غیرت مند غلام نہیں ہوتے
ہمارے عہد کی ایک عالمی طاقت امریکا ہے جس کے سامنے کوئی ٹک نہیں سکتا۔
حملہ آوروں کا دستور یہ ہے کہ وہ جس ملک یا علاقے پر حملہ کرتے ہیں وہاں شدید خوں ریزی، دہشت گردی اور خوف و ہراس پھیلا دیتے ہیں تاکہ کوئی ان کے سامنے سر نہ اٹھا سکے۔ مگر اس ساری کارروائی کا سب سے زیادہ بھیانک پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ مفتوحہ علاقے کے معززین کو ذلیل اور حقیر بنا دیتے ہیں اور اس معاشرے کے رذیلوں کو معزز بنا دیتے ہیں۔
غلام قادر روہیلہ ایک ظالم اور جفاکار شخص تھا جو اپنے مخالفین پر حملے کرتا رہتا تھا اور اس کی ترک تازیوں سے کوئی محفوظ نہ تھا۔ یہاں تک کہ اس نے مغل حکومت کے پایہ تخت دہلی پر حملہ کردیا اور اسے تاراج کرکے دم لیا۔ پھر وہ قلعہ معلی میں داخل ہوا اور مغل حکمران شاہ عالم کی آنکھیں نکال ڈالیں۔ اس بھیانک کیفیت کو محسوس کرکے زنان خانے سے رونے چلانے کی آوازیں آتیں جنھیں روہیلہ کی غضبناکی نے خاموش کردیا۔ پھر وہ زنان خانے میں داخل ہوا۔ جن مغل شہزادیوں کو کسی غیر کی آنکھ نے کبھی نہ دیکھا تھا انھیں حکم دیا کہ رقص کریں۔ پھر اس نے اپنا خول اتار کر رکھ دیا، زرہ بکتر سے اپنے کو آزاد کیا اور ایک صوفے پر لیٹ کر بظاہر سونے لگا مگر شہزادیوں کو حکم دیا کہ چاہے وہ سو جائے وہ ناچتی رہیں اور رقص موقوف نہ ہو۔ چند منٹ آنکھیں بند کیے پڑا رہا۔ شہزادیاں رقصاں رہیں پھر اٹھا اور اس نے کہا میں نے اپنے جسم سے تمام حفاظتی چیزیں اتار دی تھیں اور تلوار بھی برہنہ میز پر رکھ دی تھی اگر تم شہزادیوں میں سے کسی میں غیرت ہوتی تو میری ہی تلوار سے میرا کام تمام کردیتیں، مگر معلوم ہوا کہ مغل خواتین میں غیرت ختم ہوگئی اور جس قوم سے غیرت ختم ہو جائے اسے حکمرانی کا حق حاصل نہیں رہتا اور یوں روہیلہ سردار نے اپنے حق حکمرانی کو درست ثابت کردیا۔
ہمارے عہد کی ایک عالمی طاقت امریکا ہے جس کے سامنے کوئی ٹک نہیں سکتا۔ پچھلی نصف صدی میں امریکا نے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں متعدد ممالک کو برباد کیا لیکن کہیں بھی اسے کامل فتح نصیب نہ ہوسکی اور اسے شرمندگی چھپاتے ہوئے پسپائی اختیار کرنا پڑی کیونکہ وہ دوسری اقوام پر اپنے حق حکمرانی کو کبھی ثابت نہ کرسکا۔
اس نے ویتنام میں زمینی جنگ لڑی اور اس جنگ کا سلسلہ سالوں جاری رہا۔ ویتنامی بڑی دلیری سے ایسی کارروائیاں کرتے جن کا گمان بھی امریکیوں کو نہ ہوتا اور ویتنامی جنگلات امریکیوں کے لیے وبال بن گئے مگر غاصب حملہ آوروں کے کردار کے عین مطابق وہ ویتنامی اور قرب و جوار کے ممالک کی خواتین کی بے حرمتی کرتے رہے۔ فتح تو کیا نصیب ہوتی وہاں سے اپنی فوجوں کو زندہ سلامت نکال لانا ہی اس کی کامیابی قرار پایا ، ظاہر ہے کہ ویتنامی بھی مارے گئے مگر امریکی بھی موت کے گھاٹ اترتے رہے، اتنے کہ امریکا اتنے فوجیوں کے ضیاع کا متحمل نہ ہو سکا اور بالآخر افواج کو واپس بلا لیا۔
اس کے بعد امریکا سالوں کسی ملک پر حملہ کرنے کے قابل نہ رہا۔ اب حالیہ سالوں میں عراق پر حملہ کیا صدر صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا، یہاں بھی فوجی کامیابیوں سے زیادہ اس کی توجہ جنسی کامیابیوں پر زیادہ رہی کیونکہ حملہ آور ہمیشہ عزت داروں کو بے عزت کرنے کو بھی اپنی فتح سمجھتے ہیں۔
افغانستان میں محض ایک شخص اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکا نے اس ملک پر ہوائی حملے شروع کیے اور جب طالبان کی طاقت کو ختم نہیں بلکہ منتشر کردیا تو زمین پر اترنے کی ہمت کی اور اپنے آپ کو ہوائی اڈوںاور فوجی چھاؤنیوں تک محدود رکھا۔ شہروں میں گشت وہ طالبان کے بعد بننے والی افغان حکومت کے سپاہیوں کے ساتھ کرتے اور یوں طالبان سے کبھی کبھی زمینی جھڑپیں بھی ہو جاتیں جس میں طالبان کے ساتھ ساتھ امریکا کو بھی نقصان ہوتا۔
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ امریکن فوجی اور افغان حکومت کے فوجی معمول کی گشت پر تھے یا روانہ ہونے والے تھے کہ ایک امریکی نے افغان فوجی کو کسی کام کا حکم دیا اور تعمیل میں تاخیر یا کسی اور سبب سے اسے گالی دی۔ افغان فوجی یہ ذلت آمیز رویہ برداشت نہ کرسکا اور اس نے فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں چھ امریکی مارے گئے۔ ظاہر ہے امریکیوں نے بھی جوابی فائرنگ کی اور متعدد افغان فوجی ہلاک ہوگئے۔
افغانستان میں اصل مسئلہ طالبان ہیں۔ وہ بظاہر منتشر ہوگئے، ان کا لیڈر بھی بیمار ہوکر اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اسامہ بن لادن کب کا افغانستان چھوڑ چکا اور امریکی ذرائع اطلاعات کے مطابق وہ پاکستان سے پکڑا گیا، اسے ہلاک کرکے اس کی لاش سمندر برد کردی گئی۔ اب امریکا کو افغانستان میں کوئی کام نہیں رہا۔ البتہ فوجوں کو زندہ سلامت نکالنے کے لیے انھیں طالبان سے مذاکرات کرنا پڑ رہے ہیں۔ وہی طالبان جن کی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تھا اور وہ ایک شخص جو اتنی بڑی جنگ کا باعث بنا تھا کب کا مر کھپ گیا۔
البتہ امریکا کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ افغان، طالبان ہوں یا غیر طالبان غیرت مند ہوتے ہیں اور اپنی عزت و توقیر اور غیرت پر آنچ نہیں آنے دیتے، اسی وجہ سے تو ملا عمر افغانستان کی حکمرانی چھوڑ چھاڑ کر موٹرسائیکل پر سوار ہوکر نہ جانے کہاں چلا گیا اور موت تک امریکا کے ہاتھ نہ آیا۔
اور امریکا کی حلیف افغان حکومت کے ایک فوجی نے امریکی فوجی کے گالی دینے کو برداشت نہیں کیا اور فائر کرکے چھ امریکیوں کو ہلاک کردیا۔ گویا افغانستان میں غیرت باقی ہے اور جس قوم میں غیرت باقی رہے اسے غلام نہیں بنایا جاسکتا۔