پیسہ بولتا ہے

مَنی پلانٹ کو اردو میں ’پیسہ بیل‘ کہا جاتا ہے


مَنی پلانٹ کو اردو میں ’پیسہ بیل‘ کہا جاتا ہے ۔ فوٹو : فائل

ممتاز ادیب، شاعر اور براڈکاسٹر جناب سہیل احمدصدیقی کا کالم 'زباں فہمی' روزنامہ ایکسپریس کے ادبی صفحے 'ادب نگری' میں دو سال تک شایع ہوا (سن دوہزار پندرہ تا دوہزارسترہ)۔ ادبی صفحے کی اشاعت موقوف ہونے کے بعد ، انھوں نے ہماری فرمائش پر سنڈے میگزین کے لیے 'سخن شناسی' کے عنوان سے پچیس دل چسپ مضامین تحریر کیے۔ ہم زباں فہمی کا منقطع سلسلہ بحال کرتے ہوئے زیرِِنظر مضمون آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں)

زباں فہمی نمبر پچاس

اردو کے بہت سے الفاظ وتراکیب اور محاورے ایسے ہیں کہ ہرچند لغات میں موجود ہیں اور اہل علم وادب کی تحریرو تقریر میں استعمال بھی ہوتے ہیں، مگر اُن کا رواج اس قدرکم ۔یا۔ متروک ہوگیا ہے اور ان کے مقابل انگریزی یا کسی دیگر غیرملکی زبان کا کوئی لفظ، ترکیب یا محاورہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ کم خواندہ یا ناخواندہ لوگوں پر کیا موقوف، اہل قلم بھی ان سے واقف نہیں یا انھیں سِرے سے بھول چکے ہیں۔ آج کتنے لوگ ایسے ملیں گے جنھیں Touch-me-Notکا اردو متبادل معلوم ہوگا، Violetکو اردو میں کیا کہتے ہیں، اس سے باخبر ہوں گے اور یہ بھی چھوڑیے، مَنی پلانٹ [Money plant]کی اردو کیا ہے، کتنے لوگ بتاسکتے ہیں؟

مَنی پلانٹ کو اردو میں 'پیسہ بیل' کہا جاتا ہے۔ راقم نے یہ لفظ اپنی لائق فائق والدہ مرحومہ سے بارہا سنا، البتہ وہ رواج عام کے تحت، کبھی کبھار انگریزی نام بھی استعمال کرلیا کرتی تھیں۔ یہ بیل غالباً کراچی اور پاکستان کے گھروں اور دفاتر لگائی جانے والی سب سے زیادہ مقبول بیل ہے جو دیوارگیِر [Wall creeper] بھی ہے اور کانچ کی بوتل میں لگائی جانے والی آرائشی بیل بھی۔ راقم نے اپنے مجموعہ ہائیکو کلام 'خوش کن ہے پت جھڑ' (مطبوعہ سن دوہزار چھَے) میں شعوری کاوش سے بعض ایسے الفاظ وتراکیب پر مبنی ہائیکو کہہ کر شامل کیں جن سے قارئین کی معلومات میں اضافہ ہو، نیز اُن کا رواج بحال ہو، گویا احیاء ہو۔ سو خاکسار نے اپنی ایسی ہی ایک ہائیکو میں اس بیل کا اردو نام 'پیسہ بیل' بھی استعمال کیا:

جیون پیسہ بیل

جس نے بہتر سمجھا ہے

اُس کی ریل پیل

ممتاز شاعر ہ و نثر نگار شاہدہ تبسم مرحومہ نے میرے مجموعہ کلام کے متعلق تنقیدی مضمون لکھا تو دیگر نکات کے علاوہ ، میری اس کلاسیک پسندی کی بھی خوب خوب تعریف کی کہ اَب یہ لفظ کہیں سننے میں نہیں آتا۔ (ضمنی مگر اہم نکتہ یہ ہے کہ جب خاکسار نے اپنی کتاب کے متعلق تنقیدی مضمون لکھنے کی درخواست چند بزرگ معاصر دوستوں سے کی تو سب نے، میری استدعا کے باوجود، مصلحتاً تحسینی مضمون لکھا، جبکہ شاہدہ تبسم صاحبہ نے بغورجائزہ لیتے ہوئے، خوب کو خام سے جُدا کردکھایا اور یوں تنقید کا حق ادا کیا۔ اللہ اُن کی مغفرت کرے۔ آمین)۔

بات چل نکلی ہے تو عرض کرتا چلوں کہ ہماری خواتین میں پودوں کے متعلق بھی بہت سے اَوہام اس قدر پختہ ہیں جیسے (معاذاللہ) عقائد کا حصہ ہوں۔ کوئی بڑی بوڑھی ایسی بھی ملیں گی جو اپنی کسی ہم سِن یا چھوٹی کو یہ بتاتی دکھائی دیں گی کہ ''اَئے! یہ پیسہ بیل نہ لگانا، راس آئے تو بندہ مالامال، ورنہ کنگال کردیتی ہے۔'' پھر شاید کوئی ایسی بھی کہیں مل جائیں جو یہ کہہ کر آپ کی معلومات میں 'اضافہ' کریں کہ پیسہ بیل لگاؤ تو ایک پیسہ ڈال دینا، جب وہ گل جائے تو دوسرا، ایسے ہی تیسرا اور یہ سلسلہ جاری رکھنا، بہت مفید ہے وغیرہ وغیرہ۔ آپ کو یہ بات جان کر شاید حیرت ہو کہ ہمارے دوست ملک، عوامی جمہوریہ چین میں بھی اس قسم کی توہم پرستی موجود ہے۔ چین کا قدیم طرز (روحانی) علاج فینگ شوئی [Feng Shui] بھی، گھر اور دفتر میں دولت کی ریل پیل کے لیے، ایک خاص قسم کا منی پلانٹ لگانے کی تعلیم اور ترغیب دیتا ہے۔

ایک پرانی، مقبول قوالی میں پیسے کے حوالے سے مشہور محاورہ 'پیسہ بولتا ہے' کا عمدہ استعمال سننے میں آیا، جس کے شاعر سائل آزاد ؔتھے اور قوال تھے، مرحوم صابری برادران۔ سائل آزادؔ کے حوالے سے کچھ خامہ فرسائی کرتے ہوئے پہلے اس قوالی کے چند بول آپ کی نذرکرتا ہوں:

سنسار میں باجے ڈھول

یہ دنیا میری طرح ہے گول

کہ پیسہ بولتا ہے

سائل آزاد ؔ کی مادری زبان کچھی تھی اور انھوں نے اردو اور سندھی کے متعدد مشہور ومقبول نغمات تخلیق کیے۔ کومل رضوی سمیت کئی گلوکاروں نے اُن کے کلام سے شہرت اور پیسہ کمایا، مگر افسوس ..... شہرت ودولت سے کوسوں پرے، یہ مشّاق سخنور آج بھی قدرے گم نام ہے۔ اب اُسے داد کی طلب ہے نہ جاہ کی، کیوںکہ وہ ہم سے بہت دور 'عدم آباد ' جاچکا ہے۔ بات کی بات ہے کہ یہ قوالی تو آپ یوٹیوب پر سنیں گے ہی، اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی فلم 'کالا بازار' میں مشہور مزاحیہ اداکار قادرخان (مرحوم) اور جانی لیور پر فلمایا ہوا یہ گانا بھی ملاحظہ کریں، جس کے مُندَرِجہ ذیل (ابتدائی) بول، سائل آزاد ؔ کی مشہورِ زمانہ قوالی کا چربہ محسوس ہوتے ہیں۔ شاعر کا نام ہے، پیامؔ سعیدی، مُوسیقار ہیں راجیش روشن اور گلوکار ہیں نیِتن مُکیش[Nitin Mukesh]

ٹھن ٹھن کی سنو جھنکار

یہ دنیا ہے کالا بازار

یہ پیسہ بولتا ہے

میں گول ہوں، دنیا گول

میں بولوں، کھول دوں سب کی پول

یہ پیسہ بولتا ہے

آگے چل کر بول تو مختلف ہیں، مگر خیال کا تسلسل وہی ہے اور ٹیِپ کا بول بھی: یہ پیسہ بولتا ہے

گزشتہ برسوں میں کئی بار سائل آزادؔ نے، راقم کی موجودگی میں، جاپان ثقافتی مرکز، کونسلیٹ جنرل آف جاپان و پاک جاپان کلچرل ایسوسی ایشن (سندھ) کے زیراہتمام منعقد ہونے والے سالانہ ہائیکو مشاعروں میں اپنا کلام پیش کیا اور داد تحسین پائی، مگر اُن کی یہ منفرد اور مقبول کلام ہائیکو ایسی ہے کہ ہائیکو سے ناواقف یا اس کے مخالف بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ملاحظہ فرمائیں:

صحرا کی دختر

آنکھیں تر، سوکھی گاگر

آگ اگلتا تھَر

علم عروض سے نابلد، محض سُر کی بنیاد پر شعر کہنے والا سائل آزادؔ کبھی کبھی ناموزوں ہائیکو بھی کہہ دیتا تھا، مگر اُس کی یہ ایک ہائیکو مشاعرہ لوٹنے کے لیے کافی تھی۔ ہائیکو کے جو مخالف یہ کہتے ہیں کہ اس صنف سخن میں بڑی شاعری نہیں ہوسکتی یا اردو میں نہیں ہوسکتی، وہ یہ مختصر نظم دیکھیں اور اسی خیال کی عکاسی دومصرعوں میں کردکھائیں۔ سائل آزادؔ کی ایک اور ہائیکو ہے:

اکثر خوابوں میں

قصے پڑھتا رہتا ہوں

بند کتابوں میں



سائل آزادؔ نے مرحوم اقبال حیدر کی منتخب ہائیکو کا سندھی میں منظوم ترجمہ بھی کیا جو خاکسار کے جریدے ہائیکوانٹرنیشنل ('اقبال حیدرنمبر') میں شایع ہوا۔ سائل آزادؔ مفلس تھا، غربت وافلاس کی عکاسی بھی دیگر سے بہتر کرتا تھا، مگر دل کا بہت غنی تھا۔ اُس سے بہت مدت کے وقفے سے ملاقات ہوا کرتی تھی، کبھی سالانہ ہائیکو مشاعرے میں تو کبھی پاکستان ٹیلی وژن، کراچی سینٹر میں ......جب بھی ملتا ، عمر میں اس قدر تفاوت کے باوجود، اپنے اِس خورد معاصر سے جھک کر، مسکراکر خیریت دریافت کرتا:''سائیں صدیقی صاحب! کیسے مزاج ہیں؟ سر! آپ ہمیں یاد رکھتے ہیں، بڑی مہربانی۔''......ایسے مجسمہ انکسار تو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ ہمارے مشاہیر خواہ کسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، چھوٹے یا برابر کے لوگ تو کُجا، اپنے بڑوں ہی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ سائل آزادؔ فقط محبت کے بدلے محبت کا سائل (طالب) تھا اور حقیقی معنوں میں آزاد منش تھا کہ کسی کے ٹکڑوں پر نہیں پلا۔ اللہ اُسے جواررحمت میں جگہ دے، آمین!

ہائیکو کے حوالے سے ایک تصحیح یہاں ناگزیر محسوس ہورہی ہے۔ راقم نے بارہا اپنی تحریر وتقریر میں عرض کیا کہ اردو میں ہائیکو کا تعارف، لکھنؤ کے مؤقر جریدے، نگار کے سال نامہ بابت سن انیس سو بائیس (1922)میں شامل ایک مضمون کے ذریعے ہوا جس کے مصنف کا نام تھا: بیرسٹر عابد جعفری۔ یہ مضمون راقم نے اپنے جریدے ہائیکو انٹرنیشنل کے شمارہ ہفتم میں کوئی اُنیس سال قبل، ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے ایماء پر، انھی کے شکریے کے ساتھ دوبارہ شائع کیا تھا۔

{ اتوار سات مئی دوہزار سترہ کو محترمہ نسیم انجم کے کالم میں (جو ایکسپریس ہی میں شائع ہوا) ایک صاحب کی کتاب سے یہ غلط بیان منقول دیکھا کہ بقول ڈاکٹرانورسدید مرحوم (مصنف اردو ادب کی مختصر تاریخ)، اس صنف کا آغاز، ظفراقبال صاحب نے 'لیل ونہار' میں تراجم شائع کرکے کیا۔ خاکسار کو یہ شرف حاصل ہے کہ مرحوم نقاد کے روبرو، (ستمبر سن دوہزار میں، اُن کے دفتر میں ہونے والی واحد ملاقات میں)، اس کی تصحیح کرکے اُن سے، ان کی کتاب کی کسی آیندہ اشاعت میں یہ عبارت شامل کرنے کا وعدہ لیا، جو اوپر مذکور ہے۔ یہی نہیں، بلکہ مرحوم ڈاکٹر سلیم اختر سے واحد ملاقات میں بھی اُن کی کتاب ''اردوادب کی مختصرترین تاریخ'' میں ہائیکو کا باب شامل کرنے کا وعدہ لیا تھا (ستمبر سن دوہزار میں)}۔

اس مختصر تعارفی مضمون کے بعد، ایک طویل عرصے تک سناٹا رہا اور پھر سن انیس سو چھتیں (1936)میں ماہنامہ 'ساقی' (دہلی) کا مشہور زمانہ ''جاپان نمبر'' شایع ہوا، جس کے توسط سے اہل ہند، جاپانی اصناف سخن کی طرف متوجہ ہوئے۔ (یہ ''جاپان نمبر'' کچھ سال پہلے تک ممتاز کتب خانہ 'غالب لائبریری' کی زینت تھا، جسے ہمارے ایک خورد معاصر، صحافی و ادیب خرم سہیل نے جدید طرز پر شایع کیا)۔ اس کے بعد، برصغیر پاک وہند کے متعدد معروف و غیرمعروف شعراء نے جاپانی ہائیکو کے (انگریزی کے توسط سے) تراجم کیے۔ چند ایک کے متعلق شُنید ہے کہ انھوں نے طبع زاد بھی لکھنے کی سعی کی۔ یہ تمام معاملہ سن انیس سو چالیس تا اُنیس سوساٹھ چلا۔ درمیان کی کڑیاں یقیناً تحقیق طلب ہیں۔ یہ بات ابھی پایہ تحقیق کو نہیں پہنچی کہ اولین مترجمین بشمول حمید نظامی اور میراجی نے طبع زاد ہائیکو بھی کہیں یا نہیں۔ اس اثناء میں ہندوستان کے ایک ہندوسندھی شاعر نے ہائیکو نگاری کی ابتدا کی تو پاکستان کے سندھی شعراء بھی اس کی طرف مائل ہوئے۔

سن انیس سو تریسٹھ میں مرحوم محسن بھوپالی نے سندھی سے اردو میں ہائیکو کا ترجمہ کیا۔ سن انیس سو ستر کے لگ بھگ، ''لب ِ مہران'' (حیدرآباد، سندھ کے قریب، دریائے سندھ کے کنارے) ڈاکٹر تنویر عباسی (پاکستانی سندھی میں ہائیکو کے نقیب اوّل)، شیخ ایاز اور پروفیسر آفاق صدیقی مرحوم نے نجی محفل کو یادگار بناتے ہوئے ایک دوسرے کو طبع زاد، اردو ہائیکو کہنے کی دعوت دی۔ یکے بعد دیگرے اسی ترتیب سے اردوہائیکو کہی گئی، یوں اردو پر دو سندھی شعراء کا احسان، اولیت کی بابت ہوا اور (اردو گو شعراء میں) ہمارے بزرگ کرم فرما آفاق صدیقی، اولین طبع زاد اردو ہائیکو نگار ٹھہرے۔ (خاکسار نے ڈاکٹر تنویر عباسی کی سندھی ہائیکو کا منظوم ترجمہ کیا ہے)۔

پیسے کے متعلق بہت سے محاورے اور کہاوتیں ہماری زبان میں مروج ہیں۔ فیس بک پر لکھا ہوا یہ محاورہ ابھی ابھی دیکھا تو تعجب ہوا کہ پہلے کبھی نہ سنا: 'نہ پیسہ نہ پھُوٹی کَوڑی۔ بیچ بازار میں دَوڑادَوڑی'۔ اور اس کا مفہوم وہی بیان کیا گیا ہے جسے آپ انگریزی میں Window shoppingکہہ کر ادا کرتے ہیں۔ ویسے پیسے کے بے جا استعمال کے لیے مشہور ہے، ''ہاتھ نہ مٹھی ، ہڑبڑا اُٹھی''....نیز ''گھر میں نہیں دانے، میاں چلے بھُنانے۔'' بات کی بات ہے کہ خاکسار نے اپنے ایک گذشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ میمن حضرات نے اردو کی چالو زبان (بولی ٹھولی۔Slang) میں ایک دل چسپ اضافہ کیا ہے: ''باتیں کروڑوں کی، اوقات نہیں پکوڑوں کی'' ۔یا۔ بہ الفاظ دیگر: ''دکان نہیں پکوڑوں کی، باتیں کروڑوں کی''۔ لفظ پیسہ کا استعمال کیے بغیر اتنا مؤثر تبصرہ....واہ واہ۔

محترم محمد عثمان جامعی کی فرمائش پر شروع ہونے والے اس سلسلے کا آج پچاسواں کالم ہے۔ اس کے بارے میں اپنی تنقیدی آراء سے ضرور آگاہ کیجے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔