پاکستانی ڈرامہ طلاق اور تھپڑ تک محدود

ڈراموں کے بے سروپا مکالموں نے باپ بیٹا، ماں بیٹی، بہن بھائی سمیت تمام رشتوں کا تقدس ختم کردیا ہے


راضیہ سید May 12, 2020
ڈرامہ ہمارے معاشرے پر اثر انداز ہونے والی ایک اہم قوت ہے۔ (فوٹو: فائل)

''سنیعہ تم آخر کیا چاہتی ہو؟ میری زندگی جہنم بنادی ہے تم نے۔''

''میں کچھ نہیں چاہتی، مجھے صرف طلاق چاہیے، بس تم مجھے طلاق دے دو۔''سنیعہ چیخ کر بولی۔

سنیعہ اور عامر دونوں کھیل رہے تھے، اسی دوران کسی بات پر ان دونوں میں جھگڑا ہوا تو یہ ساری باتیں ہوئیں۔

یہ قصہ جب مجھے میری خالہ زاد بہن خالدہ نے سنایا تو میں ششدر رہ گئی، اس لیے کہ ان دونوں بچوں کی عمریں 12 سے 14 سال کے درمیان ہیں اور ان کی سوچ ایسی منفی بن رہی ہے۔

بچوں کی طرف سے والدین کی بے توجہی تو الگ رہی، سوشل میڈیائی دور کے کرشمے یہ ہیں کہ پاکستانی ڈرامے میں جدت کے نام پر نام نہاد جدیدیت بھردی گئی ہے۔ فحاشی اور بناوٹ نے ہمارے معاشرے کو دیا ہی کیا ہے؟ دوپٹے سروں سے کیا اترے کہ گلے کی رسی ہی بن گئے۔ اسکرپٹ، اسکرپٹ نہیں ایک عامیانہ سی تحریر ہوگئی ہے۔

خیر اب ان ڈراموں کا ذکر تو چھوڑیں جب پاکستانی ڈراموں کےلیے سرشام ہی گلیاں سنسان ہوجاتی تھیں، جب پڑوسی ممالک میں ان ڈراموں کی دھوم ہوتی تھی۔ وہ دور گیا جب ہر کسی کی نظر میں پاکستانی فنکاروں کےلیے ستائش ہوا کرتی تھی۔

اب ڈاکٹر انور سجاد، احمد ندیم قاسمی، بانو قدسیہ، اصغر ندیم سید، حسینہ معین جیسے ڈرامہ نگار تو ہیں نہیں اور ہمیں چاہیے ریٹنگ۔ جس کے لیے ہر چینل ہر حد عبور کررہا ہے۔

مانا کہ چند اچھی ڈائجسٹ رائٹرز جیسے عمیرہ احمد، فرحت اشتیاق، فائزہ افتخار چندا نے کئی اچھے ڈرامے لکھے۔ فصیح باری خان، خلیل الرحمان قمر اور عمران نذیر بھی نئے چہرے نہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں آج کل اسکرپٹ طلاق اور طمانچے کے گرد ہی گھومتا دکھائی دینے لگا ہے۔

جس ملک میں سوشل میڈیا پر ہر کوئی لکھاری ہے اور اس سلسلے میں درج ذیل دو مفروضات پر یقین رکھتا ہے وہاں کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟

ان میں سے پہلا مفروضہ تو یہ ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں لکھ سکتا ہوں اور دوسرا یہ کہ میں ہر موضوع پر لکھ سکتا ہوں۔ ایسے میں بہتری کی کیا امید؟

ہمارے ہاں اب کہانی تسلسل اور تجسس کے ساتھ آگے نہیں بڑھ رہی۔ ہاں لیکن یہ ضرور علم ہوتا ہے کہ اب یا تو تھپٹر ملے گا یا طلاق کی فرمائش ہوگی۔

اب بناوٹ بھرے مکالمے بعد میں بولے جاتے ہیں، پہلے کرداروں کی عکاسی طمانچے اور شوروغل سے ہوتی ہے۔ اب چاہے پسند کی شادی نہ ہو یا بیٹی گھر سے بھاگ جائے، خاوند کی باہر 'سرگرمیاں' ہوں یا بیوی وفا شعار نہ ہو۔ معاشی مسائل ہوں یا نفسیاتی عوارض۔ ان ڈراموں کے بے سروپا مکالموں نے باپ بیٹا، ماں بیٹی، بہن بھائی سمیت تمام رشتوں کا تقدس ختم کرتے ہوئے انھیں ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔

میرے مخاطب سب ڈرامہ نگار نہیں، سب فنکار نہیں، لیکن میں اس رحجان کی بات کر رہی ہوں جو تشویش ناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ ہم اپنی تحریروں میں یہ کیوں بتانا چاہتے ہیں کہ طلاق اچھی چیز ہے اور شادی شدہ زندگی کو مفاہمت سے نہیں چلایا جاسکتا؟

ہم یہ کیوں نہیں بتاسکتے کہ جب تک ناگزیر نہ ہو طلاق نہ لی جائے، کیونکہ طلاق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔

ہمارے پڑھے لکھے شہروں میں اوسطاً روز 150 طلاقیں ہوتی ہیں۔ لاہور میں 2017 میں 18 ہزار 770 طلاقیں ہوئیں، جو ایک ریکارڈ ہے۔ 2018 میں لاہور ہائی کورٹ میں 15800 کیس خلع کے فائل ہوئے اور لاہور کی 8 فیملی عدالتوں نے 7707 خواتین کو خلع کی ڈگری جاری کی۔

ہم اپنی تحریروں میں یہ کیوں نہیں بتاسکتے کہ طلاق سے خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے؟ میاں بیوی تو الگ ہوتے ہی ہیں، سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے۔ فیملی کورٹس کیسز بہت تاخیر سے حل ہوتے ہیں، پیسے کی بربادی اور ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

ہم ڈراموں میں یہ کیوں نہیں دکھا سکتے کہ تھپڑ کا کلچر متشدد رویہ ہے اور ہمیں اس سے گریز کرنا ہے۔ ہم کسی متشدد کردار کو ہی ہیرو کیوں دکھاتے ہیں؟

یہ مت کہیے کہ لوگ یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ لوگ ہمیشہ اچھا دیکھنا چاہتے ہیں، لوگ تفریح چاہتے ہیں جو ان کی ذاتی زندگیوں میں ہورہا ہے اور تلخی بھری ہے وہ پردہ اسکرین پر نہیں دیکھنا چاہتے۔

رائے عامہ ہمیشہ تشکیل دی جاتی ہے۔ پالیساں وضع کی جاتی ہیں۔ اچھے قلم کاروں کو ڈھونڈا جاتا ہے اور اچھے فنکار بنائے جاتے ہیں۔

یقین رکھیے کہ ڈرامہ اب بھی ہمارے معاشرے پر اثر انداز ہونے والی ایک اہم قوت ہے، جس کی درستگی بروقت ہوسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں