جنگ ویتنام بڑی طاقتوں کے سامنے اقوام متحدہ کی بے بسی نمایاں ہوگئی

امریکہ کو ویتنام کی جنگ میں اخلاقی اور فوجی دونوں محاذوں پر بدترین ہذمیت اٹھانا پڑی


امریکہ کو ویتنام کی جنگ میں اخلاقی اور فوجی دونوں محاذوں پر بدترین ہذمیت اٹھانا پڑی

( قسط نمبر13)

ویت نام کی جنگ کا شمار بھی سرد جنگ کے ایسے بڑے واقعات میں ہو تا ہے جس میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل میں ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کے براہ راست ملوث ہو نے کی وجہ سے اقوام متحدہ کا ادارہ خودہیبے بس رہا اور اس کا اعتراف بھی اقوام متحدہ نے یو ں کیاکہ ''اقوام متحدہ کا کردار ویت نام جنگ میں بہت ہی معمولی رہا'' اقوام متحدہ اس جنگ میں ملوث ملکوں کی حکومتوں کو تجاویز دیتا رہا لیکن اس تنازعے کو ختم کرنا جنگ کو روکنا اقوام متحدہ کے لیے ناممکن تھا کیو نکہ امریکہ اقوام متحدہ کا مستقل رکن اور ویٹو پاور ہے۔

پہلے امریکی صدر جانسن کہتے رہے کہ اقوام متحدہ اس معاملے میں نہ آئے لیکن جب بہت نقصان ہو گیا تو جانسن نے چاہا کہ اقوام متحدہ جنگ کا حل نکالے تو اقوام متحدہ نے کردار ادا کیا جو بہت ہی معمولی تھا یوں بنیادی طور پر یہاں اقوام متحدہ نے کو ئی کرادار ادا کیا ہی نہیں ''ویت نام ایشین ہند چینی جزیرہ نما ہے اس کی خشکی کی سرحدیں شمال میں چین سے، مشرق میں لاوس اور کمبوڈیا سے ملتی ہیں اور سمندر ی سرحدیں تھائی لینڈ ،خلیج تھائی لینڈ فلپائنانڈو نیشیا، ملائیشیا سے جنوب میں قربت رکھتی ہیں۔

ویت نام کا رقبہ 331212 مربع کلو میٹر ہے آبادی کے لحاظ سے یہ 2018 کے مطابق اپنی 95545962 آبادی کے ساتھ دنیا کا پندرہ واں بڑا ملک ہے یہاں آبادی کی گنجانیت 276.03 افراد فی مربع کلو میٹر ہے اس آبادی کا لسانی اور مذہبی اعتبار سے تناسب یوں ہے 85.7% ویتنامی زبان بولتے ہیں 73.2% کا مذہب Folkor فولکور ہے 12.2% بدھ مت ہیں 4.8% عیسائی ہیں باقی دیگر ہیں2019 میں ویت نام کا سالانہ جی ڈی پی 770.227 بلین ڈالر تھا اور فی کس سالانہ آمدنی8066 تھی ماہرین آثارِ قدیمہ کے مطابق یہاں زندگی کے آثا ر پانچ لاکھ سال پرانے ہیںاور پتھر کے زمانے کے ہیں قبل از تاریخ یہاں انسانی تہذیب موجود تھی۔

ایک ہزار سال قبل ویت نام کا بڑا حصہ آزاد وخود مختار رہا پہلی خود مختار بادشاہت یا سلطنت ایک ہزار سال پہلے قائم ہو ئی اور مختلف بادشاہتوں کے ذریعے یہ سلسلہ کسی نہ کسی انداز سے بڑے یا درمیانے رقبے کی سلطنت کی حیثیت سے انیسویں صدی کے وسط تک چلتا رہا۔ اس دوران 544 ء سے 602 ء تک انٹریرر سلطنت اور پھر 938 میں Ngo Quyenنگو کوین نے چین کی فوجوں کو دریائے باچ ڈانگ پر شکست دی اور چین کی ایک ہزار سالہ برتر ی سے مکمل آزادی و خود مختاری حاصل کر لی۔

پھر یہاں للے اور ٹران سلطنت کا دور رہا جو ویت نام کا سنہری دور کہلاتا ہے اس دور میں یہاں Mahayana ماہایانا بدھ مذہب کو عروج ملا اور یہ ریاست کا مذہب بن گیا۔ سولہو یں صدی عیسوی ہی میں دنیا کے بیشتر علاقو ں کی طرح یہاں بھی یورپی قوتیں نو آبادیا تی نظام کے ساتھ وارد ہونے لگیں۔ 1500 ء میں پرتگالی یہاں پر آئے 1533 میں ویت نام ڈیلٹا پر اُ نہوں نے قدم جمانے کی کوشش کی مگر مقامی مزاحمت کی وجہ سے اُن کو واپس ہو نا پڑا۔

اُنہوں نے ماکانو اور نا گا ساکی جاپان سے تجارتی راستے اپنائے اور سلطنت ویت نام میں اپنے عیسائی کیتھو لک مشن بھیجے۔ اس کے بعد یہاں ڈچ آئے اور ڈچ ایست انڈیا کمپنی کی طرف سے تجارت شروع کی۔ 1613 میں بر طانیہ نے پہلی کوشش کی مگر یہاں بھی لڑائی کے واقعات ہوئے۔

اس دوران ویت نام خصوصاً جنوبی ویت نام میں عیسائیت کی تبلیغ سے کچھ مقامی آبادی نے کیتھولک عیسائیت کو قبول کیا یہ عمل زیادہ تر فرانس کے تاجروں کے یہاں 1615 سے1753 کے دوران آنے سے ڈانگ ٹرونگ کے علاقے میں ہوا اور پھر ملک کے دیگر علاقوں میں بڑھنے لگا۔ کچھ عرصہ بعد ویت نامی سلطنت نے اِن عیسائیوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھا اور کچھ پادریوں کو گرفتار کر لیا۔ اس پر 1834 میں یہاں فرانسیسی نیوی نے اپنی حکومت سے ویت نام میں مداخلت کیمنظوری چاہی اور اِن عیسائی مبلغین کو رہا کر وایا گیا۔ اس طرح ویت نام کی خود مختاری بتدریج کم ہو نے لگی۔

1884 میں تقریبا پورا ویت نام فرانس کے قبضے میں آچکا تھاجس میں ویت نام کے مرکزی اور شمالی علاقے اننام اور ٹونکن تھے۔ اب یہاں، خصوصاً جنوبی ویت نام میں کیتھو لیک عیسائیت متعارف ہو چکی تھی۔ فرانسیسی انتظامیہ نے یہاں بہت سی ثقافتی، سیاسی تبدیلیاں کیں۔ مغربی طرز کی ماڈرن تعلیم کو فروغ دیا۔ کیتھو لک تبلیغ کی سرپرستی کی اور فرانسیسی آباد کار Cochinchina (کوچیننچینا) میں خصوصاً سیگان اور ہونا ئی میں آباد ہو نے لگے جو اس نو آبادیاتی ویت نام کا دارالحکومت تھا۔ پھر یہاں Can Vuong Movement (کان وُنگ گوریلا تحریک) شروع ہوئی جو فرانسیسی انتظامیہ کے خلا ف بغاوت تھی۔

اس تحریک میں یہاں آباد کیتھولک آبادی کا تیسرے حصے کوقتل کر دیا گیا۔ فرانس نے 1890 میں اِن کو شکست دی پھر ایک اور تحریک Thai Ngu Yen تھائی نگوین کی تھی اس نے بھی فرانسیسی انتظامیہ کو کافی نقصان پہنچایا۔ فرانس نے یہاں جدید دنیا کے تقاضو ں کے مطابق اقتصادی ترقی کی اور ویت نام سے تمباکو،چائے،کافی برآمدکی جس کی وجہ سے مقامی طور پر بھی روزگار میں بہتری آئی مگر فرانس نے یہاں خود مختار مقامی حکومت اور سول رائٹس کو نظر انداز کیا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں نو آبادیاتی نظام میں جکڑے ملکوں میں کئی تحریکیں ابھرئیں تو ویت نام جہاں قومی مزاج میں آزادی اور خودی مختاری کا جذبہ شروع ہی سے تھا یہاں بھی ویت نامی قوم پرستی کی تحریکیں شروع ہوئیں بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے یہاںیہ قوم پرست تحریکیں زور پکڑ نے لگیں اور اِن سے مقبول لیڈ ر شپ ابھر کر سامنے آئی جن میں فان بوئی چاؤ، فان چاؤ ٹرین ، فان ڈن فؤنگ ، شاہ ہام ناگی اور ہوچی من شامل تھے۔ 1917 کے سوویت اشتراکی انقلاب کے بعد ہند چینی کے وسیع علاقے اور آبادی میں کیمونزم کے نظریات قوم پرستی، وطنیت ،آزادی اور خود مختاری سے ہم آہنگ ہونے لگے۔ ویت نام میں 1930 میں ویتنامی نیشنلسٹ پارٹی بنی۔

یہ وہ دور ہے جب پہلی جنگِ عظیم کی تباہ کاریو ں کے اثرات پوری دنیا کی اقتصادیات اور معا شیا ت کو متاثر کرنے لگے تھے مغربی اتحادی قوتیں جنگِ عظیم اوّل جیتنے کے باوجود کمزور ہو گئی تھیں 1930-32 کی عالمی کساد بازاری نے اقتصادی بحران پیدا کر دیا تھا جس کے باعث مغربی قوتوں کی نو آبادیات و مقبوضات میں آزادی کی تحریکوں کے لیے ماحول سازگار ہوا تھا تو دوسری جانب عالمی سطح پر دوسری عظیم جنگ کے اسباب بھی پیدا ہو گئے تھے۔

لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی وجہ سے نو آبادیاتی قوتوں کو مقبوضات میں طاقت کے استعمال سے کو ئی روکنے والانہیں تھا۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ یہ نو آبادیا تی قوتیں خود سیاسی حکمت عملی استعمال کر رہیں تھیں جن میں کامیاب حکمت عملی بر طانیہ اور نئی سپر پاور امریکہ کی تھی جو اُس وقت کے تناظر میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقدامات کر رہی تھیں۔ فرانس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ ایک بڑی مغربی قوت تو ضرور تھا مگر اُ س نے اپنی تقریباً ہر نو آبادیات میں طاقت کا استعمال زیادہ کیا۔

1939 میں جنگِ عظیم دوئم شروع ہوتے ہی فرانس جرمنی سے شکست کھا گیا مگر اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر لڑتا رہا۔ جنگِ عظیم دوئم کے دوسرے سال 1940 میں جب جنگ بحر ِ اقیا نوس پہنچی تو جاپان نے یہاں فرانس کی انڈو چا ئنا نو آبادیات پر قبضہ کر لیا۔ جاپان نے یہاں اپنی فوجوں کو رکھا اور انتظامیہ کو اپنے زیرِ کنٹرول کا م کر نے دیا مگر یہاں ویت نام کے وسائل کو بیدردی سے استعمال کیا اور یہی وجہ تھی کہ مارچ 1945 میں ویت نام میں قحط رونما ہوا جس کی وجہ سے یہاں 20 لاکھ ویت نامی ہلاک ہو ئے۔ پھر یہاں ویت من کیمو نسٹ نظریے کے تحت زبردست تحریک شروع ہوئی جس میں ہوچی من نے اہم کردار ادا کیا۔

یوں 1941 سے 1945 تک یہ پہلی انڈو چائنا جنگ کہلائی 7 اور 9 اگست 1945 میں جاپان پر امریکہ کی جانب سے ایٹم بم کے استعمال کے بعد دوسری جنگ عظیم ختم ہو گئی مگر حقیقت یہ ہے کہ 1945 کے آغاز ہی میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب یہ جنگ ختم ہو نے والی ہے۔ جنگ کے خاتمے پر آپس کے ممکنہ مسائل اور تنازعاتکے اندیشے کے پیش نظر امریکہ، برطانیہ اور فرانس پر مشتمل مغربی اتحاد نے اشتراکیت کو روکنے کیتیاری شروع کی۔

جاپان پر باوجود اس کے کہ امریکہ نے ایٹم بم گرائے تھے، جنرل میکا رتھرنے ایک ایسا معاہد کر لیا تھا جس کے تحت جنگ کے بعد جاپان کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی بھی یقینی تھی اور کچھ شرائط کے ساتھ اس کی آزادی و خود مختاری کو بھی تسلیم کیا گیا تھا البتہ اس کی حیثیت کو جنگ عظیم دوئم سے قبل کی جیسا بننے سے ہمیشہ کے لیے روک دیا گیا تھا۔ یہاں ہند چینی میں اشتراکیت کو روکنے لییبرما،کمبوڈیا، لاوسانڈو نیشیا، ملائیشیا تھائی لینڈ میں بھی پہلے سے منصوبہ بندی کر لی گئی تھی اور اس علاقے میں اس کی ذمہ داری بنیادی طور پر برطانیہ کو سونپی گئی تھی جس کی فوجیں یہاں ہند وستان میں بھی قریب تھیں اور برما میں بھی، یوں ویت نام میں یہ طے کر لیا گیا کہ یہاں انڈو چائنا میں فرانس کے قبضے کو تسلیم کیا جا ئے گا۔

اب فرانس جنگ عظیم دوئم کی وجہ سے کمزور ہو گیا تھا یہاں اُس کے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے بنیادی کرادر بر طانیہ نے ادا کیا اور اس فوجی آپریشن کو Operation Masterdom ماسٹر ڈم کا نام دیا گیا۔ لارڈ ماونٹ بیٹن آف انڈو نیشیا نے یہاں جنرل ڈیگلس گریسی کی کمانڈ میں ہند ستانی فوج کے ساتھ جاپانیوں کو بھی استعمال کر تے ہو ئے فرانس کے قبضے کو مستحکم کیا۔

ویت نام میں کمیونسٹوں کی قوت اتنی مضبو ط تھی کہ جنرل گریسی کو یہاں مارشل لا نا فذ کر نا پڑا جس پر کہا جا تا ہے کہ لارڈ ماونٹ بیٹن خوش نہیں تھے۔ 21 ستمبرکو ماونٹ بیٹن نے بیان دیا کہ جنرل گریسی کو یہاں عوام کے تحفظ کی ذمہ داری دی گئی ہے مگر چیف آف اسٹاف اور بر طانوی وزارت خارجہ نے امن و امان کے لیے گریسی کی حما یت کی اور جنرل گریسی نے یہاں بغاوت پر قابو پا لیا، لیکن یہ عارضی کامیابی تھی کیو نکہ ویت نامی شروع ہی سے آزادی کے لیے گوریلا طرز کی طویل جنگ کے عادی تھے۔ انہوں صدیوں کی تاریخ میں اسی طرز کی جنگیں لڑیں تھیں۔

چین میں ماوزے تنگ کی قیادت میں مسلح تحریک آزادی جاری تھی، یہاںفرانس کے خلاف تحریک شروع ہو گئی تھی جس کے نمایاں لیڈر ہو چی من تھے۔ اُنہوں نے شروع میں یہ چاہا کہ معاملات جنگ کی طرف نہ جائیں اور فرانس پورے ویتنام کو نوآبادیاتی نظام سے آزادی دے کر تعلیم و ترقی میں مدد دے مگر ایسا نہ ہو نا تھا نہ ہوا۔1989-90 میں جب سابق سویت یونین میں صدر گاربوچوف نے گلاسنس اور پرسٹرائکا کے عنوانات سے اصلاحات نافذ کیں تو روس ،یوکرائن ،مشرقی اور مرکزی یورپی ریاستوں اور سنٹرل ایشیا سمیت مشرقی یورپ کے وارسا گروپ کے اتحادی ملکوں میں لینن اسٹالن سمیت تاریخ کے اہم ترین کیمو نسٹ لیڈروں کے دیو قامت مجسموں کو عوام نے چند دنوں ہی میں زمیں بوس کر دیا تھا۔

لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اشتراکی فلسفہ اُس کے نظریا ت یا وہ لیڈر جھوٹے تھے جنہوں نے یہ فلسفہ اور نظریات دئیے تھے۔ عوامی جمہوریہ چین، شمالی کوریا ،کیوبا اور ویت نام وغیرہ وہ ملک ہیں جنہوں نے کیمونزم سوشلزم کی بنیاد پر ون پارٹی نظام ِ حکو مت کو برقرا رکھتے ہوئے اصلاحات کا عمل شروع کیا اور معاشی ، اقتصادی سیاسی ،اور معاشرتی اصلاحات کو بتدریج اور مرحلہ واراپنے ملکوں کے معاشرتی،سیاسی تقاضوں کے مطابق نافذ کیا اور یوں دنیا میں آزاد مارکیٹ، نجی ملکیت کے رائج نظام سے خود کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کر لیا۔

چین میں ماوزے تنگ آج بھی چین کا بابائے قوم ہے اور اسی طرح ویتنام میں ہو چی من کو عظیم انقلابی لیڈر تسلیم کیا جا تا ہے اور سائگون کے شہر کا نام ہوچی من سٹی ہے۔ آج بھی ہونائی، ہوچی من سٹی اور ویت نام کے دوسرے شہر وں میں ہو چی من کے بڑے بڑے مجسمے شان و شوکت سے کھڑے دکھا ئی دیتے ہیں اور کروڑوں عوام اُن کا احترام کر تے ہیں۔ ہوچی من 19 مئی 1890 کو شمالی ویتنام میں پیدا ہو ئے اُن کا گھرانہ ا یک پڑھا لکھا اور متوسط گھرانہ تھا لیکن ایام جوانی اور پھر خصوصاً پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے اُن کو بھی روزگار کے مسائل سے دو چار ہو نا پڑا۔ وہ کبھی کلرک ہو ئے کبھی ٹیچر اور کبھی بحری جہازوں میں کام کرتے۔

وہ کام کی غرض سے امریکہ برطانیہ اور دیگر ملکوں میں بھی گئے۔ پھربیسویں صدی کی تیسر ی دہائی کے آغاز ہی سے وہ ایک نمایاں انقلابی گو ریلا لیڈر کی حیثیت سے اُبھر ے۔ وہ شمالی ویت نام کی بنیاد پر 2 ستمبر1945 سے 2 ستمبر1964 تک اوّل صدر رہے۔ 19 فروری1951 میں ہوچی من ویتنام کیمونسٹ پارٹی کے چیرمین ہو ئے اور اس عہدے پر اپنی وفات 2 ستمبر 1969 تک یعنی 79 سال کی عمر تک کام کرتے رہے۔ اُن کی لیڈر شپ کو ماڈرن ہسٹری میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُنہوں نے چالیس سال سے زیادہ جدوجہد کی اور اس دوران اُن کو فرانس، بر طانیہ، امریکہ کے خلاف لڑنا پڑا اور عمر کے آخری حصے میں جب چین اور روس کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے تو چین بھی ویت نام کے خلا ف ہو نے لگا تھا۔

فرانس کے خلاف ویتنامیوں کی گوریلا جنگ 1945 سے1954 تک جاری رہی۔ پہلی انڈو چائنا جنگBattle of Dien Bien Bien Phu (ڈین بین بین فو کی لڑائی) میں فرانس کے خلاف کامیابی کی وجہ سے چواین لائی کو جنگ بندی کی بہتر پوزیشن کے لیے جنیوا کانفرنس میں مذاکرات کے لیے بھیجا۔ اس معاملے کو جنیوا معاہدہ 1954 کے تحت یوں حل کرنے کی کو شش کی گئی کہ یہاں شاہی مملکت کمبو ڈیا، لاؤس اور ویتنام تین ملک بنادیئے گئے۔ پھر ویتنام کو مزید دو حصوں شمالی ،جنوبی ویتنام میں تقسیم کیا گیا پھر

17th parallel کے تحت الیکشن شیڈول 1956 دیا گیا اور جنوبی حصے میںتیاریاں شروع ہوئیں اور300 دن کے اندر کیمو نسٹوں کے ڈر سے شمالی ویتنام سے دس لاکھ کیتھولک جنوبی ویت نام منتقل ہوئے اس ہجرت میں امریکی فوجیوں نے اِن کی مدد کی۔ آپریشن ''پسیج ٹو فری ڈم'' کے ذریعے ویت نام کی تقسیم ہو ئی جو پائیدار حل نہیں تھا۔ انڈوچائنا جنوبی ویت نام کی پشت پناہی امریکہ اور فرانس کر رہے تھے اور ان کے ساتھ لاوس ری پبلک آف چائنا اور تھائی لینڈ بھی تھے اور شمالی ویت نام جہاں ہو چی من اقتدار میں تھے اس کو سوویت یو نین، خمر وج جنگجو اور چین کی مدد حاصل تھی۔

شمالی ویت نام میں 1953 سے1956 کے دوران کیمو نسٹ اقتصادی معاشی پالیسوں کے تحت زرعی اور صنعتی اصلاحات کی گئیں اس دوران جنوبی ویتنام کے حامی 450 دانشوروں کو ری ایجوکیشن سنٹر بھیجا گیا جہاں اُن پر تشدد بھی ہوا۔ دوسری جانب جنوبی ویت نام جسے ویت کانگ بھی کہا گیا وہاں 1950 سے کیمونسٹ تحریک شروع ہو ئی 'جس کو شمالی ویت نام اور سویت یونین کی مدد حاصل تھی' یہ تحریک 1960 تک مزید تیز ہو گئی۔

1963 میں ڈیمس Diems اور بدھ مت تنازعہ کی وجہ سے یہاں حالات خراب ہو تے چلے گئے اور سیاسی بحران بڑھتا گیا۔ ڈیمس کا مسئلہ یہ تھا کہ اُسے امریکہ فرانس کے علاقے میں کیمونزم کو روکنے کیے لیے لائے تھے مگر وہ خود بدھ مت کے خلاف تھا اور ساتھ ہی ایک کرپٹ حکمران تھا۔ مقامی طور پر لوگ اس کے خلاف ہو گئے اور دوسری جانب یہاں جنوبی ویتنام میں مو جود کیمونسٹوں کو عوامی حمایت حاصل ہو ئی۔ ڈیمس کے عبرتناک انجام کے بعد بھی ویت کانگ یعنی جنوبی ویت نام میں حالات مکمل طور پر قابو میں نہ آسکے۔

امریکہ میں جان ایف کینڈی کے قتل کے بعد 22 نومبر1963 کو لنڈن بی جا نسن صدر ہو ئے۔ غالباً یہ امریکہ کی تاریخ کے ناکام ترین صدر تھے۔ ایک ایسے صدر جنہوں نے حقائق عوام اور کانگریس دونوں سے چھپائے۔ امریکی صدر نے ویت نام کی جنگ کو اعلیٰ اخلاقیات اور مقاصد کے حصول کی جنگ کے طور پر اپنے اتحادیوں اور خصوصاً امریکی عوام کے سامنے پیش کیا تھا مگر وہ پینٹاگان اور فوج کی جانب سے ویت نام میں کئے جانے اقدمات کو چھپاتے رہے۔

اس دوران U thant یو تھان 3 نومبر1961 سے 31 دسمبر1971 تک اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل رہے۔ جنہوں نے کیوبا میزائل بحران میں اہم کردار ادا کیا تھا یہاں باوجود کو شش کے ناکام رہے۔ امریکہ اگر چہ ویت نام کی جنگ میں فرانس کے ساتھ 1955 میں شامل ہوا تھا لیکن حقیقت میں امریکہ نے جنگ میں اپنی پوری فوجی قوت 1963-64 میں جھونک دی اور1965 میں امریکی فوجیوں کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی جب کہ یہاں امریکی ایئر فورس اور نیوی نے بھی بھر پور حصہ لیا تھا۔ اس کے مقابلے سویت یونین اور چین نے اپنے 15000 فوجی ماہرین بھیجے اور ساتھ ہی گوریلا جنگ اور جنگ میں اسلحہ کی جتنی ضرورت شمالی ویتنام کو اور جنوبی ویتنام میں لڑنے والے کیمونسٹوں کو تھی اُسے پورا کرتے رہے۔

ویتنام میں جنگ کا جواز 1963 گلف آف ٹاکن کے قریب امریکی نیوی کے بحری جہازوں پر ویتنام کی کشتیوں کی جانب سے فائرنگ کو بنا یا گیا تھا۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ الزام بھی درست نہیں تھا اور یہ جنگ کے لیے ایک بہانہ بنا یا گیا ویتنام کی جنگ امریکہ کی تاریخ میںایک ایسا اہم واقعہ ہے جس میں امریکہ کو نہ صرف شکست کا سامنا کر نا پڑا بلکہ اُس وقت پوری دینا کے سامنے امریکہ اس جنگ کے لیے کوئی اخلاقی جواز پیش کر نے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔ اس جنگ میں امریکہ کی سیاسی عسکری اسٹرٹیجی بھی سوویت یو نین کے مقابلے میں ناکام رہی۔

سوویت یونین اور چین نے اس جنگ میں براہ راست اپنی فوجیں میدان ِ جنگ میں نہیں اتاریں صرف پندرہ ہزار عسکری ماہر ین شمالی ویتنام کو فراہم کئے، البتہ یہ ضرور ہے کہ امریکہ کے خلاف ویتنامیوں کی اس گوریلا جنگ میں جس قسم کے اور جس قدر اسلحے کی ضرورت تھی وہ فراہم کیا گیا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ نے اپنی پانچ لاکھ فوج،نیوی اور فضائی قوت کا بھر پور استعمال کیا۔ اگرچہ امریکہ اس جنگ میں 1959 میں شریک ہو ا تھا لیکن 1963-64 سے یہ امریکہ کی جانب سے بڑی جنگ بن گئی۔ اس جنگ میں امریکہ کے اتحادی کوریا، آسٹریلیا، تھائی لینڈ ،نیوزی لینڈ،اور جنوبی کو ریا تھے۔

اس جنگ کا باضابط اختتام تو 30 اپریل 1975 کو جنوبی ویتنام کے شہر سائگان پر قبضے کے بعد ہوا اور اس شہر کا نام ہوچی من سٹی رکھ دیا گیا ملک کا نام اشتراکی جمہوریہ ویتنام ہو گا لیکن امریکہ کے لیے واپسی کا راستہ 27 جنوری 1973 میں پیرس امن معاہدے Paris Peace Accords سے ہموار ہوا۔ 29 مارچ 1973 سے امریکی فوجوں کی واپسی ویتنام سے شروع ہو گئی تھی۔ اس جنگ میں38 لاکھ ویتنامی اور 58159 امریکی فوجی ہلاک جبکہ بڑی تعداد میںزخمی اور معذور ہو ئے۔

جنگ پر امریکہ کے 168 بلین ڈالر خرچ ہوئے۔ جب زرِ ازالہ کی مد میں سالانہ22 بلین ڈالر جاری ہوئے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ ناکامی صدر جانسن کے حصے میں آئی۔صدر کینیڈی کی اچانک موت کے بعد وہ صدر ہو گئے تھے اور جو سیاسی بصیرت صدر آئزن ہاور اور خصوصاً صدر کینیڈی کی تھی وہ سیاسی بصرت عالمی سیاست کے لحاظ سے صدر جانسن کو نصیب نہیں ہوئی۔

اس دوران دنیا کے غریب پسماندہ ممالک میں سوشلسٹ، کیمو نسٹ پروپگنڈہ پر مبنی ادب میں بڑی رومانویت اور تاثیر تھی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کا جو چار ٹر اور ہیومن رائٹس ڈیکلریشن تھا اس پر خود امریکہ ہی میں پوری طرح عملد آمد نہیں ہو رہا تھا۔جمہوریت کی جو صورت اب ارتقائی عمل سے گذر کر امریکہ میں نکھر کر سامنے آئی ہے اُس وقت ایسی نہیں تھی۔ مثلاً اس دور میں امریکہ کی خانہ جنگی کو سوسال گذر چکے تھے جب اس خانہ جنگی یا انقلاب کے نتیجے میں امریکہ میں غلا م داری کا نظام ختم ہو گیا تھا۔ سیاہ فا م آزاد ہو گئے تھے مگر ساٹھ کی دہا ئی تک سیاہ فاموں کے ساتھ امتیازی سلوک جاری تھا اُن کو سفید فاموں کے مقابلے میں برابر کے حقوق حاصل نہیں تھے۔

سیاہ فاموں کی تنخواہیں سفید فاموں کے مقابلے میں کم تھیں۔ اُن کو ملا زمتیں بھی نہیں ملتیں تھیں اور پھر سیاہ فاموں کی جد و جہد کے نتیجے میں Civil Rights Act1964 سول رائٹس ایکٹ آیا اور ایک سال بعد ووٹنگ رائٹس ایکٹ1965 آیا مگر اس پر بھی پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو رہا تھا سیاہ فاموں کے ساتھ نسلی امتیاز کی صورتحال کا ندازہ اس سے لگائیں کہ عالمی شہرت کے حامل باکسر محمد علی کلے جو اُس وقت کاسیس مارسیلس کلے تھے جب 22 سال کی عمر میں روم اولمپک 1960 میں ہیوی ویٹ باکسنگ میں امریکہ کے لیے طلائی تمغہ جیت کر لائے تو واپسی پر اُن کو سیاہ فام ہو نے کی وجہ سے ایک ریستورانٹ میں نو کر ی نہیں ملی۔

اس پر وہ اتنے دلبراشتہ ہو ئے کہ روم اولمپک میں جیتنے والے سونے کے تمغے کو انہوں نے دریائے اُہائیو میں پھینک دیا تھا۔ 1964 میں کلے نے وقت کے ورلڈ ہیو ی ویٹ باکسنگ چمپئین سونی لسٹن کو کھلا چیلنج دے کر چھٹے راونڈ میں شکست دی اور اس کے بعد وہ کاسیس مارسیلس کلے سے محمد علی ہو گئے۔ اُن کو ویٹ نام جنگ کے دوران امریکی فوج میں شامل ہونے کے عہد نامے پر دستخط کر نے سے انکار پر سزا دی گئی اور اُن سے اُن کا اعزاز لے کر ہیوی ویٹ باکسنگ چمپیئن سے محروم کر دیا گیا۔

اِس پاداش میں انہوں نے 5 سال قید کی سزا سنائی گئی بعد میں سپریم کورٹ نے عوامی احتجاج کو مد نظر رکھتے ہو ئے اُن کو سزا سے مستثنیٰ قرار دیا۔ ساٹھ ہی کی دہائی ہی میں امریکہ میں سیاہ فام شخصیت مارٹن لوتھر کنگ جو نیئر نمایاں ہوئے جو ایک نو جوان پادری تھے۔

4 اپریل1968 کو انہیں قتل کر دیا گیا۔ کم از کم دو مسیحی گرجاؤں نے اُسے شہید کا درجہ دیا۔ 1964 میں انہوں نے نسلی امتیاز کے خلاف شہری نافرمانی کی پُر امن عدم تشددپر مبنی تحریک چلائی اور احتجاج کے ایسے پُر امنانداز اختیار کیے کہ دنیا حیران رہ گئی اس پر 1964 ہی میں اُن کو نوبل امن انعا م دیا گیا اور وہ اُس وقت سب سے کم عمر نوبل انعام یا فتہ تھے۔ 1968 میں اپنے قتل سے پہلے اُنہوں نے غربت کے خاتمے کی حمایت ا ور ویتنام کی جنگ کی مخالفت کی اور ان بنیادوں پر زبردست جد وجہد شروع کی اور اپنے موقف پر ان دنوں پر دلائل مذہبی نقطِ نگاہ سے پیش کیے۔

1986 کویوم مارٹن لو تھر کنگ کو امریکہ میں قومی تعطیل قرار دیا گیا2004 میں اُن کو کانگریسی طلائی تمغہ دیا گیا۔ ساٹھ کی دہا ئی امریکی تاریخ کی ایک اہم دہائی تھی اس میں جان ایف کینڈی کے قتل کے بعد مارٹن لو تھر کنگ کا قتل دوسرا بڑا قومی سانحہ تھا۔ پھر ویتنام کی جنگ تھی جس میں امریکی حکومت اور فوج کی وجہ سے قومی اور عالمی سطحوں پر امریکہ کو رسوائی کا سامنا کر نا پڑ رہا تھا۔

امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ کے قتل سے 19 دن پہلے 16 مارچ1968 کو My Lai Massacre مائی لای قتل عام کا واقعہ پیش آیا جو تقریباً مارٹن لو تھر کنگ کے قتل کے کچھ دن بعد پوری دنیا میں امریکہ کی رسوائی کا سبب بنا اور اخلاقی اعتبار سے امریکہ کی ساکھ کو دنیا بھر میں نقصان پہنچا مائی لای کا سانئحہ یوںتھا کہ جنوبی ویتنام کےSon Tinh سن ٹین ڈسٹرکٹ میں 16 مارچ1968 کوامریکی فوجیوں نے ایک گاوں میں504 غیر مسلح افراد کاقتل ِ عام کیا۔

امریکی فوجیوں نے اِن نہتے انسانوں پر ظلم کی انتہا کردی۔ بارہ سال تک کی کئی بچیوں کو گینگ ریپ کے بعد قتل کیا گیا۔ ماؤں کی گود میں بچوں تک کو بیدر دی سے ہلاک کردیا گیا اور پھر اِن قتل شدہ بچوں، خواتین اور دیگر افراد کی لاشوں کی تصاویر بھی پوری دنیا کے سامنے آگئیں۔ بعد میں26 فوجیوں پر مقدمہ چلا یا گیا اور صرف لفٹینٹ ولیم کالری William Calllery جو پلاٹون لیڈر تھا اُسے عمر قید کی سزا سنائی گئی اور اُسے بھی ساڑھے تین سال اس کے گھر میں نظر بند رکھنے کے بعد رہائی مل گئی۔

یہ وہ واقعات تھے کہ جن کے منظر عام پر آجانے کے بعد امریکہ ہی میں ویتنام کی اس جنگ کی مخالفت میں روزبروز شدت آتی گئی اس میں جہاں امریکی صدر جانسن کی سیاسی غلطیاں اور امریکی فوجی کمانڈ پینٹا گان کی عسکری غلطیاں تھیں وہیں سب سے اہم دو بنیادی باتیں تھیں۔ ایک یہ کہ ویت نام کی پوری جنگ میں سوویت یونین کی حکمت عملی امریکہ کے مقابلے میں روزِ اوّل ہی سے بہتر رہی کہ سویت یونین نے بڑی تعداد میں یہاں فوجیوں کو نہیں بھیجا۔ ویتنام کا علاقہ بھی گوریلا جنگ کے لیے نہایت موزوں تھا اور یہاں دشمن کے خلاف گوریلا جنگ کی روایت بھی پرانی تھی۔

پھر سوویت یونین کا پر وپگنڈہ یہاں امریکہ کے مقابلے میں بہت پُر اثر تھا اور ساتھ ہی اشتراکی نظریات کی یہاں تعلیم بھی بہت سازگار ماحول اور اچھے انداز میں دی گئی اور سب سے اہم یہ کہ یہاں کمیونسٹ لیڈر شب کو اپنے بہتر کردار کی وجہ سے عوامی اعتماد حاصل تھا جس میں ہو چی من کی شخصیت مثالی تھی جب کہ اس کے مقابلے امریکہ جنوبی ویت نام میں جن کو اقتدار میں لاتا تھا وہ کردار کے اعتبار سے بھی کرپٹ ہو تے تھے اور اُن کو عوامی حمایت بھی حاصل نہیں ہو تی تھی دوسری اہم بات جو اُس وقت امریکہ کے حق میں نہیں رہی مگر بعد میں پائیدار بنیادوں پر امریکہ کے مستحکم مستقبل کی ضمانت بنی وہ امریکہ کی جمہوریت پسندی اور اپنے عوام کو دیا گیا آزادی خیال اور رائے کا حق تھا اور اِن سب سے بھی اہم آزاد اور خود مختار عدلیہ رہی۔

امریکہ سے جو غلطیاں ساٹھ کی دہائی میں اس ویتنام جنگ میں ہو ئیں وہ آمرانہ انداز میں امریکی حکومتوں سے چھپائی نہ جا سکیں اور اُس کی سزا ووٹ کی بنیاد پر یا عدلیہ کے فیصلوں کے تحت منصب اور اقتدار سے برطرفی بھی تھی اور ساتھ ہی سماجی ارتقا کے لحا ظ سے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا فروغ بھی تھا۔ مثلاً 1971 کو امریکہ کے ٹائم رسالے نیپینٹاگان لیکس میں انکشاف کیا کہ امریکہ کی حکومت کی جانب سے جو باتیں عوام کو بتائی گئیں تھیں وہ دروغ گوئی پر مبنی تھیں۔

پھر 1973 میں پیر س معاہدے کے بعد امریکی فوجیوں کی ویتنام سے رخصتی شروع ہوئی 1975 میں ویتنا م متحدہ ہو گیا امریکی صدر جانسن 20 جنوری1969 کو رخصت ہو ئے تو صدر نکسن اقتدار میں آئے اور انہوں نے اپنے دور اقتدار میں 2 اگست 1974 تک ہند چینی کے اس علاقائی مسئلے کو حقیقت پسندی کی بنیاد پر اپنا تے ہو ئے امریکی خارجہ پالیسی کو ایک نیا رخ دیا اور اس میں پاکستان نے اہم کردار اد ا کیا۔

جولائی 1971 میں جب صدر جنرل یحیٰ خان تھے پاکستان سے امریکہ چین تعلقات کی بحالی کے لیے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے پی آی اے کی پرواز سے خفیہ دور ہ کیا اور یہی وہ دور تھا جب چین سوویت یونین تنازعات بڑھ گئے تھے اور و یتنام جس کی چین نے جنگ میں بھی کی مدد کی تھی اب اُس کا جھکاؤ اور مکمل انحصار سوویت یونین پر ہونے لگا تھا اور ویتنام اور چین میں دوریاں پیدا ہونے لگیں تھیں۔ دوسری جانب اس کا خمیازہ مفت میں پاکستان کو سوویت یونین اور بھارت کی دشمنی کی وجہ سے دسمبر1971 کی جنگ میں بھگتنا پڑا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب امریکہ نے سرد جنگ کے تناظر میں پینترا بدلا تو اس کا فائدہ امریکہ کو ہوا۔

بدقسمتی سے صدر نکسن بعد میں واٹر گیٹ اسکینڈل میں بری طرح پھنس گئے اور اُن کو انپی صدارت سے ہاتھ دھونے پڑے لیکن یہ حقیقت ہے کہ صدر جان ایف کینیڈی نے امریکہ کی ساکھ کو کیوبن میزائل بحران میں نہ صرف بحال کیا تھا بلکہ اُس وقت امریکی عوام کا حوصلہ بھی بلند کیا تھا۔ اِن کے بعد جانسن نے اپنے دور اقتدار میں امریکہ کی ساکھ کو اخلاقی اور جذباتی دونوں انداز سے نقصان پہنچا یا۔ 1979 تک یہاں ہند چینی کے علاقے میں ویت نام اور چین ایک دوسرے سے دور ہوگئے اور سوویت یونین ویتنا م نزدیک تر ہو ہوگئے اور یہی زمانہ تھا جب سرد جنگ اختتام کے نزدیک پہنچ رہی تھی اور پھر 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوا لیکن سوویت یونین کے زوال کا ٹھیک ٹھیک اندازہ اُس وقت ویتنام کی قیاد ت کرچکی تھی۔

دسمبر 1986 میں ویت نام کی نیشنل کیمو نسٹ پارٹی کی چھٹی کا نگریس میں ملک میں سیاسی اصلاحات ہوئیںاور پرانی کیمو نسٹ قیادت کی جگہ نئی لیڈرشپ آئی Ngu yen Van Linh نگو ین واںلینہ نے یہ اصلاحات متعارف کرائیں جو پارٹی کے نئے جنرل سیکرٹری تھے اِن اصلاحا ت کی وجہ سے فری مارکیٹ اکنامی کی بنیادوں پر ایک تسلسل کے ساتھ معاشی تبدیلیاں رونما ہو نے لگیں۔ یہ اصلاحات بعد میں Doi Moi ڈوئی موئی کہلائی کیونکہ یہ ڈوئی موئی حکومت تھی اس کو ڈوئی موئی انقلاب بھی کہا جا تا ہے اِن اصلاحات کی وجہ سے نجی ملیکت کی بھی اجاز ت ہو گئی اور پھر بیرونی سرمایہ کاری بھی بہت زیادہ ہو ئی۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں