’’منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید‘‘
تو لوگ خس وخاشاک میں ہیرے جواہرات کیسے پاتے؟
آپ یقین کریں اوراگر نہیں کرتے تو بھاڑ میں جائیں یاکسی قرنطینہ میں۔ کہ تحقیق بڑی اچھی چیزہے اورپھر جس کے پاس ہمارے جیسا تحقیقی تجربہ اور ڈگریاں بھی ہوں، وہ تو بال کی کھال اتار کر اس سے جوتے بھی بناسکتاہے۔دراصل ہم تحقیق مرشد کے اس شعر پر کر رہے تھے کہ۔
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے
جب بھی یہ شعر ہمارے سامنے آتاتھا بقول مولانا ماہرالقادری ''وجدان'' کو بری طرح کھٹکھٹاتا تھا۔ ہم اکثر سوچتے کہ اس شعر میں بھی یقیناً ''کتابت'' کی کوئی غلطی ہوئی ہے جس طرح اس ''دل نادان'' والے شعر میں ہوئی تھی لیکن اب ہم نے درست کردی ہے۔ آخر مرشد جیسا زیرک شاعر یہ کیسے کہہ سکتاہے کہ ۔
دل نادان تجھے ہواکیاہے
آخر اس درد کی دواکیاہے
جوپہلے ہی سے ''نادان''ہے ، اس بچارے سے یہ پوچھنا کہ ''آخر اس درد کی دوا'' کیاہے، یہ توایسی بات ہوئی کہ ڈاکٹر مریض سے پوچھے کہ تجھے ہواکیاہے ۔ پھر اس سے یہ پوچھنا کہ آخر اس دردکی دواکیاہے، اگر اس بچارے کو دوا کا پتہ ہوتاتو تمہارے پاس ''زیارت'' کے لیے آیاہے۔خیر اس شعر میں تو ہم نے ''نادان'' کی جگہ نالاں ڈال کر تصحیح کردی تھی، لیکن ''یہ منحصر ہونے پر'' اوروہ بھی امید۔۔جب مرگیا تو کیا امید اورکیا امیدواری۔اس شعر میں کتابت کی غلطی ہم خود تو نہیں نکال پائے لیکن ترکی کے لیجنڈ افسانہ نگار ''عزیزنے سن'' کے ایک افسانے نے ہماری الجھن دورکردی، شعر میں کتابت کی کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے بلکہ غلطی ہماری اپنی سمجھ دانی میں ہے۔خیر پہلے ''عزیز نے سن'' کے اس افسانے کا اختصار سنئے۔کہانی ایک مفلوک الحال خاندان کی ہے جوکسی گاؤںیامحلے میں رہائش پذیرہے یاشاید کسی ''ریاست'' میں ہو لیکن ریاست کا نام اس نے نہیں لکھا ہے۔
اس ریاست یاگاؤںیا محلے میں سارے کے سارے بڑے عابد، زاہد لوگ رہتے تھے جو عبادت اورزہد میں اتنے مصروف رہتے تھے کہ اڑوس پڑوس کی خبر رکھنے کی ان کو فرصت نہ تھی اور زکواۃ وخیرات یاقربانی کی کھالیں بھی مقررہ اداروں کو دیتے تھے۔ اس لیے وہ خاندان بھوکا پیاسا اورایک وقت کی روٹی کو بھی ترستا تھا۔سرکار کی طرف سے مفت گھر ،مفت لنگر وغیرہ چلتے تھے لیکن ان میں داخلہ مستند ووٹ کی بنیاد پر ہوتاتھا ،نوکریاں بھی منتخب صادق اورامین لوگوں کے ہاتھوں میں تھیں جو ''نیک'' کام کو اپنے ''قریب'' سے شروع کرتے تھے۔اس لیے وہ خاندان بھوکاتھا،ماں پانی پکاتے پکاتے تھک گئی تھی اورباپ بھیک کے لیے دھکے کھا کھا کر تھک چکاتھا کہ اتنے میں اس خاندان کا ایک بچہ بھوک کی تاب نہ لاتے ہوئے دوسرے جہان کو فرار ہوگیاکیوں کہ اس نے دوسرے جہان میں وافر نعمتوں کے بارے میں سناتھا۔
رواج کے مطابق ''میت'' ہونے پر اڑوس پڑوس کے لوگ تین دن تک اس گھر میں کھانا پہنچاتے رہے جس سے اس خاندان کی بھوک مٹ گئی لیکن کب تک؟ آخر پھروہی بھوک کاعالم طاری ہوگیا یعنی ''پھول''نے تو صرف دوتین دن تک ''بہارجان فزا'' دکھلائی، پھر خاندان کے غنچے بھوک سے مرجھانے لگے یہاں تک کہ ان میں سے ''ایک غنچہ'' بیمارپڑگیا ۔ یہ ایک بچی تھی ،وہ بمشکل سانس کی ڈور کھینچ رہی تھی، ایسالگتاتھا کہ آخری ہچکی بس آنے ہی والی ہے۔ایک بے صبرے لیکن سمجھ دار بچے نے اس مرنے والی بہن کی طرف دیکھتے ہوئے ماں سے پوچھا، یہ کب مرے گی ماں؟ اس کے تصور میں اڑوس پڑوس سے متوقع طور پر آنے والے کھانے تھے۔
منحصر مرنے پہ ہوجس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
شعرکے معنی ہماری سمجھ میں آگئے تھے۔ کتابت کی کوئی غلطی اس میں نہیں ہے ۔ہم ہی غلط سمجھے تھے جو ''مرنے'' سے اپنا مرناسمجھ رہے تھے جب کہ یہ ''امید'' کسی دوسرے کے مرنے پر منحصرہے جیسے اس لڑکے کی امید بہن کے مرنے پر منحصرتھی اورہماری ۔۔۔لیکن یہ قصہ چھوڑ دیجیے کہ ہم کیاسمجھ رہے ہیں اورآپ کیاسمجھ رہے ہیں، صرف اتنا سوچیئے کہ زلزلے اور سیلاب کو اتنا عرصہ ہوگیا ہے ،کتنے لوگ تھے اورہیں جن کا انحصار آفات ارضی وسماوی پر ہوتاہے۔
اس گاؤں کاقصہ تو ہم نے سنایاہے کہ جہاں ایک بس کا ایکسیڈنٹ ہوگیاتھا اورگاؤں والوں نے زخمی مسافروں کو ہلکاکیاتھا اورپھر پاس پڑوس کے دیہات میں اس گاؤں والوں کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا ۔۔۔کہ ذراٹھہروکوئی ایکسیڈنٹ ہوجانے دو پھر میں تمہارا قرضہ ادا کردوں گا۔یا، بیٹا میں چاہتاہوں کہ تمہاری شادی کرادوں لیکن کیاکروں کوئی ایکسیڈنٹ ہی نہیں ہورہاہے یا، یار میرے گھر کی تعمیر رکی ہوئی ہے، خدا کرے کوئی ایکسیڈنٹ ہوجائے ۔پشتو کا ایک ٹپہ ہے ۔
اگر اباسین میں سیلاب نہ آتا
تو لوگ خس وخاشاک میں ہیرے جواہرات کیسے پاتے؟