو محنت کاروں، مظلوموں، غلاموں، مجبوروں، محکوموں کی بڑی طویل اور صدیوں پر محیط جدوجہد رہی ہے مگر جو کام 1886 میں امریکا کے صنعتی شہر شکاگو کے محنت کش کر گئے وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ محنت کشوں نے اس سے قبل بھی بے شمار مرتبہ حاکموں کے خلاف جنگ لڑی اور جب سے دنیا طبقات میں بٹی ہے جدوجہد جاری رہی ابتدائی معاشرہ اشتراکی تھا، سب مل جل کر رہتے تھے، مل جل کر شکار کرتے تھے، مل جل کر کھا پی جاتے تھے۔

دنیا اس وقت طبقات میں الجھی جب زمین پر موجود کچھ طاقتور لوگوں نے ظلم کرتے ہوئے کمزور و غریب، مجبور اور محکوم لوگوں کو طاقت کے زور پر اپنا غلام بنا لیا اور زمین پر لکیریں لگا کر اپنا حق ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کردیاتو یوں دنیا طبقات میں بٹ گئی۔ اس وقت کے ظالم لوگ جبر اور ظلم کرکے کمزور لوگوں سے جبری مشقت لیتے تھے۔ بعض اوقات ہنٹر اور کوڑے مار مار کر کام لیا جاتا تھا۔ خیر مظلوموں کی جدوجہد جاری رہی، غلام نیلام بھی ہوتے رہے۔ مذاہب بھی آتے رہے، لوگوں کا شعور بھی بلند ہوتا رہا۔ سائنس بھی ترقی کرنے لگی اور محنت کش بغاوت بھی کرتے رہے ان کے کوئی اوقات کار بھی نہ تھے لیکن 18 ویں اور 19 ویں صدی میں مزدور طبقہ ابھرنا اور منظم ہونا شروع ہو گیا تھا۔

یہ وہ دور تھا جب صنعت لگنا شروع ہوگئی تھی۔ کوئلے اور بھاپ سے چلنے والے کارخانے اور انجمن مشینی دور میں داخل ہونا شروع ہوگئے تھے۔ یورپ ترقی کی راہ پر گامزن تھا، پاپائیت بھی زور و شور سے جاری تھی۔ 1789 میں فرانس میں ادھورا انقلاب بھی آچکا تھا، یورپ میں بعض ترقی پسند شاعر، ادیب، دانشور، قلم کار، صحافی اور سیاسی رہنما محنت کشوں کو منظم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اشتراکیت اور سوشلزم کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ کارل مارکس اور اینگلز کے نظریات بڑی تیزی سے پھیل رہے تھے۔ کمیونسٹ لیگ بن چکی تھی، ان کا مینوفیسٹو آگیا تھا۔ مزدور انجمن سازی کی جانب چل پڑے تھے۔ سرمایہ داری عروج پر تھی۔ یہ وہی وقت تھا جب 1886 آ گیا۔

عین اسی سال یکم مئی 1886کو امریکا کے صنعتی شہر شکاگو کے محنت کشوں نے اعلان بغاوت کردیا۔ آج سے ٹھیک 134 سال قبل یکم مئی کا تاریخی سانحہ پیش آیا جب انقلابی شعور سے لیس ایسے جوشیلے انقلابی اور جدوجہد کرنے والے سیاسی اور مزدور رہنما پیدا ہوچکے تھے، جنھوں نے مارکیٹ چوک پر (Hay) رخ، نیا موڑ اور اپنا خون دے کر محنت کشوں کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔ یہ محنت کش جمع تھے، ان محنت کشوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، کارخانہ داروں، صنعت کاروں، سرمایہ داروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ظالم حکمرانوں، ہم بھی انسان ہیں۔ ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق ہے، ہمارے اوقات کار مقرر کرو۔ ہمیں روزگار دو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، وہ نعرے لگا رہے تھے۔

دنیا کے مزدور، ایک ہو جاؤ، سرمایہ داری، مردہ باد، وہ بلا رنگ و نسل و مذہب ایک تھے، پورا صنعتی شہر شکاگو جام ہو گیا تھا۔ ملوں، کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہو گیا تھا۔ یہ یکم مئی 1886 تھا۔ پھر صبح کے ایک اخبار میں کسی گمنام صحافی نے اپنا انقلابی فرض ادا کرتے ہوئے صفحہ اول پر یہ لکھا تھا جو تاریخ کا حصہ بن گیا۔ مزدورو! تمہاری لڑائی شروع ہوچکی ہے، آگے بڑھو فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔ اپنے اوقات کار مقرر کراؤ۔ اپنے مطالبات منوانے کے لیے جدوجہد جاری رکھو۔ حاکموں کو جھکنا پڑے گا۔ جیت اور فتح تمہاری ہوگی، ہمت نہ ہارنا، متحد رہنا، اسی میں تمہاری فتح ہے۔ اسی میں تمہاری بقا ہے۔ لڑتے رہنا، مطالبات کی منظوری تک، مزدور، اتحاد، زندہ باد۔

صحافی کی اس تحریر نے مزدوروں میں مزید جذبہ پیدا کردیا۔ محنت کشوں نے زوردار نعرے کے ساتھ آٹھ گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ پیش کردیا۔ ہم آٹھ گھنٹے کام کریں گے۔ ہم آٹھ گھنٹے آرام کریں گے۔ ہم آٹھ گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔ حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا۔ انھوں نے محنت کشوں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے۔ ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ نہتے، کمزور اور پرامن محنت کشوں کو لہولہان کردیا۔ شکاگو کی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا۔ محنت کشوں کا امن کا سفید پرچم لہو سے سرخ ہو گیا۔ ایک محنت کش کی قمیض لہو سے تر ہوگئی، پھر انھوں نے لہو میں ڈوبے ہوئے سرخ پرچم کو ہی اپنا پرچم بنالیا اور فیصلہ کیا کہ سرخ پرچم ہی اب ہمارا پرچم ہے۔

اس وقت سے ہی سرخ و لال پرچم دنیا بھر کے محنت کشوں کا پرچم بن گیا۔ آخر کار حکمرانوں نے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کیے اور اس طرح آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر ہوئے۔ اس موقع پر محنت کشوں کے چار سرکردہ رہنماؤں، فشر، انجل، پیٹر سنز اور اسپائیز سمیت 7 رہنماؤں کو پھانسی کی سزا جعلی مقدمہ چلا کر سنا دی گئی۔ یہ رہنما دنیا سے تو چلے گئے مگر اپنا نام، اپنا کام اور اپنی تحریک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔

بعدازاں 1917 میں روس میں محنت کشوں کا انقلاب آیا اپنی تحریک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ بعدازاں 1917 میں روس میں محنت کشوں کا انقلاب آیا اور حکومت بنائی سرخ جھنڈے پر درانتی اور ہتھوڑے کا نشان آج بھی موجود ہے۔ چین میں انقلاب آیا۔ آج دنیا انقلابوں کی لپیٹ میں ہے۔ یورپ اور اوقات 6 گھنٹے ہوگئے ہیں۔ یورپ میں مزدوروں کو کئی ایک مراعات حاصل ہیں لیکن ہمارے ملک پاکستان میں 1886 سے زیادہ مشکلات ہیں۔

آج پورے پاکستان میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ اوقات کار ہیں۔ حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، بیماری ہے، جہالت ہے، غربت ہے، خودکشی ہے، ٹریڈ یونین دم توڑ رہی ہیں۔ مزدور تقسیم در تقسیم ہو رہے ہیں۔ حکمرانوں، سرمایہ داروں، فرقہ پرستوں، سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنے ونگ بنا لیے ہیں۔ مزدور سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہب، فرقہ، زبان، قومیت، لسانیت اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم ہو رہے ہیں۔ آئیے ہم ایک مرتبہ پھر یکم مئی 1886 شکاگو کے شہدا کو خراج عقیدت اور سرخ سلام پیش کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔