مودی بھارت کو لے ڈوبے گا

بھارت کو تو نہ پاک چین دوستی پسند ہے اور نہ ہی سی پیک منصوبہ ایک آنکھ بھا رہا ہے۔


عثمان دموہی May 17, 2020
[email protected]

جھوٹے بھارتی میڈیا کے مطابق امریکی ایلچی خلیل زاد نے طالبان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھارت سے مذاکرات کریں تاکہ آگے کے افغان مسائل کا حل نکالا جاسکے۔ یہ خبر بڑی حیران کن تھی کہ آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ جب بھارت افغانستان قضیے کا فریق ہی نہیں ہے تو طالبان ایک غیر متعلق ملک سے کیونکر مذاکرات کرسکتے ہیں۔

بھارت کا تو طالبان امریکا امن مذاکرات میں بھی کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ بھارت تو صرف امریکا کی آشیرباد سے افغان سرزمین پر موجود ہے۔ درست خبر یہ ہے کہ زلمے خلیل زاد کا مشہور بھارتی اخبار ''دی ہندو'' کی 5 مئی کی اشاعت میں ایک انٹرویو شایع ہوا ہے جس میں انھوں نے بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اب وقت ضایع نہ کرے اور طالبان سے مذاکرات شروع کرے اور ان سے اپنے تلخ تعلقات کو نارمل بنانے کی کوشش کرے کیونکہ اب طالبان افغانستان میں ایک سیاسی حقیقت ہیں اور مستقبل کی افغان حکومت کے وہی حکمران ہیں۔

زلمے خلیل زاد کا بھارت کو یہ مشورہ حقائق پر مبنی ہے اس لیے کہ اشرف غنی کی حکومت اب کچھ ہی عرصے کی مہمان ہے۔ اس وقت وہ اپنی ہٹ دھرمی سے وہاں حکمرانی کر رہے ہیں جو کسی وقت بھی انجام کو پہنچ سکتی ہے۔ چنانچہ اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھارت کا افغانستان میں کیا بنے گا۔ طالبان اسے وہاں ایک منٹ بھی برداشت نہیں کرپائیں گے۔ اس نے پاکستان دشمنی میں وہاں جو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، اس کا کیا ہوگا ؟لیکن لگتا ہے بھارت ان باتوں پر غور نہیں کر رہا ہے ،اس لیے کہ وہ اس وقت اپنے زرخرید غلام اشرف غنی کے ذریعے وہاں من مانی کر رہا ہے۔ اشرف غنی اس کے ہر حکم کو بجا لانے کا پابند ہے۔

امریکا بھی بعض مصلحتوں کے تحت اس کی وہاں موجودگی سے بہت خوش ہے حالانکہ بھارت افغان امن مذاکرات کے عملی جامہ پہننے میں اصل رکاوٹ ہے وہ وہاں سے کھل کر پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کروا رہا ہے مگر امریکی حکومت نے پاکستان کے لاکھ احتجاج کے باوجود بھی اسے ایسا کرنے سے نہیں روکا ہے۔

اور بھارت کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے امریکا کو ابھی افغانستان میں کچھ عرصہ اور ٹھہرانا چاہتا ہے کیوں کہ وہ چین سے پنگا لینے کا پلان بنا چکا ہے۔ وہ ساؤتھ چائنا سی میں واقع چند اہم چینی جزائر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور بھارت اس وقت امریکا اور چین کے درمیان جنگ چھڑنے کا انتظار کر رہا ہے۔ مودی کی یہ پلاننگ ہے کہ جیسے ہی امریکا چین پر حملہ کرے گا وہ گلگت بلتستان پر حملہ آور ہو جائے گا اور یہ حملہ دو طرفہ ہوگا یعنی بھارت کے ساتھ ساتھ وہ افغان سرزمین کو بھی پاکستان پر حملے کے لیے استعمال کرے گا۔

مودی کی طفلانہ سوچ کے مطابق چین امریکی حملے کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہونے کی وجہ سے پاکستان کی مدد کو نہیں آسکے گا۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ سی پیک امریکا اور بھارت دونوں کو ہی بری طرح کھٹک رہا ہے۔ امریکا نہیں چاہتا کہ چین کے تیل بردار اور دیگر تجارتی جہاز مغرب سے چین جاتے ہوئے طویل راستہ اختیار کرنے کے بجائے گوادر کی چین سے نزدیکی بندرگاہ استعمال کرسکیں۔

بھارت کو تو نہ پاک چین دوستی پسند ہے اور نہ ہی سی پیک منصوبہ ایک آنکھ بھا رہا ہے چونکہ سی پیک کا راستہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے چنانچہ بھارتی میڈیا کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے سے دہلی میں روزانہ ہی اہم میٹنگیں ہو رہی ہیں جن میں مودی، امیت شا، اجیت دوول اور جے شنکر کے علاوہ بری ، بحری اور فضائی افواج کے سربراہان حصہ لے رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ گلگت بلتستان پر حملے کا لائحہ عمل طے کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کو خبردار کرنے کے لیے تمام ٹی وی چینلز کو گلگت اور مظفر آباد کے موسم کا حال بتانے کا پابند کردیا گیا ہے جس پر عمل درآمد جاری ہے۔ مودی کو اس حملے کا اس لیے بھی پلان بنانا پڑا ہے کیونکہ بھارت کے اندرونی حالات اس کے سخت خلاف جا رہے ہیں، اس کی ہرپالیسی ناکامی سے دوچار ہوگئی ہے۔ کورونا کے سلسلے میں لاک ڈاؤن کرنے میں بغیر سوچے سمجھے اتنی جلد بازی سے کام لیا گیا ہے کہ دور دراز ریاستوں کے جو مزدور بڑے شہروں میں مزدوری کے لیے آئے تھے انھیں پیدل ہی اپنے گھروں کو واپس جانا پڑا ہے جس سے سیکڑوں مزدور راستے میں ہی ہلاک ہوگئے ہیں۔

کورونا پھیلانے کے مسلمانوں پر جھوٹے الزامات لگانے اور دلتوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی نفرت نے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کردی ہے۔ کشمیریوں پر مسلسل طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے عالمی برادری سخت تشویش ظاہر کر رہی ہے۔ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف آر ایس ایس کے غنڈوں کے ٹویٹس نے عرب ممالک کو ناراض کردیا ہے وہ سخت ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ اسی طرح مودی کی غلط پالیسی کی وجہ سے بھارت کے عرب ممالک سے برسوں پرانے تعلقات داؤ پر لگ گئے ہیں۔

مودی کے جنگی جنون نے معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ مودی دراصل پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ کر اپنے تمام ناقدین کا منہ بند کرنے کے علاوہ سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ ادھر ٹرمپ کو کورونا کو روکنے میں ناکامی کی وجہ سے اگلا صدارتی الیکشن جیتنا مشکل نظر آ رہا ہے وہ چین سے پنگا لے کر اپنے عوام کی توجہ کورونا سے جنگ کی جانب پھیرنا چاہتا ہے۔ پہلے وہ اپنی فوجوں کو افغانستان سے نکال کر امریکی عوام کا فیور حاصل کرنا چاہتا تھا مگر لگتا ہے اب وہ چین کو گوادر بندرگاہ سے محروم کرنا اس سے بھی بڑا معرکہ خیال کرتے ہوئے اس سلسلے میں افغان امن معاہدے پر عمل درآمد روک کر مودی کو افغانستان سے پاکستان پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہتا ہے۔

اگر ایسا ہوا تو پاکستان مشرق کے ساتھ ساتھ مغربی جانب سے بھی بھارتی حملوں کی زد میں آسکتا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک مشکل جنگ ضرور ہوگی تاہم پاکستان بھارت کی اس دو طرفہ جنگ کا بھی چین کی مدد کے بغیر ہی منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وقت مودی پر طاری جنگی جنون کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے بالاکوٹ پر حملے کے بعد اب اس سے ایک مزید بڑی غلطی سرزد ہونے والی ہے۔

امید ہے کہ ہمارے سیاسی اور عسکری قائدین اس صورتحال کا پہلے سے ہی ادراک رکھتے ہوں گے اور مودی کی اس بے وقوفی سے نمٹنے کا بندوبست بھی کرچکے ہوں گے۔ البتہ اب بعض بھارتی تجزیہ کاروں کی یہ بات درست ہی معلوم ہوتی ہے کہ مودی بھارت کی تباہی کا دیوتا بن کر نازل ہوا ہے وہ اپنی بے وقوفانہ سوچ سے بھارت کو تباہ و برباد کیے بغیر نہیں رہے گا۔ کاش کہ بھارتی عوام ہوش کے ناخن لیں اور جتنی جلدی ہو سکے اس مصیبت سے نجات حاصل کرلیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں