کورونا اور اٹھارہویں ترمیم

اس میں شک نہیں کہ مختلف آمروں کے ہاتھوں برباد شدہ آئین کی 18 ویں ترمیم کے ذریعے جمہوری بحالی عمل میں آئی ہے


عثمان دموہی May 10, 2020
[email protected]

اس وقت جب کہ ملک کورونا کی خوفناک وبا کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے، وفاق کی جانب سے اٹھارہویں ترمیم کے مسئلے کو اٹھانا اکثر لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہے۔ اس خبر نے خاص طور پر پیپلز پارٹی میں تہلکہ برپا کردیا ہے۔ اس خبر کے آنے کے بعد اس کے تمام ہی رہنما وفاق کی جانب سے اٹھارہویں ترمیم پر پھر سے غور و خوض کیے جانے کے بیان کو بے وقت کی راگنی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طے شدہ مسئلے کو پھر سے چھیڑنا ملک کو ماضی کے دھندلکوں میں پہنچانے کے مترادف ہے۔

پیپلز پارٹی کے اہم رہنما سینیٹر رضا ربانی جنھوں نے اس ترمیم کو منظور کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، کہتے ہیں کہ اگر اس ترمیم کو واپس لیا گیا تو وفاق پر گہرے بادل منڈلانے لگیں گے۔ موجودہ حکومت اس ترمیم کو اس وقت رول بیک نہیں کرسکتی کیونکہ خود حکومتی اتحادیوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ اس ترمیم میں کسی قسم کی تبدیلی یا اسے ختم کرنے کے بالکل حق میں نہیں ہیں پھر صرف تین نشستوں پر کھڑی سرکار 18 ویں ترمیم کو کیسے چھیڑ سکتی ہے۔

آزاد مبصرین کا کہنا ہے کہ 18 ویں ترمیم کو ختم کرنا یا اس میں ترمیم کرنا پی ٹی آئی حکومت کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر موجودہ حالات میں اسے چھیڑنا مناسب نہیں ہے کیونکہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے مگر بعض تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ جس طرح حکومت نے سینیٹ میں اپنا چیئرمین منتخب کرالیا تھا اور بعد میں اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنا دیا تھا وہ اسی فارمولے پر عمل کرکے 18 ویں ترمیم کو بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتی ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا حکومت 18 ویں ترمیم کو ختم کرنا چاہتی ہے تو ان کا جواب تھا کہ حکومت کا ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے لیکن اس ترمیم کا پھر سے جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ اس پر پوری طرح عمل درآمد ہو رہا ہے کہ نہیں۔ وفاقی وزیر مملکت علی محمد خان کا کہنا تھا کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس ترمیم سے ملک کو کیا فائدہ ہوا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے پاس ہونے کے بعد پہلی بار کورونا کے ہنگامی دور میں یہ کرائسز پیدا ہوا ہے جس سے احساس ہوا ہے کہ صوبوں اور مرکز کے درمیان رابطہ کاری اور ذمے داری کا بحران موجود ہے۔ دراصل 18 ویں ترمیم میں فائدوں کے ساتھ کچھ سقم بھی موجود ہیں جن کو درست کرنا ضروری ہے۔

18 ویں ترمیم پر حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے معاملے پر تمام سیاسی پارٹیوں میں سب سے زیادہ پیپلز پارٹی برہم نظر آتی ہے جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ترمیم اس کے دور میں 2010 میں اس کی کاوشوں سے منظور ہوئی تھی ،اس سے اسے بہت سکون ملا تھا۔ اس ترمیم کے ذریعے این ایف سی کا مسئلہ، صوبوں کے اختیارات کے مسائل حل اور آئین کی شق 58-2B بھی ختم کردی گئی تھی جن سے صوبوں کی آمدنی میں اضافہ، اختیارات میں وسعت اور جمہوریت بار بار ڈی ریل ہونے سے محفوظ ہوگئی ہے۔ 18 ویں ترمیم پر غور و خوض کرنے کے بیان کے فوراً بعد ہی پیپلز پارٹی کی جانب سے سخت بیانات آنا شروع ہوگئے تھے جو بدستور جاری ہیں۔

پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے فوراً ہی تمام اپوزیشن رہنماؤں سے اس ضمن میں صلاح مشورے شروع کردیے تھے۔ مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی سے لے کر شہباز شریف تک نے اس ترمیم کے برقرار رہنے پر زور دیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی ترمیم یا اس کا خاتمہ ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے مگر خود پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں آگے بڑھ کر 18 ویں ترمیم کو صحیح معنوں میں عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ آئین اور قانون میں بہتری کی ہمیشہ گنجائش باقی رہتی ہے لیکن اگر اس وقت اس ترمیم کو بہتر بنانے کے بجائے اسے بگاڑنے کے لیے مہم چلائی گئی ہے تو یہ کوشش ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتی۔

اس میں شک نہیں کہ مختلف آمروں کے ہاتھوں برباد شدہ آئین کی 18 ویں ترمیم کے ذریعے جمہوری بحالی عمل میں آئی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے تقریباً ایک سو دو ترمیمات کی گئی تھیں جن میں وفاقی اور صوبائی انتظامی ڈھانچے اور باہمی معاملات کا ازسر نو تعین کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی نقص باقی رہ گیا ہے تو اسے باہمی صلاح و مشورے کے ذریعے دور کرلیا جائے نہ کہ آپس میں الجھ کر ملک و قوم کو نئے بحران میں پھنسایا جائے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ اس وقت حکومت اپنے اتحادیوں کے کندھوں پر چل رہی ہے وہ خود تو اس قابل نہیں ہے کہ اس میں ترمیم کرسکے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تو درست ہے کہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خودمختاری دے دی گئی ہے مگر اب وہ اتنے مغرور ہوگئے ہیں کہ وفاق کی بات ہی سننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہ مسئلہ ٹھیک کورونا کی وبا کے دوران اس لیے پیدا ہوا ہے کہ وفاق چاہتا ہے کہ سندھ حکومت کاروبار اور صنعتوں کو کھولنے کی اجازت دے مگر سندھ حکومت کورونا کی آڑ لے کر وفاق کو ٹیکس دینے والے کاروبار اور صنعتوں کو بھی کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس سے وفاق کو کراچی سے موصول ہونے والے ریوینیو میں کمی واقع ہوگی اور یہ صورتحال الطاف حسین کے دور جیسی ہوسکتی ہے۔

تین سال قبل کراچی میں ہر مہینے دو یا تین بار ''را'' کی ہدایت پر زبردستی ہڑتالیں کرائی جاتی تھیں تاکہ پاکستان کی معیشت تباہ کردی جائے مگر حکومت سندھ تو محب وطن ہے اسے کورونا کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے اسے معیشت کی بہتری کے لیے وفاق سے مکمل تعاون کرنا چاہیے ورنہ سالانہ بجٹ کیسے ترتیب دیا جائے گا، وفاق صوبوں کو ان کا حصہ کہاں سے دے گا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت وفاق کا کہنا مان کر دراصل اس پر دباؤ بنا کر اپنے رہنماؤں کے مقدمات ختم کرانا چاہتی ہے مگر اس سے وفاق 18 ویں ترمیم پر غور و خوض کرنے کے معاملے کو حتمی شکل بھی دے سکتا ہے۔

پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال جو 18 ویں ترمیم اور آئین پاکستان پر گہری نظر کھتیر ہیں کا کہنا ہے کہ 18 ویں ترمیم کو ختم نہیں کیا جاسکتا البتہ اس کی خامیوں کو افہام و تفہیم سے دور کیا جاسکتا ہے۔ 18 ویں ترمیم میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور فنڈز کو یونین کونسل کی سطح تک منتقلی کے لیے صوبوں کے لیے واضح ہدایات موجود نہیں ہیں چنانچہ کم سے کم آئین میں ان شقوں کو واضح کرنا ضروری ہے تاکہ شہروں کی بلدیاتی کارکردگی بہتر ہوسکے۔ کراچی شہر کی حالت زار صوبائی حکومت کی ناانصافی کا شاخسانہ ہے۔ حالات یہاں تک ابتر ہیں کہ اسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کا علاج تک موجود نہیں ہے بہرحال اب اس ابتر صورتحال کا تدارک ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں