کیا ہم ان میں سے تو نہیں
قصبہ سلمان پاک کی ایک پرشکوہ عمارت میں صحابی رسول سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار مبارک ہے
قصبہ سلمان پاک جسے زمانہ قدیم میں ''مدائن'' کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور جو آج بھی عراق میں بدترین تباہی اور بربادی کے باوجود بغداد سے تقریباً چالیس میل کی مسافت پر آباد ہے ،ایک متحیر اور روح پرور واقعے کے سبب امت مسلمہ کو تاقیامت ''اللہ کی روشن نشانی'' کا احساس دلا کر جھنجھوڑتا رہے گا۔
یہ الگ بات ہے کہ ہم سماعت کے باوجود سننے سے محروم، بصارت کے باوجود دیکھنے سے عاری اور ادراک کے باوجود تفکر سے خالی رہیں اور مجھے بھی یہ ایمان افروز واقعہ کسی وجہ سے تحریر کرنا پڑرہا ہے ورنہ تواِسے لکھنے کے لیے انگلیوں کا وضو، پڑھنے کے لیے طہارتِ چشم اور سننے کے لیے پاکیزہ سماعت کا ہونا بہت ضروری ہے... وجہ کیا ہے؟یہ اگلی سطروں میں واضح ہوجائے گی...!
قصبہ سلمان پاک کی ایک پرشکوہ عمارت میں صحابی رسول سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار مبارک ہے اور اب اِسی مزار کے گنبد سے متصل سرکارالعالمین ﷺ کے دو جلیل القدر صحابہ (جن سے متعدد احادیث مروی ہیں) حضرت حذیفہ بن الیمان اور حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی قبورِپُرنورموجود ہیں، لیکن یہ پہلے یہاں نہیں تھیں بلکہ سلمان پاک سے تقریباً تین یا چار فرلانگ کے فاصلے پر ایک غیر آباد جگہ پر موجود تھیں جہاں زیرِ زمین پانی کے آنے کے سبب حضرت حذیفہ بن الیمان نے دو مرتبہ شاہ عراق (فیصل اول) کے خواب میں آکر اُس سے کہا کہ ''مجھے اور جابر کو یہاں سے منتقل کردو کیونکہ دریائے دجلہ کا پانی قبر میں رِس رہا ہے۔''
شاہِ عراق نے مسلسل دو راتوں تک یہی خواب دیکھا مگر سمجھ نہیں پایا تاہم جب تیسری رات حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مفتی اعظم عراق نوری السعید پاشا کے خواب میں آکر یہی بات دہرائی اور جب مفتی صاحب نے شاہ عراق سے اِس کا ذکر کیا تو اُس نے فوراً ہی اُن سے عرض کی کہ ''آپ مزارات سے اجسادِ مبارکہ منتقل کرنے کا فتویٰ جاری کردیجیے میں بلا کسی تردد عمل کروں گا'' فتویٰ اور شاہی فرمان عراق کے تمام اخبارات میں شائع ہوااور بعض خبررساں اداروں نے اِس تاریخی خبر کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔
مقررہ دن اور وقت یعنی24ذی الحجہ پیر کے دن (1932عیسوی) لاکھوں انسانوں کی موجودگی میں یہ مزارات کھولے گئے تو معلوم ہوا کہ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک میں پانی آچکا تھا اور حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار میں نمی پیدا ہوچکی تھی حالانکہ دریائے دجلہ وہاں سے کم ازکم 4فرلانگ دور تھا، تمام ممالک کے سفرا اور عراق کے اراکین حکومت، مذہبی رہنماؤں اور شاہِ عراق کی موجودگی میں پہلے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسد مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اوپر اٹھایا گیاکہ مقدس نعش کرین کے ساتھ رکھے ہوئے اسٹریچر پر خود بخود آگئی اور پھر کرین سے اسٹریچر کو علیحدہ کر کے شاہ فیصل، مفتی اعظم عراق، وزیر مختار جمہوریہ ترکی اور ولی عہد مصر شہزادہ فاروق نے کاندھا دیا اور یہ جسدِ مقدس بڑے احترام سے شیشے کے تابوت میں رکھ دیا گیا،پھر اِسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسدِ مبارک کو قبر سے نکالاگیا۔
حدیث لکھنے والے اِن عظیم المرتبت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے چہروں، کفن اور ریش مبارک دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے انھیں رحلت فرمائے 1400برس نہیں بس چند گھنٹے ہی گزرے ہیں۔سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ دونوں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیںاور اُن میں اتنی چمک تھی کہ بہتوں نے چاہا کہ اِن آنکھوں کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیں مگر وہ اِس طرح چندھیا جاتیں کہ ہر شخص دور ہٹ جاتا اوریقینا وہ دیکھ بھی کیسے سکتے تھے کہ اُن مبارک آنکھوں نے مصطفی ﷺ کو دیکھ اور اُن کی شبیہ کو محفوظ کر رکھا تھا، اب جو اُن آنکھوں میں دیکھتا تو میرے سرکار ﷺ کو دیکھتااور اُنہیں دیکھنے کے لیے آنکھ کی نہیں ''طیب نظر'' کی ضرورت ہے...!!
یہی حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بتاتے ہیں کہ مجھ سے میرے آقا و مولیٰ ﷺ نے فرمایا کہ72 چیزیں قرب قیامت کی علامت ہیں۔ جب تم دیکھو کہ ''لوگ نمازیں غارت کرنے لگیں، امانت ضائع کرنے لگیں، سود کھانے لگیں،جھوٹ کو حلال سمجھنے لگیں، معمولی باتوں پر خوں ریزی کرنے لگیں، اونچی اونچی عمارات بنانے لگیں، دین بیچ کر دنیا سمیٹنے لگیں، قطع رحمی (یعنی قریبی اعزا اوررشتے داروں سے بدسلوکی) ہونے لگے، انصاف کمزور ہوجائے، جھوٹ سچ بن جائے، لباس ریشم کا ہوجائے، ظلم، طلاق اور ناگہانی موت عام ہوجائے،خیانت کار کو امین اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے، جھوٹے کوسچااورسچے کوجھوٹا کہا جائے، تہمت تراشی عام ہوجائے، بارش کے باوجود گرمی ہو، اولاد غم و غصے کا موجب ہو، کمینوں کے ٹھاٹھ ہوں اور شریفوں کا ناک میں دم آجائے، امیر و وزیر جھوٹ کے عادی بن جائیں، امین خیانت کرنے لگیں، قوم کے سردار ظالم ہوں، عالم اور قاری بدکار ہوں اورجب لوگ بھیڑ کی کھالیں یعنی پوستین پہننے لگیں۔
اُن کے دل مردار سے زیادہ بدبودار اور ایلوے سے زیادہ تلخ ہوں، اُس وقت اللہ تعالیٰ اُنہیں ایسے فتنے میں ڈال دے گا جس میں یہودی ظالموں کی طرح بھٹکتے پھریں گے اور جب سونا عام ہوجائے گا،چاندی کی مانگ ہوگی، گناہ زیادہ ہوجائیں گے،امن کم ہوجائے گا، مصحف (یعنی قرآن) کو آراستہ کیاجائے گا، مساجد میں نقش و نگار بنائے جائیں گے، اونچے اونچے مینار بنائے جائیں گے، دل ویران ہوں گے، شرابیں پی جائیں گی،شرعی سزاؤں کو معطل کردیا جائے گا، لونڈی اپنے آقا کو جنے گی، جو لوگ کسی زمانے میں برہنہ پا اور ننگے بدن رہا کرتے تھے وہ بادشاہ بن بیٹھیں گے، زندگی کی دوڑ اور تجارت میں عورت مرد کے ساتھ شریک ہوجائے گی، مرد عورتوں کی نقالی پر فخر کریں گے اور عورتیں مردوں کی شباہت آزادانہ اختیار کریں گی، غیر اللہ کی قسمیں کھائی جائیں گی،مسلمان بھی بغیر کہے جھوٹی گواہی دینے کو تیار ہوگا، صرف جان پہچان والوں کو سلام کیا جائے گا،غیر دین (غیر مسلم) کے لیے شرعی قانون پڑھا جائے گا۔آخرت کے عمل سے دنیا کمائی جائے گی، غنیمت کو دولت، امانت کو غنیمت کا مال اورزکوٰۃکو تاوان قرار دیاجائے گا، سب سے رزیل (گِرا ہوا شخص)قوم کارہنما بن بیٹھے گا،آدمی اپنے باپ کا نافرمان ہوگا، ماں سے بدسلوکی کرے گا، دوست کو نقصان پہنچانے سے گریز نہ کرے گا اور بیوی کی اطاعت کرے گا، بدکاروں کی آوازیں مساجد میں بلند ہونے لگیں گی،گانے والی عورتیں داشتہ رکھی جائیں گی اور گانے کا سامان فخریہ رکھا جائے گا، سرِراہ شرابیں پی جائیں گی،ظلم کو فخر سمجھا جائے گا،انصاف بکنے لگے گا،درندوں کی کھال کے موزے بنائے جائیں گے اور امت کا پچھلا حصہ پہلے لوگوں کو لعن طعن کرنے لگے گا، اُس وقت سرخ آندھی، زمین میں دھنس جانے، شکلیں بگڑ جانے اور آسمان سے پتھر برسنے جیسے عذابوں کا انتظار کیا جائے گا۔
احادیثِ مبارکہ پراپنی عقلِ ناقص سے اعتراضات کی لکیریں کھینچنے والے روشن خیال، اعتدال پسند متجددین پہلے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبرِ مبارک کا واقعہ غور سے پڑھ لیں تاکہ اُنہیں یقین ہوجائے کہ اِس صحابی رسول پر شک کرنا اپنے رہے سہے ایمان کو غارت کرنے کے مترادف ہے اور پھر... ذرا سوچئے!