امام شافعیؒ
بوڑھے نے جواب میں کہا کہ خوش ہو جاؤ خدا نے تمہارا شوق پورا کردیا
ہم پرانے زمانے کے لوگوں کی یہ عادت پختہ ہو چکی ہے کہ جب کوئی تحریر پسند آتی ہے تو اسے سنبھال کر رکھ لیتے ہیں ایسی ہی ایک سنبھالی ہوئی تحریر پیش خدمت ہے دراصل یہ ایسے ہی موضوعات ہیں جن کے بارے میں ہمیں لکھنا اور پڑھنا چاہیے۔ ماضی کے ان چراغوں میں مستقبل کی روشنی ہے یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔
حضرت امام شافعیؒ سنی عقیدے کے چار فقہی مکاتب میں سے ایک کے امام اور بانی ہیں اور ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کو مسلمانوں کا حافظہ کبھی فراموش نہیں کر سکے گا۔ حضرت امامؒ نے اپنی ابتدائی زندگی کی یہ مختصرروداد اپنے ایک شاگرد ربیع بن سلیمان سے بیان کی اور اس شاگرد رشید نے یہ نیکی کی کہ اس آنے والے زمانوں کے لیے قلمبند کر لیا۔ یوں یہ نادر حکائت ہم تک پہنچی اور میں یہ تحفہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ اسے میرا سیاسی قصے کہانیوں کا کفارہ سمجھئے۔
حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ جب میں مکہ سے روانہ ہوا تو میری عمر چودہ برس تھی اس حال میں کہ دو یمنی چادریں میرے جسم پر تھیں ۔ ذی طویٰ پہنچا تو ایک پڑاؤ دکھائی دیا میں نے صاحب سلامت کی تو ایک ضعیف العمر شخص میری طرف بڑھا اور مجھے اپنے ساتھ کھانے میں شرکت کی دعوت دی ۔ میں نے بے تکلفی سے وہ دعوت قبول کر لی، کھانے سے فارغ ہو کر میں نے خدا کا شکر اور اس بوڑھے میزبان کا شکریہ ادا کیا ۔کھانے کے بعد باتیں ہونے لگیں تو میزبان نے سوال کیا کہ ''کیا تم مکی ہو'' میں نے اثبات میں جواب دیا، پھر پوچھا ''کیا تم قریشی ہو'' میں نے جواب میں ہاں کہا اور پوچھا کہ چچا آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں مکی اور قریشی ہوں ۔
انھوں نے جواب دیا کہ شہری ہونا تو تمہارے لباس سے ظاہر ہے اور قریشی ہونا تمہارے کھانے سے معلوم ہوا۔ جو شخص دوسروں کے کھانے میں بے تکلفی برتتا ہے وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کا کھانا دل کھول کرکھائیں اور یہ خصلت صرف قریش میں ہے۔ میں نے پھر پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں جواب ملا رسول اللہﷺکا شہر مدینہ میرا وطن ہے۔ میں نے پوچھا کہ مدینے میں کتاب و سنت کا سب سے بڑا عالم و مفتی کون ہے۔بزرگ نے جواب دیا قبیلہ بنی اصبح کا سردار مالک بن انس (امام مالکؒ) ۔ میں نے عرض کیا خدا ہی جانتا ہے مجھے امام مالک سے ملنے کا کتنا شوق ہے۔
بوڑھے نے جواب میں کہا کہ خوش ہو جاؤ خدا نے تمہارا شوق پورا کردیا ۔ اس بھورے اونٹ کو دیکھو یہ ہمارا سب سے اچھا اونٹ ہے تم اسی پر سوار ہو گے ۔تیار ہو جاؤ قافلہ کوچ کرنے والا ہے ۔پھر بہت جلد تمام اونٹ ایک قطار میں کھڑے کر دیے گئے مجھے اسی اونٹ پر بٹھا دیاگیا اور قافلہ روانہ ہو گیا۔ میں نے تلاوت شروع کر دی ۔ مکہ مدینہ تک کے سفر میں سولہ قرآن پاک ختم ہو گئے ۔ ایک دن میں ختم کر لیتا دوسرا رات میں۔
آٹھویں دن عصر کے وقت ہمارا قافلہ مدینہ میں داخل ہوا۔ مسجد نبویﷺ میں نماز پڑھی ، پھر مزار مقدس کے قریب حاضر ہوا ۔ درود و سلام پڑھا ۔ امام مالک ؒ دکھائی دیے ۔ ایک چادر کی تہہ بند باندھے تھے دوسری چادر اوڑھے ہوئے تھے اور بلند آواز میں حدیث کی روائت کر رہے تھے ۔ یوں روائت کرتے تھے ''مجھ سے نافع نے ابن عمر کے واسطے سے اس قبر کے مکین سے روائت کیا '' اور یہ کہہ کر اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور قبر مبارک کی طرف اشارہ کیا۔
سبحان اللہ ۔ درس و تدریس کا کیا انداز ہے ۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ یہ انداز اور نظارہ دیکھ کر میرے دل پر امام مالک کی ہیبت چھا گئی اور درس میں جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا ۔ میں نے جلدی سے ایک تنکا اٹھا لیا اور امام جب کوئی حدیث سناتے تو میں تنکے کو لعاب دہن میں تر کر کے اپنی ہتھیلی پرلکھ لیتا ۔ امام میری یہ
حرکت دیکھ رہے تھے مگر مجھے اس کی خبر نہ تھی ۔ آخر مجلس ختم ہو گئی اور امام مالک دیکھنے لگے کہ سب کی طرح میں بھی اٹھ جاتا ہوں یا نہیں ۔ میں اپنی جگہ پر ہی بیٹھا رہا تو امام مالک نے مجھے اشارے سے بلایا، میں قریب پہنچا تو کچھ دیر مجھے بڑے غور سے دیکھتے رہے پھرفرمایا تم حرم کے رہنے والے ہو۔ میں نے عرض کیا۔ جی ہاں۔ پوچھا مکی ہو۔ میں نے کہا جی ہاں! فرمایا سب اسباب پورے ہیں ۔مگر تم میں ایک بے ادبی ہے ۔ میں رسول اللہ ﷺ کے کلمات طیبہ سنا رہا تھا اور تم تنکا لیے اپنے ہاتھ سے کھیل رہے تھے ۔
میں نے عرض کیا کاغذ پاس نہیں تھا اس لیے جو کچھ سنتا ہاتھ پر لکھتا جاتا تھا ۔ اس پر امام مالک ؒنے ہاتھ کھینچ کر دیکھا اور فرمایا ہاتھ پر توکچھ بھی لکھا ہوا نہیں ہے ۔ میں نے عرض کیا لعاب تو باقی نہیں رہتا ۔لیکن آپ نے جتنی حدیثیں سنائی ہیں مجھے سب یاد ہو چکی ہیں ۔ امام کو تعجب ہوا فرمایا سب نہیں ایک ہی سنا دو ۔ میں نے امام صاحب کے انداز میں اور ہاتھ کے اشارے سے ایک نہیں پوری پچیس احادیث جو اس محفل میں بیان ہوئی تھیں سنا دیں۔
(جاری ہے)