بانجھ معاشرہ

ایک مخصوص نوعیت کے مدارس کا ملک میں جال پھیلادیا گیا۔


Dr Tauseef Ahmed Khan May 06, 2020
[email protected]

راشد رحمن ایڈووکیٹ کا شمار انسانی حقوق کے تحفظ کی تحریک کے سرگرداں کارکنوں میں ہوتا تھا۔ راشد رحمن کے والد اشفاق احمد خان بائیں بازو کی تحریک کے ایک رہنما تھے۔ اشفاق احمد خان نے 70ء کی دھائی میں ملتان اور جنوبی پنجاب کے دیگر علاقوں میں نیشنل عوامی پارٹی اور پھر پیپلز پارٹی کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

راشد رحمن نے 90ء کی دھائی میں انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) میں شمولیت اختیار کی۔ 7 مئی 2014ء تک مظلوموں کی دادرسی میں مصروف رہے۔ انھوں نے مزدوروں، کسانوں ، غیر مسلم پاکستانی شہریوں اور خواتین کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ راشد رحمن ملتان کے ان وکلاء میں شامل تھے جنھیں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ راشد رحمن بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے شعبہ انگریزی کے اعانتی استاد اور وکیل تھے۔ راشد کو 7 مئی کی شام کو ملتان میں HRCP کے دفتر میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا، نامعلوم ملزمان کا پویس پتہ نہیںچلا سکی۔

اس صدی کے دو عشروں میں صرف راشد ہی نہیں بلکہ کئی اساتذہ، طالب علم، انسانی حقوق کے کارکن، خواتین اور سماجی کارکن مذہبی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ سبین محمود، ڈاکٹر شکیل اوج، ڈاکٹر وحید الرحمن عرف یاسر رضوی اور مشال خان سمیت سیکڑوں افراد ہیں ۔

انتہاپسندی کا عنصر جنرل ضیاء الحق کے دور سے معاشرہ میں گھولا گیا۔ امریکا نے افغانستان کی انقلابی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے پروجیکٹ شروع کیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت اس میں حصہ دار بن گئی۔ امریکی ماہرین نے مذہبی انتہاپسندی کو افغانستان اور سوویت یونین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حکمت عملی تیار کی، یوں مسلمان ممالک کے انتہاپسندوں کو پاکستان میں جمع کیا گیا۔

ایک مخصوص نوعیت کے مدارس کا ملک میں جال پھیلادیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے سائنسی طرز فکر کو ختم کرنے کے لیے رجعت پسندانہ مواد نظام تعلیم میں شامل کرایا ۔ میڈیکل اور بائیولوجیکل سائنس کے مضامین سے انسانی معاشرہ کے ارتقاء کا باب خارج کردیا گیا اور کہا گیا کہ چارلس ڈارون کی ارتقاء کی تھیوری غلط ثابت ہوچکی ہے۔ اس مجموعی پالیسی کے پورے معاشرہ پر منفی نتائج برآمد ہوئے۔ صرف دینی مدارس سے ہی نہیں بلکہ جدید تعلیمی اداروں، یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں سے بھی خودکش حملہ آور پیدا ہوئے۔

جب نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد پاکستانی معاشرہ سے انتہاپسندی ختم کرنے کے لیے پالیسیاں بننے کا عندیہ دیا گیا ، خاص طور پر مدارس کے نصاب میں اصلاحات اور جدید تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو بین الاقوامی معیار کے مطابق جدید سائنسی خطوط پر استوار کرنے کی تحریک شروع ہوئی تو دائیں بازو کے سیاسی رہنما اس کوشش کے خلاف صف آراء ہوگئے۔ یوں یہ اصلاحات کا عمل مکمل طور پر نتائج حاصل نہ کرسکا ۔

ادھر پاکستان میں طالبان نے پہلے قبائلی علاقوں میں پھر سوات میں اسکولوں کو تباہ کرناشروع کیا۔ طالبان نے اب تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ ان عناصر نے سوات کی بچی ملالہ یوسفزئی کو جان سے مارنے کی کوشش کی۔ ملالہ کا قصور یہ تھا کہ خواتین کی تعلیم کی سب سے بڑی حامی تھی مگر سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم سے ثابت کیا گیا کہ ملالہ پر کوئی قاتلانہ حملہ نہیں ہوا۔

اس بات پر بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی یقین کیا بلکہ بائیں بازو کے کچھ دانشور بھی اس خیال کو تسلیم کرتے ہیں۔ ملک میں چلائی جانے والی اس رجعت پسندانہ مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں پولیو کا وائرس ختم نہیں ہوسکا۔ پولیو کے ورکر کو پولیس اوررینجرز کی نگرانی میں مہم شروع کرنے کے لیے بھیجا جانے لگا مگر سخت ترین حفاظتی اقدامات کے باوجود ہر مہم کے دوران کئی پولیو ورکر شہید کردیے جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیو کی دوائی تو عالمی ادارہ صحت W.H.O فراہم کرتا ہے مگر حکومت کو پولیو کے ورکر کے تحفظ پر زیادہ رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔

گزشتہ سال کی بات ہے کہ پشاور میں سوشل میڈیا پر یہ افواہ پھیلائی گئی کہ بعض غیر سرکاری اسکولوں کے بچے یہ قطرے پینے سے شدید بیمار ہوئے اور ان کو اسپتال میں داخل کیا گیا، یہ وڈیو غلط ثابت ہوئی۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اس خطے کا واحد ملک ہے جہاں بچوں میں پولیو کا مرض ختم نہیں ہوسکا۔

غیر سائنسی ذہن کی تازہ مثال کورونا وائرس کا پھیلاؤ ہے۔ سندھ کی حکومت نے جب کوروناوائرس کے خاتمہ کے لیے بین الاقوامی ماہرین کے متعین کردہ طریقہ کار کے تحت لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تو پھر رجعت پسند عناصر نے مہم شروع کردی۔ سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔ کچھ نے یہ لکھا کہ کورونا کا مرض خطرناک نہیں ہے، حکومت پیسہ حاصل کرنے کے لیے یہ ڈراما کررہی ہے۔ پھر کہا جانے لگا کہ یہ اﷲ کا عذاب ہے۔ پھر بعض اہل دانش مسجد جو سماجی ادارہ ہے اور تربیت کا فریضہ انجام دیتا ہے کا موازنہ بازار سے کرنے لگے۔ یقین کرنے والوں نے یہ سوال نہیں کیا کہ بازار میں توہمیشہ افراتفری ہوتی ہے مسجد میں لوگوں کی تربیت ہوگی تو لوگ بازار میں اس تربیت پر عمل کریں گے۔

جب تک امریکاسے پاکستانی شہریوں کی ہلاکتوں کی خبریں نہیں آئی تھیں سوشل میڈیا پر ایسی وڈیو وائرل کی گئیں جن میں امریکا کے اسپتالوں کی فوٹیج دکھائی گئی تھیں اور یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں سب کچھ معمول پر ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جہاں حکومت کو مساجد میں لاک ڈاؤن کرنے کے لیے سخت مراحل سے گزرنا پڑا۔ پھر انتہا تو یہ ہوئی کہ وزیر اعظم کی موجودگی میں ایک صاحب نے اس بیماری کو اﷲ کا عذاب اور فحاشی سے منسلک کیا۔ اگرچہ انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے ان خیالات کی مذمت کی، صرف سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری نے ان کاساتھ دیا۔ باقی تحریک انصاف کی حکومت کی پوری قیادت اس طرح خاموش رہی جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اکابرین ان مولوی صاحب کیِ رائے سے متفق ہیں۔

حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کے دور میں معاشرہ میں سائنسی طرز فکر کی اہمیت پر آگاہی دینے والے قتل ہوجاتے ہیں یا زیرِ عتا ب رہتے ہیں، یوں پاکستانی معاشرہ بانجھ ہوگیا ہے۔ تاریخ یہ سبق سکھاتی ہے کہ بانجھ معاشرے ہمیشہ طاقتور معاشروں کی نوآبادی بن جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں