یونیورسٹی لاء کالج کی صدارت … کچھ یادیں آخری قسط
قارئین کو بتاتا چلوں کہ محترم طاہر القادری صاحب (PAT کے سربراہ) ان دنوں لاء کالج میں لیکچرر تھے۔
ISLAMABAD:
لاء کالج ہوسٹل کا بڑا منفرد کلچر تھا،اکثریّت تو محنتی اور ذہین طلباء کی تھی مگر کچھ بڑے زمینداروں کے بیٹے اور میانوالی اور سرگودھا کے کڑیل جوان صبح گیارہ بجے تک سوتے رہتے، حجام ان کے کمروں میںہی پہنچ جاتا اور حالتِ مخموری میں ہی ان کی شیو بنا دیتا ۔وہ اس بات کا خاص خیال رکھتا کہ ''صاحب'' کی نیندخراب نہ ہونے پائے، مذکورہ صاحبان دوپہر کو اٹھ کر بعد از غسل لنچ تناول فرماتے اور پھر کلف شدہ بوسکی کے کرتے پہن کر انار کلی کا رخ کرتے۔ ہوسٹل میںمیرے ساتھ والا کمرہ عظمت سعید (بعدمیں جسٹس عظمت سعید) کا تھا۔
موصوف اس وقت بھی Intellectual قسم کے تھے۔ ہم ایل ایل بی میں پہنچے تو میرا بہت قریبی دوست سیرت اصغر میرے کمرے میں شفٹ ہو گیا اور ہم ایک کمرے میں رہنے لگے۔ سیرت کو قدرت نے غیر معمولی ذہانت اورقابلیت سے نوازا تھا، رات کے کھانے کے بعد ہم مال روڈ پر سیر کے لیے نکلتے (اس وقت رش بالکل نہیں ہوتا تھا اور سیر بڑی خوشگوار ہوتی تھی) تو وہ ساحر اور فیض کی غزلیں اور ''آواز دوست'' کے صفحوں کے صفحے زبانی سنا دیتا ( بعد میں وہ فیڈرل سیکریٹری بنا اور انتہائی دیانتدار اور با ضمیر افسر کے طور پر نیک نامی کما کر ریٹائر ہوا)۔
قارئین کو بتاتا چلوں کہ محترم طاہر القادری صاحب (PAT کے سربراہ) ان دنوں لاء کالج میں لیکچرر تھے۔ وہ اسلامی قانون پڑھاتے تھے۔ بڑے محنتی، صاحبِ مطالعہ اور اعلیٰ پائے کے مقررّ تھے۔ انھی دنوں (جنرل ضیاء الحق کا دور تھا) حکومت نے سپریم کورٹ میں شریعت بنچ بنانے کا فیصلہ کیا جس پر قانونی حلقوںکے بڑے تحفظات تھے، اس پراسٹوڈنٹس یونین کی طرف سے ہم نے ایک سیمینار منعقد کیا جس میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اور سینئر وکلاء نے اظہار ِ خیال کیا۔ میں نے لاء کالج کی نمائندگی کے لیے قادری صاحب کا نام شامل کیا جس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ باقی مقررین بڑے سینئر لوگ ہیں اور قادری صاحب ابھی جونئیر لیکچرر ہیں مگر میں نے یہ اعتراض ویٹو کر دیا۔ قادری صاحب نے تقریر بھی اچھی کی۔
میری صدارت کے دوران ہی پنجاب یونیورسٹی کے نئے کیمپس میں لاء کالج کی نئی بلڈنگ مکمل ہو گئی اور کالج وہاں شفٹ ہوگیا۔ ہم نے بچپن ہی سے نامور قانون دان جناب اے کے بروہی کی قابلیت کے تذکرے سن رکھے تھے۔ ان دنوں وہ وزیر قانون تھے۔ ہم نے ٹھان لی کہ انھیں بھی لاء کالج مدعو کیا جائے گا تاکہ مستقبل کے وکیل وقت کے سب سے بڑے جیورسٹ کی باتیں سن سکیں، چنانچہ میں اور سیکریٹری جنرل عارف اقبال اسلام آباد گئے اور بروہی صاحب سے مل کر انھیں لاء کالج آنے پر آمادہ کر لیا۔
اس کے بعد کیا ہوا،پینتیس سال قبل کے واقعات میرے ذہن سے محو ہو چکے تھے مگر ہمارے سیرت صاحب کو جزئیات تک یاد تھیں۔ 2014 کے دھرنے کے دنوں میں انھوں نے دوستوںکی محفل میںکئی بار یہ قصّہ سنایا ۔ انہی کی زبانی سنئیے ''ذوالفقار نے پرنسپل صاحب سے گاڑی مانگی، مجھے ساتھ لیا اور ہم اے کے بروہی صاحب کو لینے ایئرپورٹ پر پہنچ گئے۔ بروہی صاحب جہاز سے اترے ، ہم نے آگے بڑھ کر استقبال کیا (کار جہاز کے پاس پہنچی تھی) اور انھیں کار میں بٹھایا، میں آگے بیٹھ گیا اور یہ بروہی صاحب کے ساتھ پیچھے بیٹھ گئے۔ ابھی وزیر صاحب نے سانس بھی درست نہ کی تھی کہ چیمہ صاحب نے طاہر القادری صاحب کی سفارش کرتے ہوئے کہا سر ! لاء کالج میں ایک بہت قابل پروفیسر ہیں، اگر ان کی خدمات لاء منسٹری کے حوالے ہوں تو وہ بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوں گے۔
اس کے بعد کالج کے سیمینار میں اپنے خطبہء استقبالیہ میںذوالفقار نے کچھ ایسی باتیں کر دیں جو وزیر صاحب کو نا گوار گزریںلیکن چائے پر ان کا موڈ خوشگوار ہو گیا۔ جب ہم انھیں رخصت کرنے لگے تو چیمہ صاحب نے پھر قادری صاحب کی بات شروع کر دی غالبََا قادری صاحب نے انھیں کہا ہوا تھا۔ بروہی صاحب نے کہا ''کہاں ہیں وہ حضرت ان سے ملوائیں'' اس پر انہوں نے بڑی اونچی آواز لگائی قادری صاحب جلدی آئیں۔ قادری صاحب دوڑتے ہوئے پہنچے اور آکربروہی صاحب کو فائل (CV)تھما دی۔ اس کے بعد وہ غالبََا اسلام آباد بھی گئے تھے۔
2014 کے دھرنے کے دنوں میں استادِ محترم کی غیر آئینی سرگرمیاں دیکھ کرپرانے دوست مجھے یہ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے کہ کیرئیر کے آغاز میںطاہرالقادری صاحب کو پروموٹ کرنے میں تمہارا بھی ہاتھ ہے اس لیے جو کچھ ہو رہا ہے اس کے تم بھی ذمے دار ہو۔ہم لاء کالج سے فارغ ہوگئے تو پھر میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔بعد میں پتہ چلا کہ طاہر القادری صاحب کا میاں نواز شریف فیملی کے ساتھ رابطہ ہو گیا ہے ، جس سے ان کے لیے اقتدار، شہرت اور آسودگی کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد میاں نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔
اس وقت استاد محترم کو شریف فیملی کے روحانی گائیڈ اور پیر کا درجہ حاصل ہو چکا تھا اس لیے ان کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا اورمنہاج القرآن کے لیے اراضی بھی الاٹ ہو گئی۔ اس وقت تک میں بھی پولیس سروس میں جا چکا تھا اس لیے مجھے علم ہے کہ بہت سے پولیس افسران پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے لیے ان کے آگے پیچھے پھرتے تھے۔فیضیاب ہونے والے کئی سینئر افسران نے اپنے سرکاری دفتروں میں طاہر القادری صاحب کے فوٹو لگا لیے تھے۔ مختلف اضلاع کی پولیس لائنوں میں ان کے خطابات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ میاں نواز شریف کے ساتھ تعلق نے ان کے لیے سیڑھی کا کام کیا ۔
انسان کے پاس جب دولت اور شہرت آجائے تو اس کا اگلاہدف اقتدار ہو تا ہے، غالبََا یہی خواہش وجہء نزاع بنی اور نو ّے کی دہائی میں ہی وہ شریف برادران (جنھوں نے ان پر بڑی عنایات کی تھیں) سے ناراض ہو گئے اور ان کی خلاف بیانات دینے لگے، افسوس ہے کہ میدان سیاست میں داخل ہوکر استاد محترم سیاست کی تمام قباحتوں میں ملوث ہوتے چلے گئے۔ اگر محترم طاہر القادری صاحب سیاست میں نہ پڑتے تو بریلوی مکتب فکر کے سب سے بڑے عالم ہوتے۔ پچھلے کالم میں ثاقب نثار صاحب کا ذکر ہوا۔ میراان کے ساتھ احترام ا ور دوستی کا رشتہ ہمیشہ قائم رہا ۔
وہ اور میرے بڑے بھائی (جسٹس(ر) افتخاراحمد چیمہ ( اکٹھے ہائیکورٹ کے جج بنے تھے، بھائی صاحب سب سے سینئر سیشن جج تھے جب کہ ثاقب نثار صاحب(وزیر اعظم نواز شریف کو کی جانے والی)سفارش کے ذریعے یہ منصب حاصل کرنے میں کامیاب ہو ئے تھے۔ اس سے پہلے ان کے سفارشی کے اصرار پر پرائم منسٹر نے ایک انتہائی قابل، دیانتدار اور با ضمیر جج ملک اختر حسن(جو فیڈرل لاء سیکریٹری تھے) کو ہٹا کر انھیں یعنی ثاقب نثار صاحب کو لاء سیکریٹری لگا دیا۔ جس پر قانونی حلقوں میں بڑا شور مچا( پرائم منسٹر آفس میں تعیناتی کے باعث میں اس سارے پروسیس کا عینی شاہد تھا) ۔
ثاقب نثار صاحب پر تو میاں نواز شریف کا یہ بہت بڑا احسان تھا مگر یہ تھی بہت بڑی زیادتی ،کئی روحانی بزرگوں کے بقول میاں صاحب کو آج جن مصائب کا سامنا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں مردم شناسی کی کمی ہے ۔ جسٹس ثاقب نثار صاحب کے چیف جسٹس بننے سے چند ماہ قبل میں نے ان سے ملکر کہا تھا کہ بطور چیف جسٹس آپ کا ایسا کردار ہونا چاہیے کہ پوری قوم جس کی ستائش کرے اور آپکے کلاس فیلوز کا سر فخر سے بلند ہوجائے۔ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے وہ غیر جانبدار نہیں رہ سکے۔
ان کے فیصلوں نے کئی قومی اداروں کو برباد کیا اور ملک کو عدم استحکام کی دلدل میں دھکیل دیا۔ ان کے لاء کالج کے اکثر کلاس فیلوز یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ بطورچیف جسٹس قوم اور اپنے کلاس فیلوز کے سر جھکا کر چلے گئے۔ اسی طرح جب 2014 میں راقم نے علامہ طاہر القادری صاحب کو (جو قانون کے استاد رہے تھے) قومی اداروں پر حملہ آور ہونے کے لیے اپنے ورکروں کو اکساتے دیکھا تو بے پناہ صدمہ پہنچا،کاش ایسا نہ ہوتا اور ہم فخر کے ساتھ محترم طاہر القادری صاحب کی شاگردی اور ثاقب نثار صاحب کی دوستی کا ذکر کیا کرتے۔
اسٹوڈنٹس یونین کے عہدیدار ہر معاملے میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں حتیٰ کہ داخلوں اور اساتذہ کی تقررّیوں میں بھی دخل اندازی کرتے ہیںمگر میں نے دیکھا کہ لاء کالج کے پرنسپل شیخ امتیاز علی صاحب اگر اسٹوڈنٹس یونین کی سفارش نہ مانتے تو صوبے کے پھنے خاں گورنر اور وزیراعلیٰ کی سفارشیں بھی ردکر دیتے تھے۔ ان کی اصول پسندی اور میرٹ دیکھ کر میرے دل میں ان کے لیے بے حدعزت و احترام پیدا ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی کی یونین شیخ صاحب سے ناخوش تھی اور انھیںٹف ٹائم دینے پر اصرار کرتی تھی مگر میں نے ان سے اتفاق نہ کیا کیونکہ مجھے خود (گھر کی تربیت کے باعث) شیخ صاحب کے اصول، انصاف اور سخت گیری پسند تھی ۔ اس پر یونیورسٹی یونین والے مجھ سے بھی ناراض ہو گئے۔
مجھے یاد ہے ہم نے ایل ایل بی کے امتحان کے بعد اسٹوڈنٹس یونین کی طرف سے نئی عمارت میں الوداعی تقریب منعقد کی ، جس میں پرنسپل صاحب اور تمام اساتذہ اور طلباء نے شرکت کی۔ اس موقع پر بحیثیت صدر یونین راقم نے طلباء کے لیے کی جانے والی مختلف خدمات کا ذکر کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ '' میں آج بڑے فخر سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے لاء کالج میں agitational politics کی بجائے educational politics کی بنیاد رکھی ہے'' ۔ توحاضرین کی پر زور تالیوں نے اسکی بھرپور تائید کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دور میں طلباء کی سیاست کو تشدد اور سیاسی پارٹیوں کی مداخلت نے انتہائی خطرناک اور نقصان دہ بنا دیاتھا۔ اسی لیے آج میں اسٹوڈنٹس یونینز کے انتخابات کے حق میں نہیں ہوں۔