جنرل مشرف ٹرائل آئین و قانون کی نظر میں
ہر مارشل لا اپنی روح میں ملک کے مروج قانون کو بندوق کی نوک پہ یرغمال بناتا ہے اور جب اسے کسی چیلنج کا سامنا نہیں۔۔۔
ہر مارشل لا اپنی روح میں ملک کے مروج قانون کو بندوق کی نوک پہ یرغمال بناتا ہے اور جب اسے کسی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تو وہ خود قانونی حیثیت پا لیتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد اقتدار پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی مارشل لا آیا، ایک آدمی تو کیا ایک پنچھی بھی زخمی نہیں ہوا۔ نہ احتجاج ہوا نہ کوئی چیخ و پکار سنی گئی۔ مشکل سے دو چار جج تھے جنھوں نے P.C.O کے تحت حلف نہیں اٹھایا اور جنھوں نے P.C.O، L.F.O وغیرہ کے تحت حلف اٹھایا وہ دراصل ان کے پچھلے حلف سے جو انھوں نے آئین کی پاسداری کرنے کا اٹھایا تھا اس سے غداری تھی بالکل اسی جرنیل کے حلف کی طرح کہ وہ بھی آئین کی پاسداری کرے گا۔ اور اگر یہ جج ایسا نہ کرتے تو کون سا آسمان ٹوٹ جاتا۔ کوئی اور جج بن جاتا اور وہ کام بڑے فخر سے کرتے جو کام باہر کے ججوں نے نہیں کیا۔ ایئر مارشل اصغر خان نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جسٹس منیر سے جنرل ایوب نے پوچھا کہ وہ ملک کو آئین دینا چاہتے ہیں اور کوئی ایسا نسخہ بتائیں کہ اسمبلی کو بائی پاس کرے۔ تو جسٹس منیر نے کہا یہ کون سی بڑی بات ہے، ایک بڑا جلسہ منعقد کیجیے اور ان سے ہاتھ اوپر کروا کے منظور کروا لیجیے، قدیم یونان میں تو ایسا ہی ہوتا تھا۔
زیادہ دور نہیں بلکہ ہم 73ء کے آئین کے آنے کے بعد والے دو مارشل لا اور ایک آدھ مارشل لا کو اس مضمون میں زیر بحث لائیں گے اور ٹھوس قانونی و آئینی حوالوں سے اسے دیکھیں گے۔ جب بھی نظریہ ضرورت کے تحت آمر کو کورٹ نے Validity دی تو وہ دراصل اپنی روح میں interim یا دوسرے لفظوں میں کچھ مدت کے لیے ہوتی ہے، وہ مستقل تب ہوتی ہے جب اسے پارلیمنٹ Immunity دے جیسا کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں 1986ء کے الیکشن کے بعد آنے والی اسمبلی نے آئین میں آٹھویں ترمیم کر کے دی اور جنرل مشرف کو 2002ء کے الیکشن کے بعد آنے والی اسمبلی نے سترہویں ترمیم کی شکل میں دیا اور جس کو نہ ملا وہ 2008ء میں آنے والی اسمبلی نے جنرل مشرف کے دوسرے آئین سے ماورا قدم کے حوالہ سے جو انھوں نے 3 نومبر کو اٹھایا تھا اس کو آئین کا حصہ نہیں بنایا اور وہ آج تک ایک ننگی تلوار کی صورت میں جوں کا توں سر پر لٹک رہا ہے۔
اس ماورائے آئین قدم کے خد و خال sui generis ہیں جس کی ماہیت ماضی کی باقیات سے ہٹ کر ہے۔ وزیر اعظم وہی، پارلیمنٹ وہی، کابینہ وہی، صوبائی اسمبلی، وزیر اعلیٰ تمام وہی، صدر پاکستان وہی، تو وہ تھا کیا؟ وہ ریاست کے ایک ستون کے خلاف تھا اور وہ تھی سپریم کورٹ جس کے ساتھ مل کر باقی ہائی کورٹس کے ججوں کی اکثریت نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس سے پہلے جو آئے وہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے آئے لیکن 3 نومبر کا جو اقدام تھا وہ اقتدار بچانے کے لیے تھا۔ ایک ایسے جرنیل کی طرف سے جو صدر بھی تھا اور فوج کا سربراہ بھی۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں لوگ اس کی حکومت سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ لیکن اس سے پچھلے تب آئے جب لوگ ان حکومتوں سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ ٹھیک ہے کہ صدر کو حکومت نے سمری نہیں بھیجی تھی کہ وہ کورٹ کے خلاف ایسا قدم اٹھاتے اور بھیج بھی سکتے تھے کہ وہ غیر آئینی قدم اٹھائیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے۔
صدر نے وہ قدم بحیثیت صدر نہیں بلکہ بحیثیت فوجی سربراہ اٹھایا تھا۔ اور اس کے حکم کی تعمیل کے لیے کچھ فوجی دستے سپریم کورٹ پہنچے تھے لیکن حکومت کیا کر رہی تھی۔ کیا اندھی اور بہری تھی۔ پورا کا پورا انبوہ کمرے میں گھس آیا تھا اور وہ چپ تھے۔ اتنے بڑے واقعے پر وہ جو آئین کے محافظ تھے یعنی پارلیمنٹ، وہ کیا کر رہی تھی؟ صوبائی اسمبلیاں کیا کر رہی تھیں؟ جنرل مشرف تو by act of commission مجرم ٹھہرے لیکن آئین پہ حلف لینے والے باقی سب اپنی خاموشی میں یعنی by act of commission مجرم تھے۔ وہ اپنے آپ کو اس جرم سے اس صورت بچا سکتے ہیں جب وہ یہ ثابت کر پائیں اور وہ ایسا ثابت نہیں کر پائیں گے۔ باقی رہا جنرل مشرف کے باقی فوجی افسروں کا، معاملہ تو وہ شاید یہ کہہ کر جان چھڑوا لیں کہ آرمی کی حفظ مراتب hierarchy کچھ اس نوعیت کی ہوتی ہے جس میں chain of command ہوتا ہے اور مارچ کرتے وقت اگر کھڈا بھی آ جائے تو اس میں بھی انھیں گرنا ہوتا ہے جب تک کہ رکنے کا حکم نہ آئے۔
بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی، پاکستان کیا ہے، قانون کی نظر میں وہی ہے جو آئین کہتا ہے۔ آئین سے باہر کوئی بھی پاکستان نہیں۔ آٹھویں ترمیم تک کورٹ نے کوئی Basic Structure Theory وضع نہیں کی تھی لیکن 1996ء میں محمود اچکزئی کیس میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کی فل بینچ جس کا فیصلہ جو چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے لکھا تھی میں وضع کی۔ یہ وہ تھیوری ہے جس کی بنیادیں 1820ء میں Morbury vs Madison کیس میں وضع کیا تھا کہ کوئی بھی ایسی ترمیم جو آئین سے متصادم ہو وہ آئین کا حصہ نہیں بن سکتی۔ لیکن محمود اچکزئی کیس کو ظفر علی شاہ کیس میں Over rule کیا گیا۔ غاصب کو آئین کے ساتھ کھلا مذاق کرنے کی تین سال تک اجازت دی گئی لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ وہ آئین کے Basic Features کو نہیں چھیڑ سکتے۔ یہ اسی طرح اس بینچ میں بیٹھے ہوئے ججوں کے لیے مشکل بن سکتا ہے جس طرح الجہاد ٹرسٹ کیس کا فیصلہ لکھنے والے کے خود گلے میں پڑ گیا تھا۔ آئین کے Basic Features کے خلاف کیا جنرل مشرف کا Devolution Program نہیں تھا جس کو اٹھارہویں ترمیم نے اڑا دیا۔ اٹھارہویں ترمیم نے آرٹیکل 270-AA میں ترمیم کرتے ہوئے 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو بھی غیر آئینی قرار دے دیا اور آرٹیکل چھ کا اطلاق نہ صرف Prospective ہے بل Retrospective بھی ہے۔ اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ان ججوں پر بھی آئین سے انحراف کے مقدمات چلائے جائیں جنھوں نے غاصب کو قانونی حیثیت دی۔
(جاری ہے)