ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
موت زندگی کی اٹل حقیقت اور مٹی میں ملنا ہر جسم کا مقدر ہوتا ہے
موت کی آخری ہچکی کو جتنا بھی غور سے سنا جائے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ زندگی بھر کا خلاصہ اسی آواز میں ہے۔ انسان جانے انجانے میں زندگی بھر قبر کی تلاش میں بر کی طرف ہی بھاگتا ہے اور جاننے کے باجود بھی نہیں جانتا کہ اس ساری تگ و دو، جدوجہد، منصوبہ سازیوں، کامیابیوں، ناکامیوں، شہرتوں، گمنامیوں کا حاصل کیا ہے۔ زندگی موت کے گھاٹ اتارے بنا جان نہیں چھوڑتی۔ یہ دنیا حقیقت میں ایک پل کی مانند ہے اور کوئی عقل مند پل پر اپنا گھر نہیں بناتا۔ قبر آخرت کی منزلوں میں پہلی منزل ہے اگر مردہ اس سے بچ گیا تو دوسری منزلیں بھی اس پر آسان ہو جاتی ہیں لیکن اگر اسی منزل سے نجات نہ پائی تو دوسری منزلیں بھی کڑی اور مشکل ہو جاتی ہیں۔
موت زندگی کی اٹل حقیقت اور مٹی میں ملنا ہر جسم کا مقدر ہوتا ہے۔ فاتح عالم سکندر اعظم کو جوانی میں بلاوا آگیا۔ دنیا کے سب سے مشہور پہلوان رستم کو بھی اپنی تمام جسمانی توانائیوں کے باوجود زندہ رہنا نصیب نہ ہوا۔ خدائی کا دعویٰ کرنے والے نمرود اور فرعون بھی اپنے معین وقت سے اپنی زندگی ایک دن بھی آگے نہ کرسکے۔ مائیکل جیکسن نے ایک نجومی سے اپنی عمر پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ 60 سال سے زیادہ جی نہیں سکے گا۔ مائیکل جیکسن نے حقارت سے اسے دیکھا اور کہا میں 150 سال تک زندہ رہوں گا۔
اس کے پاس دولت کی کمی نہیں تھی شہرت وسائل اس کی باندی۔ اس نے سب سے پہلے اپنی سیاہ فامی کو سفید فامی میں بدلنے کے لیے بے دریغ دولت لٹائی پورے جسم کی پلاسٹک سرجری کرائی۔ موت سے بچنے کے لیے درجنوں ڈاکٹر اور درجنوں صحت مند نوجوان خریدے جو ضرورت پڑنے پر اسے جسمانی اعضا دے سکیں، ڈاکٹروں کا عملہ روزانہ اس کا خون ٹیسٹ کرتا، دوائیں اور خوراک تجویز کرتا اور مائیکل ڈاکٹروں کی تجویز کردہ غذا اور دواؤں کے علاوہ کسی چیز کو ہاتھ نہ لگاتا تھا۔
اس نے ایک خصوصی کمرہ آکسیجن ٹینٹ کا بھی بنوایا جس میں وہ سوتا، دستانے پہنے بغیر وہ کسی سے ہاتھ نہ ملاتا اور ماسک لگائے بنا وہ باہر نہیں آتا تھا۔ گاڑیاں، جہاز اور ضرورت پڑنے پر ایئر ایمبولینس اور ہیلی کاپٹر تک اس کے زیر استعمال رہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ ان سب چیزوں سے موت کو شکست دینا چاہتا تھا لیکن ایک دن اس کی سانس کی نالی لیک ہوگئی اور اسی وجہ سے وہ صرف 50 سال کی عمر میں اس فانی دنیا کو چھوڑ گیا اور وہاں چلا گیا جہاں وہ 150 سال سے پہلے جانے پر تیار نہ تھا۔ تمام تر ذرائع اور وسائل کے باوجود وہ جان کی بازی ہار گیا یہ بازی آج تک کوئی نہ جیت سکا اور نہ رہتی دنیا تک کوئی جیت سکے گا۔
ہم کم و بیش 23 برسوں سے یتیم و یسیر چلے آ رہے ہیں اور اپنے سر پر دست شفقت رکھنے والوں سے بتدریج محروم ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ ہمارا آبائی خاندان دیکھتے ہی دیکھتے ایک چھوٹے قبرستان میں بدل گیا۔ نانا نانی، دادا دادی، پانچ چچا، پانچوں چچیاں، دو پھوپھا، ساس سسر، تین ماموں تین ممانیاں، تین چچا زاد جواں سال بھائی اور دو چچا زاد بہنیں آناً فاناً اس دنیا سے چلے گئے اور اسی ہفتے عشرہ میں ہماری ایک پھوپھی شدید علالت کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔ اب ہمارے خاندان میں صرف ایک پھوپھی ہمارے اجداد کی واحد نشانی کے طور پر بچی ہیں اور وہ بھی عرصے سے علیل چلی آرہی ہیں۔
افسوس ہم اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور آنے والی مصیبتوں اور پریشانیوں پر کوئی شجر سایہ دار، چھت یا آسمان سے یکسر تہی دست یا محروم ہوچکے ہیں اور یہ محرومی بہت بڑی ہوتی ہے۔ محترم، مربی اور خون سے جڑے پرانے رشتوں سے محروم ہوجانے کا قلق مرتے دم تک رہے گا کہ اللہ کسی کو ان سہاروں سے محروم نہ کرے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی اپنے بہت ہی پیارے یا عزیز کی میت پر بین کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ کٹھن اور تکلیف دہ اس کا بے جان لاشہ دیکھنا اور اس کے جنازے میں شرکت ہوتی ہے، مرنے والے کے پسماندگان سے لفظ نہیں ملتے افسوس کرنے کے کہ کوئی بھی لفظ اس کا مداوا یا تدارک نہیں ہوسکتا۔ اچھے سے اچھے موتیوں جیسے لفظ موت کے مدمقابل کھڑے ضرور ہو جاتے ہیں، ان سے موت ٹکرا ٹکرا کر شرمندہ ہوتی رہتی ہے کیونکہ فنا زندگی کی ایک عریاں حقیقت سہی مگر ہمیشہ کے لیے کسی کے بچھڑ جانے کا دکھ بہت سفاک اور اندوہناک ہوتا ہے۔ کلیجہ چیر دیتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وقت کی بے رحم ہوا کا چلن بہت تیز ہے۔ محو ہوتی ہوئی انسانی یاد داشت سے کوئی نہیں ٹکرا سکتا مگر ہم میں سے ہر سوگوار کو اس سے ٹکرانا ہوتا ہے۔
مرزا غالب نے بھی ایسے ہی کرب ناک حالات یا موقع پر یہ شعر کہا تھا:
ڈھونڈا تھا آسماں نے جنھیں خاک چھان کر
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے